ملک کے طول و عرض میں ارتداد کی لہر چل پڑی ہے ،دین و ایمان جو قیمتی متاع ہے وہ کہیں گم ہوگئی ہے ،ارتداد کے روح فرسا واقعات نے ملت کے ذمہ داروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ،پورے ملک میں اصلاح معاشرہ کی تنظیمیں کام کررہی ہیں مختلف دینی تحریکات اسلامی ادارے باطل کے آگے ڈھال بنے ہوئے ہیں،لیکن سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو شائد ان کی پہنچ ۵ تا ۱۰ فیصد مسلم آبادی تک ہی محدود ہے ۔
مسلمانوں کا بہت بڑا طبقہ دین سے ناآشنا اور دین کے تقاضوں سے غافل ہے ،اسلام دشمن طاقتیںاسلام دشمنی اور مسلمانوں سے انتقام کی روش اختیار کی ہوئی ہیں ،ہندوتوا کے نام سے پورے ملک میں نفرت و تعصب کی فضاء ہموار کرلی گئی ہے،آر ایس ایس سے منسلک ایک تنظیم ہے جس کا نام ’’ہندوجاگرن منچ ‘‘ ہے اس تنظیم نے مسلم لڑکیوں کو اپنے خاندان کا حصہ بنانے کی مہم چھیڑ رکھی ہے،اس میں کامیابی کیلئے اس نے ہندو لڑکوں کی ذہن سازی کرکے نفرت و تعصب کو ان کے دل و دماغ میں بسادیا ہے اور انتقام کی آگ ان کے دلوں میں دہکائی ہے تاکہ وہ مسلم لڑکیوں کو رجھائیںاور ان کو اپنے دام فریب میں پھنسائیں ،اس کے لئے ہندو نوجوانوںکومالی پیشکش بھی کی جارہی ہے ،اس وقت ’’لو جہاد ‘‘Love Jihadکانعرہ بلند کرکے مسلمانوں کو مورد الزام ٹہرانے کی تیاری جاری ہے،یہ اصطلاح ہندو انتہا پسندوں نے ایجاد کی ہے ان کا ادعا یہ ہے کہ مسلم نوجوان ہندولڑکیوں کو پیار و محبت کے دام فریب میں پھنسا کر ان کو مذہب تبدیل کرنے اور اسلام قبول کرنے کی مہم چلارہے ہیںاس سلسلہ میں ملک کی کئی عدالتوں میں کیسس دائر کئے گئے لیکن اکثر عدالتوں کے فیصلوں سے کہیں بھی جبراًمذہب تبدیل کروانے کا کوئی ثبوت دستیاب نہیں ہوسکا ہے ۔
اس کے برعکس فرضی’’لو جہاد ‘‘ کا سہارا لے کر ملک دشمن عناصر خواہ وہ نظم و نسق کے ادارے ہوںیا عام شہری مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں سے رشتے بنالیتی ہیںتوان کو تحفظ فراہم کیا جارہا ہے عملاً ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’’لوجہاد ‘‘ کے قانون کاان پر نفاذ نہیں ہوگا ،ہاں جب بھی کوئی غیر مسلم لڑکی بلا کسی جبرو اکراہ اسلام کی سچائی و حقانیت سے متاثر ہوکر راضی خوشی اسلام قبول کرلے اور کسی مسلم لڑکے سے نکاح کرلے تو اس پر ’’لوجہاد ‘‘ کا ٹھپہ چسپاں کردیا جائے ،یہ ہے’’ لوجہاد ‘‘کی حقیقت ،الغرض ہندوستان میں جتنے قوانین بنائے جارہے ہیں ان میں سے اکثر اسلام دشمنی پر مبنی ہیں ’’لو جہاد ‘‘ کا قانون بھی مسلمانوں پر شکنجہ کسنے کی ایک سازش ہے غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ بین مذاہب شادیاں کیوں انجام پارہی ہیں ،خاص طور پر مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کا نشانہ کیوں بن رہی ہیں ؟اور منادر میں جاکر ان سے رشتۂ ازواج میں کیوں منسلک ہورہی ہیں اور پوجاپاٹ میں شریک ہوکر اللہ سبحانہ کو ناراض کررہی ہیں اور کیوں ملت اسلامیہ و مسلم خاندانوں کیلئے رسوائی کا باعث بن رہی ہیں ،اس کی روک تھام کیلئے کیا کچھ منصوبہ بندی ہونی چاہئے ،اس پر سرجوڑ کر خصوصی غور و فکراور لائحہ عمل طئے کرنا چاہئے ، ظاہر ہے اسلام مسلم لڑکی کا غیر مسلم لڑکے سے ،مسلم لڑکے کا غیرمسلم لڑکی سے نکاح کو ناجائز قرار دیتا ہے ،کتابیہ عورتوں سے نکاح کی اجازت ضرور دی گئی ہے لیکن یہ بات تحقیقاً ثابت ہے کہ اب اہل کتاب اپنے منسوخ مذہب ہی پر کیوں نہ ہو عمل پیرا نہیں ہیں،اس لئے سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میمون میں اس پر قدغن لگادی گئی تھی ظاہر ہے غیر مسلمہ تو غیر مسلمہ کتابیہ عورتوں سے بھی موجودہ حالات میں نکاح سے اجتناب ضروری ہے ، اللہ سبحانہ پر ایمان اور پیغمبر اسلام سیدنامحمد رسول اللہ ﷺ پر اور آخرت پر ایمان اور ایمان سے متعلقہ ضروری عقائد پر ایمان و یقین سے ایک انسان مسلمان ہوجاتا ہے ۔
کوئی مسلمان جب اسلامی احکام کی خلاف ورزی نہیں کرسکتاتو وہ باطل مذاہب کے پیروکاروں سے نکاح کرنے کو کیسے گوارا کرے گا ،اسلام ایک حساس مذہب ہے کفر و شرک کی ہر روزن کو وہ بند کردیتا ہے اس لئے دیگر ادیان باطلہ سے رشتۂ نکاح قائم کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتا ،ارشاد باری ہے ،مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں اور بے شک مسلمان باندی بہتر ہے مشرک عورت سے اگرچہ وہ تم کو پسند ہو اور نہ نکاح کرو اپنی عورتوں کا مشرکوں سے جب تک وہ ایمان نہ لائیں اور بیشک مومن غلام کسی آزاد مشرک سے بہتر ہے اگرچہ کہ وہ تم کو کتنا ہی پسند کیوں نہ ہو دراصل یہ لوگ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ سبحانہ تم کو جنت و مغفرت کی طرف دعوت دیتے ہیں (البقرہ : ۲۲۱) جب مسلمانوں کا غیر مسلموں سے نکاح ہی ناجائز ہے توپھر اس نکاح کی بنیاد پر ہونے والی اولاد پر ضرور سوالیہ نشان لگے گا اور اس کو جائز اولاد کیسے مانا جاسکے گا ؟پھر وہ کفر و شرک کے ماحول میں پرورش پائے گی تو مندروں و گرجاگھروں کو آباد کرے گی یا مساجد کو؟ اس وقت ان عوامل پر نظر کرنے کی ضرورت ہے جو نوجوان نسل کو ارتداد کی راہ سے بچاسکیں،سب سے اہم اور بنیادی بات تو یہ ہے کہ مسلم خاندان اسلامی احکامات سے نابلد ہیں ،اسلامی تعلیم و تربیت کا ماحول نہیں ہے خاندان کے بڑے جب دین و ایمان سے بے بہرہ ہیں تو پھر ان کی سرپرستی میں پرورش پانے والی اولاد کیسے دیندار ہوسکتی ہے ؟
اردو،انگریزی اخبارات میں بکثرت ایسے واقعات شائع ہورہے ہیں جس میں مسلم لڑکیاں غیرمسلم لڑکوں کے عشق ومحبت میں گرفتارہوکرنہ صرف اپنے دین وایمان کا سودا کررہی ہیںبلکہ اپنی عفت وعصمت کے قیمتی جوہر کو لٹارہی ہیں ،آج سے پچیس تیس سال قبل کا مسلم سماج ایسے بے حیائی کے واقعات سے پاک تھا۔لیکن مسلم سماج کی دین سے دوری نے الحادوبے دینی کوفروغ دینے میں بڑارول اداکیاہے،الکٹرانک میڈیا وپرنٹ میڈیاسے اکثریہ بات دہرائی جارہی ہے کہ انتہاء پسندکٹرہندوتواکے حامی لیڈرس غیرمسلم لڑکوں کوباضابطہ تربیت دے رہے ہیں کہ وہ مسلم لڑکیوں کواپنے دام فریب میں پھنسا ئیں اورایسے غیر مسلم لڑکوں کوانعام واکرام سے نوازاجارہاہے،مسلم لڑکیاں جومخلوط نظام تعلیم یا مخلوط نظام ملازمت پرمبنی اداروں سے وابستہ ہیں وہ بہت جلدان کے جھانسے میں آجاتی ہیں۔ایسے ناخوشگوارکچھ واقعات مسلم وغیرمسلم ملی جلی بستیوں میں رہائش کی بنا ،کچھ واقعات اپنے گھرسے تعلیمی یا ملازمتی اداروں تک سفرکے دوران اورکچھ واقعات مذکورہ مخلوط اداروں میں تعلیم یا ملازمت کی وجہ پیش آرہے ہیں۔مسلم سماج کے بعض مذہبی وسماجی رہنمائوں کا مانناہے کہ مسلم سماج میں گھوڑے،جوڑے،لین دین کا غیر اسلامی چلن بھی اس کی وجہ ہے،کسی نہ کسی درجہ میں یہ بات قابل تسلیم ہے ،تاہم اس کوکلی وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا،چونکہ گھوڑے جوڑے ، لین دین اور غیر اسلامی رسوم و رواجات بھی مسلم معاشرہ کی بے دینی کا تسلسل ہیں ،اس میں اوربھی بہت سے عوامل ہیں جن سے صرف نظرنہیں کیا جاسکتا’ان میں بنیادی وجہ اسلامی احکام سے انحراف ہے ۔
نئی نسل ایسے ماحول میں پرورش پارہی ہے جوبے دینی والحاد اور مادہ پرستی کی راہ پر گامزن ہے،تربیت کا انتظام ا یسی درسگاہوں میں ہے جوبالکلیہ غیراسلامی بلکہ اسلام دشمن ہیں،مشنری اسکولس وکالجسس میں عقیدئہ تثلیث (اللہ سبحانہ،حضرت عیسی اوربی بی مریم علیہما السلام کے خداہونے) کی تعلیم ہوتی ہے،اوراسی مشرکانہ عقیدہ پرنسل ِنوپروان چڑھتی ہے ،بعض ریاستوں میں ہندو دیوی دیوتائوں کی پرستش کروائی جاتی ہے ،مذہبی اشلوک بھی پڑھائے جاتے ہیں ۔’’وندے ماترم ‘‘جیسا شرکیہ ترانہ زروزبردستی پڑھا یاجاتا ہے’’بھارت ماتا کی جئے‘‘جیسا شرکیہ نعرہ لگانے پرمجبورکیا جاتاہے۔ گھریلودینی عدم تربیت و دینی شعورکے فقدان کی وجہ کچھ مسلم لڑکے ،لڑکیاں اس غیر اسلامی فکرمیں ڈھل رہے ہیں ۔ گھریلودینی ماحول اوربڑے بزرگوں کی صحبت کی وجہ دین وایمان کی حفاظت اوراس پراستقامت پہلے آسان تھی ،اسلامی ماحول پرمبنی مدارس وجامعات اس کومزید جلا بخشتے تھے،لیکن موجودہ دورکا المیہ یہ ہے کہ گھروں سے دینداری رخصت ہے،ماں باپ اورگھرکے بڑے بزرگوں ہی کودین وایمان اوراس کے تقاضوںسے کوئی شناسائی ہے نہ ہی اس کی کوئی پرواہ ،ایمان واسلام،اسلامی اخلاق وکردار،رواداری و شرافت، تہذیب وثقافت سے مسلم سماج ناآشنا ہوتاجارہاہے۔جب اس کے منفی نتائج سامنے آتے ہیں تب خواب غفلت سے بیدارہوتے ہیں،اصلاح کی کوئی تدبیرکرنے کی توفیق اس وقت ملتی ہے جب پانی سرسے اونچاہوچکا ہوتاہے ،دین وایمان جیسی عظیم وقیمتی متاع کھوجانے ،عفت وعصمت جیسے قیمتی جوہرکے لٹ جانے کے بعد ہوش آئے تو اس کا کیا فائدہ ۔بقول شاعر ؎ سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا
مجموعی طورپرمسلم سماج نے مادی ترقی کی دوڑمیں آگے نکلتے نکلتے اسلام کے بنیادی احکام اور حیاء وحجاب کو خیربادکہدیا ہے ،شادی بیاہ کی تقاریب بھی بے حیائی کے مناظرپیش کررہی ہیں،جوان لڑکیوں کی تعلیم گاہوں کا لباس حیاء باختہ ہے،عام حالات میں بھی شارٹ اسکرٹس یاچست ٹی شٹ، جینس پینٹ اکثرلڑکیوں کا پسندیدہ لباس بن گیاہے،ڈوپٹہ، اوڑھنی اورسترپوش چادر وغیرہ توکبھی کے ہواہوچکے ہیں ،اسلام دشمن طاقتوں نے پردہ وحجاب کودقیانوسیت کی علامت قراردیدیاہے،آہستہ آہستہ مسلم سماج نے اس کے زیراثراس(پردہ وحجاب)کی اعلی قدروں کو پامال کردیا ہے ۔ٹی وی،اسمارٹ فون وغیرہ کے غلط استعمال نے رہی سہی کسرپوری کردی ہے،ان سارے عوامل کونظراندازکرکے صرف گھوڑے جوڑے،لین دین وغیرہ جیسی سماجی خرافات ہی کو غیرمسلم لڑکوں سے مسلم لڑکیوں کے روابط کی وجہ قراردینا محل نظرہے۔اس کا ہرگزیہ مطلب نہیں ہے کہ شادی بیاہ کے عنوان سے مسلم سماج میں رائج غیر اسلامی رسوم ورواجات کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔
البتہ صرف اسی کومسلم لڑکیوں کے ارتدادکی وجہ قراردینا حقائق سے چشم پوشی ہے ۔جائزراہ سے صنفی تعلق انسان کی بنیادی ضرورت ہے،اوراسلام نے نکاح کے ذریعہ انسان کی اس فطری ضرورت کا سامان کیاہے،لڑکے ہوں یا لڑکیاں سن بلوغ کوپہنچ جائیں تو ان کے نکاح کرادینے کی ذمہ داری والدین اورخاندان کے بزرگوں پرعائدہوتی ہے،حدیث شریف میں واردہے’’جب وہ(اولاد) بالغ ہوجائے اوران کا نکاح نہ کیا جائے جس کی وجہ وہ گناہ میں مبتلاء ہوںتو اس کا گناہ ان کے والدکوہوگا‘‘(بیہقی:۸۶۶۶) اورفرمایا ’’تین چیزوں میں تاخیرمت کرو،نمازجب اس کا وقت ہوجائے،جنازہ جب حاضرہوجائے،اورغیرشادی شدہ کیلئے جب کفویعنی برابری کا رشتہ آجائے‘‘(ترمذی:۱۵۶)’’جب تمہارے پاس ایسے لڑکے کارشتہ آئے جس کے اخلاق اوردینداری پسند یدہ ہوںتواس رشتہ کو قبول کرلوورنہ زمین میں فتنہ و فسادبرپا ہوجائے گا‘‘(ترمذی:۱۰۸۴)اس لئے نکاح میں اعلی تعلیم یا مادی وسائل کی تحصیل وغیرہ جیسے امورکووجہ بناکرہرگزتاخیرنہیں کرنی چاہیے۔ خاص طورپرجب لڑکیاں زیرتعلیم ہوں اورکوئی عمدہ ، دیندار اور کفووالا رشتہ آجائے تو اس کوقبول کرلیاجانا چاہیے،اعلی تعلیم اورمادی وسائل تعیش کی فکر گویا ایک طرح سے جنون کی شکل اختیارکرگئی ہے ،لڑکیاں سن بلوغ کی حدکوپارکرکے دس پندرہ سال گزاردیتی ہیں پھرتعلیم ہویا ملازمت وہ بھی مخلوط اداروں میں ،نتیجہ ظاہرہے جو اس وقت مسلم سماج لڑکیوں کے غیر مسلموں سے ناجائزروابط اوربعض واقعات میں ارتدارجیسے ناقابل معافی جرم وگناہ کا خمیازہ بھگت رہاہے۔
بلوغ کے فوری بعدنکاح کا انتظام جہاں عفت وعصمت کا ضامن ہے وہیں اس سے معاشرہ کی پاکیزگی برقراررہتی ہے،زمانہ جس برق رفتاری کے ساتھ ترقی کی راہ پرگامزن ہے اورخیرالقرون سے دوری بڑھتی جارہی ہے اسی تیزی کے ساتھ اسلامی ماحول ،دیندارانہ اوصاف ،مذہبی شناخت اورملی تشخص رخصت ہو تے جارہے ہیں۔سربراہان خاندان کی دین سے دوری ،مغربی تہذیب وکلچرسے لگائو اورغیر دیندارانہ حال وماحول نے نسل ِنو کومغربی تہذیب وثقافت کا دلدادہ بنادیاہے۔رشتہ نکاح کے سلسلہ میں اب دینداری قابل ترجیح نہیں رہی ہے بلکہ مادی تعیشات ،راحت افزااسباب حیات ،اعلی سہولیات پرمبنی رہائش گاہ،عمدہ سواری،بنک بیلنس،پرکشش مشاہرہ والی ملازمت یا منافع بخش تجارت وکاروبار اورسماجی مقام و مرتبہ (Status) وغیرہ قابل ترجیح قرارپاگئے ہیں۔اس کیلئے حلال اور حرام کی قید بھی غیر اہم قرار پاگئی ہے ،لڑکی والے جب لڑکے میں ان مادی خوبیوں کی تلاش کرتے ہیں تولڑکے والے بھی لڑکیوں اوران کے والدین سے ا یسی ہی کچھ توقعات وابستہ کرلیتے ہیں،اول توہرکوئی حسن وجمال کا متلاشی ہے،حسنِ سیرت پیش نظرنہیںہے،بقول شاعر جبکہ ؎
حسن صورت چند روز ،حسن سیرت مستقل اِس سے خوش ہوتے ہیں لوگ اُس سے خوش ہوتے ہیں دل
دینداری ،اعلی اخلاق ،اسلامی اقدار،امورخانہ داری وغیرہ میں مہارت جیسی باتیں قصہ پارینہ بن گئی ہیں۔ثانیا گھوڑے ،جوڑے ،عمدہ وقیمتی سامان جہیز ،اعلی شادی خانہ کا نظم،لوازمات سے بھرپورطعام کا انتظام،شادی خانہ واسٹیج کی خوبصورت ودیدہ زیب سجاوٹ وغیرہ جیسے مطالبات سامنے آتے ہیں اورلڑکی والے بھی لڑکے اورلڑکے والوں کی مالی پوزیشن و سماجی حیثیت سے مرعوب ہوکران کے ہرمطالبہ کوقبول کرنے تیارہوجاتے ہیں اوربعض ایسے نادان بھی دیکھے گئے ہیں جوراضی خوشی ان کے مطالبات سے کہیں زیادہ دینے کو سماجی وجاہت سمجھتے ہیں اوریہ سب کچھ نام ونمود،شہرت ودکھاوا، فخرومباہات کے اظہار اوراپنی حیثیت وپوزیشن کواونچا دکھانے کی غرض سے ہوتا ہے ۔مصنوعی وعارضی و فانی تعیش اس قدرعزیزہوگیاہے کہ اسلامی احکام واقدارنگاہوں سے اوجھل ہوگئے ہیں۔
بروقت وبرمحل نکاح نہ ہونا بھی ایک وجہ ہے ،نتیجہ یہ ہے کہ بعض نوجوان لڑکے لڑکیوں کے گناہوں میں مبتلاء ہو نے کے خطرات بڑھ گئے ہیں یا رشتۂ نکاح کے قیام میں جائزوناجائزکی پرواہ کئے بغیرباطل مذاہب کے پیروکاروں سے رشتے استوار ہورہے ہیں۔مغربی تہذیب کے پروردہ گان کیلئے تویہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے،خلاف اسلام جدیدتہذیب وثقافت نے ان کے دل ودماغ پرقبضہ جمالیاہے،اس کوذہنی وسعت فکرکا نام دیدیا گیاہے،مسلم گھرانے میں ضرورپیداہوگئے ہیں لیکن اسلام سے ان کا صرف برائے نام تعلق رہ گیاہے،ہندوستان میں بعض ایسے نامی گرامی خاندان ہیں جہاں شوہر مسلم ہے توبیوی غیرمسلم ، کہیں بہوغیرمسلم ہے تودامادمسلم ۔یہ توجمہوری ملکوں کا حال ہے ،مسلم ممالک بھی اس (ارتداد)کی زد سے محفوظ نہیں ہیں چنانچہ سعودی عربیہ جواسلام کا مبدأ ومرکزہے چند سال قبل وہاں کی ایک لڑکی ارتدادکی وجہ اس وقت اخبارات کی سرخیوں میں رہی ہے ، العیاذباللہ،دشمنان اسلام ہیں کہ اس کوتحفظ فراہم کرنے میں سبقت کا مظاہرہ کررہے تھے۔سیدناعلی کرم اللہ وجہہ ورضی اللہ عنہ سے مروی ہے ’’اندیشہ ہے لوگوں پرایک زمانہ ایسا بھی آئے گا ،اسلام کے نام سے ان کے پاس نام کے سوا کچھ نہیں رہے گا،اورقرآن سے ان کے ہاں اس کے الفاظ وحروف کے سوا کچھ نہیں بچے گا‘‘(شعب الایمان:۲۷۶)
البتہ جن کوایمان عزیزہے خواہ وہ سماجی حیثیت سے کسی رتبہ ومرتبہ کے ہوں ان کیلئے لمحۂ فکرہے،کیا خواب ِغفلت سے بیدارہونے کا وقت اب بھی نہیں آیا ہے؟دین وایمان اوراسکے تقاضوں کی تکمیل اورحیاء وحجاب،ساترانہ لباس کی پابندی اب بھی اختیارنہیں کی جانی چاہیے؟لڑکے اورخاص طورپرلڑکیوں کی اعلی تعلیم کی فکرکی وجہ ان کے نکاح کے بروقت انتظام سے کیا اب بھی غفلت برتی جانی چاہیے؟مخلوط نظام ِتعلیم اورمخلوط نظام ِملازمت سے کیا اب بھی کنارہ کشی اختیار نہیں کی جانی چاہیے؟
ارشاد باری ہے ،کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ اہل ایمان کے دل یاد ِالہیٰ کیلئے جھک جائیں اور اس سچے کلام کیلئے جو نازل کیا گیا ہے ،اور ان لوگوں کی طرح نہ بنیں جنہیں اس سے قبل کتاب دی گئی اس پر دراز مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان کی ایک بڑی تعداد نافرمان بن گئی (الحدید ؍۱۶)یادِ الہی سے مراد سراپا پیکر ِاسلام بننا بھی ہے اعضاء و جوارح اور حال و ماحول سے اسلام کا عملی پیغام دینا بھی ہے ،یاد ِحق سے دلوں کو تجلیاتِ الہی کی جلوہ گاہ بنانا بھی ہے اور اپنی زبانوں کو ذکر ِالہی سے تررکھنا بھی ہے ۔
اس تناظر میں دلوں کی دنیا میں ایک ایسے انقلاب کی ضرورت ہے جس سے انسانی قلوب اسلامی احکام کے آگے جھکے رہیں اور وہ سرِتسلیم خم کئے ہوئے اسلامی احکامات پر عمل پیرا رہیں ظاہر ہے ایسے افراد ہی صالح انقلاب کے نقیب بن سکتے ہیں۔