آٹھ/مارچ کو دنیا بھر میں عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام پہلی بار 1975 میں عالمی یوم خواتین منایا گیا۔ 2 برس بعد1977 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس دن کو منانے کی باقائدہ منظوری دی گئی۔ اور جب سے ہر سال 8 مارچ کو باقاعدہ عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے
دنیا بھر میں لوگ مختلف پروگراموں ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کے واسطے سے اپنے اپنے انداز میں عورتوں کی تعریفیں کرتے ہیں ان ک حقوق بیان کرتے ہیں مردوں کو عورتوں کی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں اور سمجھانا چاہتے ہیں کہ مرد و خواتین بالکل برابر ہیں دونوں کے درمیان کسی طرح کا کوئی فرق نہیں ہے۔ اور اسی بہانے اسلام کو عورتوں کے حقوق کے معاملے میں تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔
اسلام نے معاشرے میں عورتوں کو چودہ سو سال پہلے جو مقام عطا کیا ہے آج کی ترقی یافتہ دنیا لاکھ کوششوں کے باوجود وہ مقام دینے میں مکمل ناکام ہے ۔یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ جس دور میں بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کا رواج ہو، ستی کے نام پر عورتوں کو زندہ جلانے کی رسم ہو اور عورتوں کے انسان ہونے پر شبہ کیا جارہا ہو اس دور میں کوئی مذہب عورتوں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اسے میراث میں باضابطہ حصہ دار بنائے اس کے قدموں میں جنت ہونے کی بشارت سنائے یا اسی کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر جنت کے وعدے کرے لیکن مذہب اسلام نے یہ سب کچھ کیا اور ان سب کے علاوہ عورتوں کو ان کے تمام حقوق کی نشاندہی کی جو کی جاسکتی تھی۔
جوعورتوں کے حوالے سے اسلامی تعلیمات پر وقتا فوقتاً طنز کستے رہتےہیں اور دنیا کویہ باور کرانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کوچہار دیواری میں قید کر رکھا ہے عجیب بات یہ ہے کہ اسلام پر عورتوں کے استحصال کا الزام عائد کرنے والے لوگ عورتوں کے گھر میں کام کاج کرنے کو تو دقیانوسیت خیال کرتے ہیں لیکن گھر سے باہر کام کرنے کوآزادی نسواں سمجھتے ہیں ان کے مطابق گھر میں کھانا بنانا دقیانوسیت ہے لیکن ہوٹل میں کھانا بنانا آزادی ہے اپنے شوہرکےلئے گھر میں زیب و زینت اختیار کرنا قدامت پسندی ہے لیکن ایر ہوسٹس بن کر ہوسناک انسانوں کو خوش کرنا آزادی نسواں ہے گھر میں بچوں کی پرورش کرنا رجعت پسندی ہے لیکن دوسروں کے بچوں کی پرورش کرنا آزادی نسواں ہے۔؟
اسلام نے عورتوں کے انسان ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی فطرت اور جسمانی ساخت کی پوری رعایت کرتے ہوئے انہیں ہر طرح کی عزت و رفعت عطاکی ہے جبکہ مغرب نے بہت بعد میں عورتوں کے محض انسان ہونے کی رعایت کی ہے۔
جسمانی ساخت اور فطرت سے یکسر روگردانی کرتے ہوئے انہیں مردوں کےشانہ بشانہ کھڑے کرنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے عورتیں مصنوعی مردوں کے قالب میں ڈھل کر مرد کے سامنے کھڑی ہوگئیں اور مرد و خواتین آپس میں ایک دوسرے کے فریق بن گئے جس کالازمی اثر فیملی سسٹم پرپڑنا تھا سو پڑا اوروہ تباہ و برباد ہوگیا ۔
جبکہ اسلام نے عورتوں کے انسان ہونے کے ساتھ ساتھ فطرت اور جسمانی ساخت کی رعایت کرتے ہوئے انہیں مرد کا ایک حصہ قرار دیا ہے سورۃ نساء کی پہلی ایت میں اس کی طرف واضح اشارہ موجود ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں عورتیں مردوں کے بالمقابل نہیں ہیں بلکہ مردوں کا ایک حصہ ہیں اور ظاہر ہے کہ انسان اپنے حصے کے بالمقابل کھڑاہونے کے بجائے اس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور اس سے اس قدر محبت کرتا ہے کہ اس کی ہرتکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنے پر مجبور ہوتا ہے عورتوں اور مردوں کے درمیان اسلامی اصول نے جو ہم آہنگی پیداکی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ اس پریشان کن دور میں بھی مسلمانوں کا فیملی سسٹم مغربی فیملی سسٹم کے بالمقابل نہ صرف بہتر ہے بلکہ خود اہل مغرب کےلئے قابل رشک بناہواہے۔
عورتوں کے حوالے سے اسلام پر قدامت پسندی کے الزامات کی بنیاد بھی بدفہمیاں اور غلط فہمیاں ہیں یا سوچی سمجھی سازشیں اس لئے اہل اسلام کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورتوں کے حوالے سے اسلام کی حقانیت کو سامنے لانے کی کوششیں کریں اور دنیا کو یہ بتائیں کہ عالمی یوم خواتین منانے سے عورتوں کے مسائل حل نہیں ہونگے بلکہ عورتوں کے خلاف بڑھتے جرائم کو روکنے کی صحیح تدبیریں کرنی ہونگی ان کے سروں سے معاشی تگ و دو کے بار کو اتارنا ہوگا ان کی مارکیٹنگ پر روک لگانی ہوگی ورنہ انصاف پسند افراد یہ سمجھنے پر مجبور ہونگے کہ دنیا عورتوں کی آزادی کے نام پر عورتوں تک پہنچنے کی آزادی چاہتی ہے۔