Another girl climbed the dowry offering
قومی خبریں

جہیزکے لئے اور کتنی قربانیاں ؟

گذشتہ دو دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک انتہائی حیرت انگیزویڈیو وائرل ہورہا ہے اس ویڈیو میں احمد آباد کی ایک خاتون کی خودکشی کا ایسا واقعہ سامنے آیا ہے، جسے جان کر ہر کسی کا دل کانپ اٹھا۔ ایک خاتون نے پہلے ایک ویڈیو بنائی اور پھر دریائے سابرمتی میں کود کر خودکشی کرلی۔عائشہ نے خود کشی سے قبل اپنے والدین سے بات چیت کی، اس نے اپنے والدین سے مرنے کی اجازت مانگی تھی۔


احمدآباد کے وٹوہ کے رہنے والے پیشے سے ٹیلر عائشہ کے والد لیاقت علی نے کہا کہ ‘سال 2018 میں جیسلمیر (راجستھان) میں، میں نے اپنی بیٹی کی شادی عارف خان سے کی تھی۔ شادی کے 2 ماہ بعد عارف کا کسی لڑکی سے کچھ معاملہ تھا۔

عائشہ کو جب یہ پتہ چلا تو اس نے اپنے سسرال والوں کو بتایا جس کے بعد عائشہ کے سسرال والے عائشہ کو ہی پریشان کرنے لگے اور مزید جہیز کا مطالبہ کرنے لگے۔یہ معاملہ گجرات کے احمد آباد کی عائشہ ہی کا نہیں ہے بلکہ ملک بھر میں کئی ایسی لڑکیاں ہیں جو جہیز کے لئے ہراساں کی جارہی ہے اور بے شمار لڑکیاں ایسی ہیں جو جہیزنہ ہونے کی وجہ سے بن بیاہی بیٹھی ہیں۔

جہیز ایک ناسور ہے جو ہمارے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل چکا ہے۔ اس لعنت نے لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے۔ ان کی معصوم آنکھوں میں بسنے والے رنگین خواب چھین لئے ہیں۔ ان کی آرزؤں، تمناؤں اور حسین زندگی کے خوابوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ انہیں ناامیدی، مایوسی اور اندھیروں کی ان گہری وادیوں میں دھکیل دیا ہے جہاں سے اُجالے کا سفر ناممکن ہو چکا ہے۔

یہ ایک رسم ہے جس سے صرف غریب والدین زندہ درگور ہو رہے ہیں اور اس امید پر زندہ ہیں کہ کوئی فرشتہ صفت انسان اس لعنت سے پاک دو جوڑا کپڑوں میں ان کے لخت جگر کو قبول کر لے لیکن ہمارے معاشرے میں جو رسم و رواج جڑ پکڑ چکی ہیں اور وہ وقت گزرنے کے ساتھ اپنے قدم مضبوطی سے جما لیتی ہیں ان سے چھٹکارا پانا ناممکن ہے۔

اس لعنت نے موجودہ دور میں ایسے پھن پھیلا لئے ہیں کہ غریب گھروں میں پیدا ہونیوالی لڑکیاں شادی سے محروم اپنی چار دیواری میں بیٹھی رہنے پر مجبور ہیں۔ اس لعنت کی وجہ سے جو ظلم و ستم بہو بیٹیوں پر کئے جاتے ہیں وہ بیان نہیں کئے جا سکتے۔

جہیز جیسی لعنت کو ختم کرنے کیلئےمعاشرہ میں شد ومد کے ساتھ شعور بیدار کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔ معاشرے میں جہیز جیسی لعنت کو ختم کرنے کیلئے والدین کو بھی سختی سے عمل کرنا ہو گا۔ وہ عہد کریں کہ نہ جہیز دیں گے اور نہ لیں گے۔ غریبوں کیلئے بیٹیاں مصیبت ثابت ہو رہی ہیں اور ہزاروں لڑکیاں اس ناسور کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔

جہیز کا لین دین غیراسلامی ہے۔ اس گھناؤنی غیراسلامی رسم کو ختم کرنے میں نوجوان اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب آج کی نسل جہیز کا لالچ اپنے دلوں سے نکال دے اور معاشرے میں اپنے اس مخلصانہ عمل سے انقلاب برپا کرے۔