بی جے پی حکمراں ریاستوں بالخصوص اترپردیش میں لو جہاد کے نام پر مسلم نوجوانوں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ اگر کوئی مسلم لڑکا ہندو لڑکی سے شادی کرتا ہے تو اس کے خلاف فورا ہی کاروائی کی جارہی ہے جبکہ اگر کوئی مسلم لڑکی کسی ہندو لڑکے سے شادی کرتی ہے تو اس معاملے میں لاپرواہی اور ٹال مٹول سے کام لیا جارہا ہے۔
اترپردیش میں بجٹ سیشن کے دوران اسمبلی میں تبدیلی مذہب بل منظور کیا گیا ہے۔ تاہم، اس بل کو قانون ساز کونسل میں منظور کرانے کے بعد اسے دستخط کے لیے گورنر کے پاس بھیجا جائے گا، اس کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔یوگی حکومت نے 24 نومبر 2020 کو ‘جبرا مذہب تبدیلی آرڈیننس’ کو منظوری دی تھی۔
جبرا مذہب تبدیلی قانون میں 1 تا 5 سال قید کی سزا کے ساتھ 15 ہزار روپے جرمانہ، وہیں نابالغ اور ایس سی، ایس ٹی سماج کی خواتین کی تبدیلی مذہب پر 3 تا 10 سال قید کی سزا کے ساتھ 25 ہزار روپے کے جرمانے کی تجویز ہے۔
اس قانون کے ذریعے اگر کوئی بھی مذہب تبدیل کرکے شادی کرنا چاہتا ہے تو ایسی صورت میں اس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ دو ماہ قبل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس عرضی داخل کرے۔ اجازت ملنے کے بعد ہی شادی کی جاسکتی ہے۔ شادی سے قبل نام چھپانے پر 10 سال کی سزا جبکہ بڑے پیمانے پر تبدیلی مذہب کی صورت میں 3 تا 10 سال کی سزا کے ساتھ 50 ہزار روپے کے جرمانے کی تجویز رکھی گئی ہے۔
تبدیلی مذہب قانون کے تحت اتر پردیش کے کئی اضلاع میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ سب سے پہلا معاملہ بریلی میں درج کیا گیا تھا، اس کے بعد دارالحکومت لکھنؤ میں پولیس نے شادی بھی رکوائی تھی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ نئے قانون کے مطابق مذہب تبدیل کرکے شادی کرنے کی صورت میں ضروری ہے کہ آپ لوگ دو ماہ قبل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس عرضی داخل کریں، اجازت ملنے کے بعد ہی شادی کی جاسکتی ہے۔
واضح رہے کہ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے کچھ ماہ قبل بیان دیا تھا کہ لو جہاد کرنے والوں کے خلاف قانون بنایا جائے گا اور ایسا کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے گی حالانکہ الہ آباد ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے حکومت کو پھٹکار لگاتے ہوئے فیصلے میں کہا تھا کہ دو بالغ عورت مرد کو اپنی مرضی سے زندگی جینے کا حق ہے۔ اس میں ‘ریاست’ بھی دخل اندازی نہیں کر سکتی ہے اس کے باوجود قانون بن گیا۔
خیال رہے کہ بی جے پی حکمراں ریاستوں بالخصوص اترپردیش میں لو جہاد کے نام پر مسلم نوجوانوں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ اگر کوئی مسلم لڑکا ہندو لڑکی سے شادی کرتا ہے تو اس کے خلاف فورا ہی کاروائی کی جارہی ہے جبکہ اگر کوئی مسلم لڑکی کسی ہندو لڑکے سے شادی کرتی ہے تو اس معاملے میں لاپرواہی اور ٹال مٹول سے کام لیا جارہا ہے۔