ملک بھر میں ‘لو جہاد قانون کے ذریعہ ایک بڑی تعداد میں مسلمانوں کو گرفتار کیاجاچکا ہے اور یہ سلسلہ ہنوزجاری ہے اس قانون کے ذریعہ مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔
لو جہاد قانون کو چیلنج کرنے والی عرضی پر جمیعت العلماء ہند کی مداخلت کار کی عرضی سُپریم کورٹ میں منظور ہوگئی ہے۔سپریم کورٹ نے لوجہاد قانون کو چیلنج کرنے والی عرضی میں جمیعت العلماء ہند کو بطور مداخلت کار تسلیم کرلیا ہے۔
جمیعت العلماء کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے اسے جمیعت کی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ آئین مخالف قانون کے خلاف ہماری جہدوجہد جاری رہے گی۔
یہ تمام باتیں جمیعت کی جانب سے جاری کردی پریس ریلیز میں کہی گئی۔ قبل ازیں کی سماعت پر عدالت نے مرکزی اور ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔
سٹیزن فار پیس اینڈ جسٹس نامی آرگنائزیشن و دیگر کی جانب سے داخل کردہ اپیل پر عدالت عظمیٰ میں سماعت عمل میں آئی، جس دوران عدالت نے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول سے پوچھا کہ اس معاملے میں جمیعت العلماء ہند کا مفاد کیا ہے اور وہ کیوں مداخلت کار بننا چاہتے ہیں۔
عدالت کے اس سوال پر ایڈووکیٹ اعجاز مقبول نے کہا کہ جمیعت العلماء ہند بھارتی مسلمانوں کی ایک قدیم تنظیم ہے، ملک کے مسلمانوں کا تحفظ اس کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے اور ہم اس معاملے میں عدالت کا تعاون کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے چیف جسٹس اے ایس بوبڈے کو بتایا کہ ‘لو جہاد قانون کے ذریعہ ایک بڑی تعداد میں مسلمانوں کو گرفتار کیاجاچکا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے لہٰذا مسلمانوں کے خلاف بنائے گئے اس غیر آئینی قانون کو ختم کرنے کے لیے دائر پٹیشن میں وہ بطور مداخلت کار بننا چاہتے ہیں تاکہ عدالت میں اس تعلق سے اپنا موقف پیش کرسکے۔
ایڈوکیٹ اعجاز مقبول نے عدالت کو بتایا کہ ‘سیتا پور لو جہاد معاملے میں پولس نے تین خواتین سمیت دس لوگوں کو گرفتار کیا ہے جن کے مقدمہ کی پیروی جمیعت کررہی ہے۔ ایڈوکیٹ اعجاز مقبول کے دلائل سننے بعد چیف جسٹس نے جمیعت کو بطور مداخلت کار تسلیم کرلیا۔
اسی درمیان چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی تین رکنی بینچ جس میں جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی راما سبرامنیم نے سٹیزن فار پیس اینڈ جسٹس نامی آرگنائزیشن کو ان کی پٹیشن میں ترمیم کرنے کی اجازت دیتے ہوئے معاملے کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔
متذکرہ تنظیم نے پہلے اتر پردیش اور اتر اکھنڈ ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے لو جہاد قانون کو چیلنج کیا تھا لیکن آج انہوں نے عدالت کو بتایا کہ مدھیہ پردیش اور ہماچل پردیش ریاستوں نے بھی اسی طرز پر قانون بنایا ہے لہٰذا وہ ان چاروں ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے لو جہاد قانون کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں جس کی عدالت نے انہیں اجازت دے دی۔
واضح رہے کہ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے جمیعت العلما کے صدر مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر جمیعت کی قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کی جانب سے مداخلت کار کی پٹیشن داخل کی تھی جس میں میں لکھا ہے کہ ‘غیر قانونی تبدیلی مذہب مانع آرڈیننس 2020’ کو اتر پردیش حکومت نے منظور ی دے دی ہے جبکہ اتراکھنڈ حکومت نے فریڈم آف ریلیجن نامی قانون کو منظوری دی ہے ان قوانین کو بنانے کا مقصد دو فرقوں کے درمیان ہونے والی شادیوں کو روکنا ہے جو آئین ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔
عرضی میں مزید لکھا گیا ہے کہ ان قوانین کی وجہ سے مذہبی اور ذاتی آزادی پر روک لگانے کی کوشش کی گئی ہے جو غیر آئینی ہے۔ لہٰذا سپریم کورٹ کو مداخلت کرکے ریاستوں کو ایسے قوانین بنانے سے روکنا چاہیے نیز جن ریاستوں نے ایسے قوانین بنائے ہیں انہیں ختم کردیناچاہئے۔
عرضی میں لکھا گیا ہے کہ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے خودا علان کیا ہے کہ لو جہاد کو روکنے کے لیے غیر قانونی تبدیلی مذہب مانع آرڈیننس 2020 بنایا گیا ہے۔
مولانا سید ارشد مدنی نے لو جہاد قانون پر سپریم کورٹ میں مداخلت کار کی عرضی قبول کئے جانے کو جمیعت کی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئین مخالف قانون کے خلاف ہماری جہدوجہد جاری رہے گی۔ بھارت ایک سیکولر ملک ہے جہاں اس طرح کے غیر آئینی قانون کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہمارے ملک کی شناخت گنگا جمنی تہذیب کے طور پر ہے جہاں ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہے کہ وہ کس مذہب پر چلنا چاہتا ہے اور کس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔
انہوں کہا کہ اس قانون کا مقصد ہندو مسلمان کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کرنا اور سماج کو تقسیم کرنا ہے۔ ہم نے سماج میں خیر سگالی اور بھائی چارہ قائم کرنے کی انتھک کوشش کی ہے
مولانا مدنی نے کہا کہ ‘قدرتی آفات ہو یا کوئی حادثہ ہم نے مذہب سے اوپر اٹھ کر لوگوں کی مدد کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمیعت نے ملک کو متحد رکھنے کی بھرپور کوشش کی اور اس کے لئے لڑائی لڑی ہے۔ لو جہاد قانون ملک کو توڑنے والا ہے اور ہم ملک کو ٹوٹنے نہیں دیں گے۔