Padma Bhushan Award to a teacher who receives an annual fee of only Rs
قومی خبریں

محض 2روپے سالانہ فیس لینے والے استاد کو پدم بھوشن ایوارڈ

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ہمارے ملک ہندوستان میںبھی تعلیم دن بہ دن مہنگی ہوتی جارہی ہے ۔ ملک بھر میں نجی تعلیمی اداروں کا جال پھیلا ہوا ہے یہ نجی تعلیمی ادارے مختلف ناموں سے طلبہ سے بھاری بھرکم فیس وصول کرتے ہیں جس سے اکثر وبیشتر والدین اور سرپرست پریشان ہوجاتے ہیں۔
ایسے دور اور ایسی صورت حال میں اگر کوئی شخص بچوں کو مفت میں تعلیم دیتا ہے وہ سماج میں انتہائی قابل فخر کام کررہا ہے ۔مغربی بنگال کے ضلع بردوان میں ایک سبکدوش ٹیچر ہے جو بچوں سے برائے نام فیس لے کر پڑھاتے ہیں ۔

ریاست مغربی بنگال کے ضلع بردوان کے ایک گائوں میں صرف دو روپے سالانہ فیس پر بچوں کو ٹیوشن دینے والے سوجیت چٹو پادھیائے کو اس سال حکومت نے تیسرے سب سے بڑے شہری اعزاز ’’پدم بھوشن‘‘ ایوارڈ سے دینے کا اعلان کیا ہے ۔

بردوان میں تو وہ پہلے سے ہی مشہور و معروف تھے مگر اب پدم بھوشن ایوارڈ کا اعلان ہونے کے بعد ان کی شہرت بردوان سے نکل کر ملک کے دوسرے شہروں اور نیوز چینلوں اور اخبارات کی سرخیوں تک میں پہنچ گئی ہے ۔

سوجیت 15سال قبل سرکاری ٹیچر کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے تھے ۔مگر ملازمت سے سبکدوش ہونے کے باوجود انہوں نے تعلیم و تدریس کا سلسلہ بند نہیں کیا ۔بردوان ضلع میں ایک سبجیکٹ کے ٹیوشن کی سالانہ فیس کم سے کم 2ہزار روپے ہے ۔ مگر سوجیت صرف دو روپے سالانہ کے معمولی فیس پر سینکڑوں بچوںکو پڑھاتے ہیں۔

دو روپے فیس کیوں لیتے ہیں؟ اس سوال پر سوجیت چٹوپادھیائے نے کہا کہ یہ گرودکشنا کے طور پر فیس لی جاتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس کے بغیر تعلیم مکمل نہیں ہوسکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ جب طالب علم دو روپے دیتا ہے تو وہ جھک کر آشیرواد لیتا ہے اوراس کی برکت سے وہ کامیاب ہوتا ہے اور ان بچوں کو احساس بھی ہوتا ہے کہ انہیں مفت میں تعلیم نہیں دی گئی ہے ۔


ہمارے ملک سالانہ ہزاروں اساتذہ سبکدوش ہوتے ہیںتاہم ان میں سے شاذ ونادر ہی سوجیت چٹوپادھیائے کی طرح کے کام کرتے ہیں ۔ اگر ان اساتذہ میں سے دو فیصد اساتذہ بھی اس طرح کا کام کرنے لگے تو ملک میں ناخواندگی کی شرح میںکافی حد تک کمی آسکتی ہے۔

اگر ہم اپنی ( مسلمانوں ) کی بات کریں تو عالمی سطح بالخصوص ملکی سطح پر مسلمان تعلیمی میدان میں انتہائی پیچھے ہیں ۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ سے تو عیاں ہوگیا تھا کہ تعلیمی میدان میں ہمارا کیا موقف ہے؟۔ تاہم پچھلے کچھ سالوں میں مسلمانوں کے اندر تعلیمی بیداری شعور پیدا ہوا ہے جس کے باعث ہر میدان میں تعلیم یافتہ لوگوںکی تعداد بڑھنے لگی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود بھی ہمیں دیہی سطح سے لیکر شہری سطح تک اس طرح کے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔

آج بھی شہروں اور دیہاتوں میں مسلم بچوں کی کثیر تعداد کسی نہ کسی وجہ سے اسکولوں سے دور ہیں ۔ یا تو غربت اس قدر غالب ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے سے قاصر ہے یا پھر تعلیم کی طرف ان کا رجحان ہی نہیں ۔