ملک میں کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاون کا اعلان کرنے کےبعد تبلیغی جماعت کا معاملہ سامنے آیا ۔ گودی میڈیا نے اس معاملے کو لیکر عوام میں اتنا زہر اگلا کہ مسلمانوں بالخصوص جماعت سے وابستہ افراد کو ’’ کورونا جہاد ی ‘‘ کہا جانے لگا اور اس کے نتائج اس طرح سامنے آئے کہ شمالی ہند کے کئی علاقوں میں مسلم سبزی فروشوں سے لوگوں نے سبزیاں بھی خریدنا بند کردیا ۔
مرکز نظام الدین کے حوالے سے میڈیا کوریج کے معاملے میں سپریم کورٹ میں آج سماعت ہوئی۔ جمعیۃ علمائے ہند کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا نے کورونا وائرس کے حوالے سے تبلیغی جماعت کے خلاف میڈیا کی کوریج پر سخت تبصرہ کیا۔
چیف جسٹس نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے کہا کہ ہم عوام کے بولنے پر اعتراض نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی اس پر پابندی لگانا چاہتے ہیں لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ ٹی وی کیبل اور انٹرنیٹ پر ایسی خبریں نشر نہیں ہونی چاہئے جو جھوٹ پر مبنی ہوں اور جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو۔
مرکزی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے سی جے آئی نے کہا کہ یہ سمجھ نہیں آتا کہ سرکار نے اشتعال انگیز خبروں کے تئیں اپنی آنکھیں کیوں موند رکھی ہیں۔ عدالت عظمی نے کہا کہ آخر سرکار اس بارے میں کیوں کچھ نہیں کرتی۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کے تیسرے حلف نامہ پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڑے نے کہا کہ ایسے پروگرام دکھائے گئے جو ایک فرقے کو اکساتے اور متاثر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غیر جانبدار اور سچی رپورٹنگ کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن دوسروں کو پریشان کرنے کے لیے ایسا کرنا بڑا مسئلہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اتنا ہی اہم ہے جتنا پولیس اہلکاروں کو لاٹھی دینا۔ عدالت عظمی نے کہا کہ اکسانے والی میڈیا کوریج پر کنٹرول ہونا چاہیے۔
میڈیا کو ریگولیٹ کرنے سے متعلق سرکاری کے اختیارات کے تعلق سے جسٹس بوبڑے نے کہا کہ نظم و نسق کو برقرار رکھنے کے لیے کچھ خبروں پر کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے بنچ کے سامنے کہا کہ وہ خبروں کے نشر ہونے سے پہلے سنسرشپ نہیں کر سکتے، لائیو شو یا بحث کو قابو نہیں کر سکتے۔ اس پر سی جے آئی نے کہا کہ عدالت تشدد کے معاملے پر فکر مند اور سنجیدہ ہے۔ انہوں نے حکومت سے اس معاملے پر ایک حلف نامہ بھی داخل کرنے کی ہدایت دی۔
مولانا سید ارشد مدنی نے سی جے آئی کے تبصرے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کے تبصرے سے ہمارا موقف درست ثابت ہوگیا۔
جمعیۃ کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی والی تین رکنی بینچ کے روبرو سماعت کے دوران عدالت نے ایک بار پھر مرکزی حکومت کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ پر اعتراض کیا، جس میں میں کہا گیا ہے کہ لائیو ٹی وی شو کو روکنے کا حکومت کے پاس کوئی میکانزم نہیں ہے نیز کوئی بھی پروگرام نشر ہونے سے قبل اسے روکا نہیں جاسکتا۔ البتہ پروگرام نشر ہونے کے بعد اگر شکایت درج کی جاتی ہے تو اس کے خلاف کیبل ٹی وی نیٹ ورک قوانین کے تحت کاروائی کی جاتی ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے نے عدالت کو بتایا کہ مرکزی حکومت نے حلف نامہ میں جن اداروں کی بات کہی ہے وہ سب ”بغیر دانت“ کے ہیں یعنی کے ان کے پاس سخت ایکشن لینے کا اختیار نہیں ہے لہذا عدالت کو مرکزی حکومت کو حکم دینا چاہئے کہ وہ ایسا کوئی نیا میکانزم تیار کرے جس سے لائیو ٹی وی شو میں بھڑکاؤ باتیں کہنے اور اشتعال انگیز بیانات و جھوٹی خبریں نشر کرنے والے چینلوں پر کنٹرول ہوسکے۔
ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے نے عدالت کو بتایا حکومت کے پاس جو اختیارات ہیں وہ اس کا استعمال نہ کرکے جھوٹی خبریں نشرکرنے والے چینلوں کو تحفظ فراہم کررہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وہ اس معاملے کی سماعت کرتے کرتے تھک چکے ہیں لہذا اگلی سماعت پر تمام فریقین تحریری جواب داخل کریں جس کے بعد حتمی سماعت کی جائے گی، نیز مرکزی حکومت کی جانب سے داخل کردہ حلف نامہ ایسا نہیں ہے جس کی ہم امید کررہے تھے لہذا مرکزی حکومت اگلی سماعت پر مشترکہ حلف نامہ داخل کرے۔ عدالت نے معاملے کی سماعت تین ہفتے کے لیے ملتوی کردی ہے۔