افغانستان میں آئے دن بم دھماکے، حملے اور تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جس کے باعث عام لوگوں میں شدید خوف وہراس کا ماحول ہے۔
افغانستان کے دار الحکومت کابل میں ہر جگہ خوف کا ماحول چھایا ہوا ہے ،خوف زندگی کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ کابل میں رہنے والے ایک دوکاندار نے کہا کہ اگر آپ کار میں سفر کررہے یا چل رہے ہوتو آپ خوف محسوس کریں گے اگر آپ دوکان میں بھی ہوتو تب بھی خوف چھایا ہوا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہاں پر تھوری بھی سکیورٹی ہوتی تو ملک چھوڑنے کے بارے میں کبھی سوچا نہیں جاسکتا تھا۔
ایک نجی فرم میں کام کرنے والے شخص نے کہا کہ خوف ہر جگہ ہے یہ ملک خوف کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ کابل میں خوف زندگی کا ایک طویل حصہ بن چکا ہے جہاں کسی بھی وقت موت کا امکان ہوتا ہے۔ یہاں پر زندگی بدتر ہونے کا احساس مزید شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی کوشش کررہی ہے لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ ملک میں امن قائم ہوتا ہے یا پھر انتہا پسند حکومت پھر لوٹ آتی ہے۔
ایک خاتون نے کہا کہ میں نے کتنے ہی بم دھماکوں کو دیکھا اور ان کی آوازیں سنی ہیں کوئی بھی شخص جوانی میں مرنا نہیں چاہتا۔ ایک کمپنی میں ملازمت کرنے والی سابق ٹاپ فٹ بال کھلاڑی زہرہ فیاضی نے کہا کہ روزآنہ صبح آفس جاتے وقت کسی بھی دھماکے کا امکان ہوتا ہے اور جب آفس پہنچتے ہیں تو وہاں پر اسی مسئلے پر بات ہوتی ہے کہ آج کہاں پر دھماکہ ہوا ہےاور کتنے افراد ہلاک ہوئے ہیں؟۔
حال ہی میں وسطی کابل میں نا معلوم مسلح افراد دو خاتون ججز کا قتل کیا، یہ دونوں خواتین افغانستان کی سپریم کورٹ میں کام کررہی تھیں۔ جنوری کے پہلے ہفتے ہی میں کابل میں متعدد بم دھماکے ہوئے جس میں ایک پولیس آفیسر، ملٹری پائلٹ، ایک فوجی اور دو حکومت کے ترجمان ہلاک ہوئے ہیں۔
افغانستان کے سائنس داں عمر صدر کا کہنا ہے کہ میں خود اپنی حفاظت کے تعلق سے مطمئن نہیں ہوں، اگر یہی صورت حال رہی تو آپ کے لئے جمہوریت کے لئے درکار فضا کبھی حاصل نہیں ہوگی‘۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین، جہد کار، صحافی اور سکیورٹی فورسز کی ہلاکت کے ذریعہ طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں کہ مذاکرات کو روک دیا جائے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال ہی منصوبہ بند طریقے سے تین سو سے زائد افراد کو ہلاک کیا گیا اور یہ صرف طالبان کے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبانا ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان میں آئے دن بم دھماکے، حملے اور تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ طالبان کے حملوں میں بے قصور عام شہریوں کی ہلاکت ہوتی ہے جبکہ سکیورٹی فورسز کے حملوں میں طالبان سمیت عام شہری ہلاکت کا شکار ہوتے ہیں۔ جس کے باعث عام لوگوں میں شدید خوف وہراس کا ماحول ہے۔
( نیویارک ٹائم سے ترجمہ شدہ )