The "wall of kindness" is the best way to help the poor
قومی خبریں

دیوار مہربانی غریبوں کی مدد کا بہترین ذریعہ

دیوار مہربانی کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہاں سے کوئی چیز لینے والے کو چیز دینے والے کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا ہے۔ایک جانب جہاں اہل خیر حضرات اپنی استطاعت کے مطابق مختلف چیزیں عطیہ کر جاتے ہیں۔ وہیں غریب افراد اپنی ضرورت کی چیزیں یہاں سے لے کر جاتے ہیں۔

وہ کون تھا ؟ اس کا نام کیا تھا اور وہ کہاں کا رہنے والا تھا ؟ دنیا نہیں جانتی لیکن اس کے ایک عمل اور فیصلے نے نہ صرف دنیا کے کروڑوں ضرورت مندوں کو ضرورت کی چیزیں فراہم کردی تھی بلکہ کروڑوں انسانوں کی سوچ بھی بدل کررکھ دی تھی۔ اور اس کے اس فیصلے کو آج بھی لوگ اپنے اپنے اعتبار اور طریقے سے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کررہے ہیں۔جی ہاں ہم بات کررہے ہیں ’’دیوار مہربانی ‘‘ کی کہ یہ کس نے شروع کیا اور کیسے شروع ہوئی؟۔

دیوار مہربانی کیا ہے ؟


شہر میں کسی دیوار پر کھوٹیاں لگوائیں جاتی اور ان پر گرم اور ضرورت سے زائد کپڑوں کو لٹکایا جاتا ہے جس سے ضرورت مند افراد اپنی ضرورت کو پورا کرتے ہیں ۔

دیوار مہربانی کا آغاز کیسے ہوا ؟


ایران کے سرد ترین مشہد شہر میں 2015 میں ایک شخص نے غریب افراد کو سردی میں کپکپاتے ہوئے دیکھا غریب افراد کی اس مجبوری کو دیکھ کر وہ اپنے گھر گیا اور اس نے اپنے ساتھ چندگرم ملبوسات ‘ کھوٹی اور پینٹ لے آیا ۔ اس شخص نے شہر کی ایک دیوار پر پینٹ کیا ۔ اس پر کھوٹیاں لگوائیں اور ان پر گرم ملبوسات لٹکادیے اور دیوار پر دو فقرےلکھ دیے۔

بشکریہ ٹویٹر


اگر آپ کے پاس ضرورت سے زائد کپڑے ہوتو یہاں لٹکا جائیے
اگرآپ ضرورت مند ہے تو یہاں سے لے جائیے ۔


دیوار مہربانی کی مقبولیت کیسے ہوئی؟


دوسرے دن جب شہروالوں نے اس دیوار کو دیکھا تو سب حیران ہوگئے اور انہیں یہ عمل کافی اچھا لگا۔ نوجوانوں نے اس دیوار مہربانی کی تصاویر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کیا جس کے بعد ایران کے مشہد سے یہ’’ دیوار مہربانی ‘‘ تہران اور پھر پورے ایران میں وائر س کی طرح پھیل گئی اور لوگ شہر کی دیواروں پر ضرورت سے زائد کپڑے لٹکا دیتے اور غریب افراد وہاں سے لے جاتے۔

بشکریہ ٹویٹر

سوشل میڈیا کے ذریعہ دیوارمہربانی سنٹر ل ایشیاءاور مشرقی یورپ تک پھیل گیا۔مشرقی یورپ میں ان دنوں شامی پناہ گزینوں کی یلغار جاری تھی وہاں کے لوگوں کو بھی کافی پسند آیا ‘ انہوں نے شامی پناہ گزینوں کی گذرگاہوں پر ’’ دیوار مہربانی ‘‘ بنانا شروع کردی جس سے شامی پناہ گزینوں کی کافی مدد ہوئی۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ مدد کا یہ انوکھا طریقہ عالمی سطح پر مقبول و معروف ہوا۔

پاکستان میں بھی شیعہ حضرات رہتے ہیں ان میں سے چند افراد ایران سے واپسی کے بعد انہوں نے بھی دیوار مہربانی شروع کی آہستہ آہستہ پورے پاکستان بالخصوص پشاور میں پہلی مرتبہ دیوار مہربانی قائم کی گئی تو یہاں پہلے ہی دن دو ہزار سے زائد افراد نے اپنے ضرورت سے زائد چیزوں کو یہاں پر لٹکایا اور اتنے ہی لوگوں نے یہاں سے اپنی ضرورت کو پورا کیا ۔

بشکریہ ٹویٹر


ایران، ترکی اور پاکستان میں انتہائی کامیاب اور مقبول ثابت ہونے والی ‘دیوار مہربانی’ مہم اب جموں وکشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر بھی پہنچ چکی ہے ۔ سری نگر میں ‘دیوار مہربانی’ تاریخی لال چوک سے قریب 500 میٹر کی دوری پر واقع آبی گذر میں دریائے جہلم کے کنارے قائم کی گئی ہے ۔سری نگر میں ٹریفک آفیسر اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے اس دیوار مہربانی کو قائم کرنے کی پہل کی گئی ہے ۔ جہاں ایک جانب اس بہتر کوشش سے ضرورت مند افراد مستفید ہورہے ہیں وہیں اٹھائیے گئے اس اقدام کی ہر طرح سے پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔

بشکریہ ٹویٹر


دیوار مہربانی کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہاں سے کوئی چیز لینے والے کو چیز دینے والے کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا ہے۔ایک جانب جہاں اہل خیر حضرات اپنی اسطاعت کے مطابق مختلف چیزیں عطیہ کر جاتے ہیں۔ وہیں غریب افراد بھی اپنی ضرورت کی چیزیں یہاں سے لے کر جاتے ہیں۔

دنیا بھر میں سردی کے ایام میں اہل خیر حضرات اپنے اپنے اعتبار سے غریبوں کی مدد کرتے ہیں اور سرد ی سے بچاؤ کےلئے گرم ملبوسات فراہم کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی عظیم سلطنت سلطنت عثمانیہ کے دور میںبھی سردی کے ایام میں گرم ملبوسات کو درختوں پر لٹکا دیا جاتا تھا جس سے ضرورت مند افراد ہی اپنی ضرورت کے مطابق گرم ملبوسات حاصل کیا کرتے تھے۔

واضح رہے کہ دنیابھر بالخصوص ہمارے ملک ہندوستان میں ہزاروں افراد ایسے جن کے پاس موسم کے اعتبار سے کپڑے اور دیگر بنیادی چیزیں نہیں ہوتی ۔ ہندوستان میں کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاون کے بعد تو صورت حال انتہائی ابتر ہوچکی ہے ۔ ہزاروں افراد بے روزگاری اور بھوک مری کاشکار ہوگئے ہیں۔ لاک ڈاون کے دوران ہی درجنوں افراد نے بے روزگاری اور بھوک مری کی وجہ سے خود کشی کی ہے ۔