ملک بھر میں گذشتہ سالوں میں گائے کے نام پر تشدد میں کئی مسلم نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس تشدد میں کئی بے قصور افراد ہلاکت کا شکار ہوگئے ۔ گاؤ رکشک کے نام سرعام بے قصور مسلم اور دلت افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
ریاست کرناٹک میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی برسر اقتدار حکومت نے اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود گئوکشی بل کو آرڈیننس کے ذریعے قانون کی شکل دے کر اسے نافذ بھی کردیا ہے۔
ریاست کرناٹک کی بی جے پی حکومت نے انسداد گؤ کشی آرڈیننس منظور کرا لیاہے، جس کے تحت ریاست میں اب گائے اور اس کی نسل میں شامل جانوروں کی ذبیحہ قانوناً جرم شمار کیا جائے گا۔ البتہ ایسے بھینس جس کی عمر13سال سے زیادہ ہو اس کے ذبیحہ کی اجازت ہے۔
بنگلور میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی انسداد گوکشی بل کے متعلق سماجی و سیاسی حلقوں میں بھی مخالفت کی جارہی ہے۔ حالانکہ اسمبلی میں اس بل کو پاس کردیا گیا ہے۔ وہیں امکان جتایا جا رہا ہے کہ کونسل میں اپوزیشن کے مضبوط ہونے کی وجہ سے یہ ممکنہ طور پر پاس نہیں ہو پائےگا۔
ریاست میں تقریباً 70 سماجی و سیاسی تنظیموں پر مشتمل ‘کرناٹک جن جاگروتی آندولن نے طئے کیا ہے کہ بی جے پی کے گئوکشی آرڈیننس کی مخالفت میں ریاست گیر مہم چلائی جائے گی۔
تقریباً 70 سماجی و سیاسی تنظیموں پر مشتمل ‘کرناٹک جن جاگروتی آندولن کی جانب سے یہ طے کیا گیا کہ بی جے پی کے گئوکشی آرڈیننس کی مخالفت میں ریاست گیر مہم چلائی جائے گی۔ جن جاگروتی آندولن کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ مذکورہ قانون کے نفاذ سے قبل وہ لوگوں سے مشورہ کرتے یا پھر اس قانون سے ممکنہ طور پر متاثر ہونے تاجروں کے متعلق کوئی منصوبہ بناتے اور پھر ان کی رائے کے ساتھ قانون کا نفاذ کرتے۔
ان لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پہلے مرکزی حکومت بیف ایکسپورٹ پر پابندی لگائے اور پھر گئوکشی قانون کے متعلق بات کرے۔
‘سماج میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ گوکشی کے آرڈیننس کے نفاذ سے نہ صرف مسلمان بلکہ کئی بچھڑے طبقے اور کسان اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسے واپس لے۔
سیر کمیٹی گلبرگہ کے کارگزار صدر ڈاکٹر اضغر چُلبل نے کہا کہ ‘ملک میں ایسے حالات پیدا کردیے گئے ہیں کہ مسلمان کی مذہبی آزادی اور ان کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
گوکشی بل 2020 کے متعلق سید شفیع اللہ نے کہا کہ ‘جانور جب دودھ دینے کے لائق نہیں ہوتے ہیں تو کسان کے لئے بوجھ بن جاتے ہیں اور تبھی کسان اسے بیچ کر نیا جانور خریدتا ہے۔ جس سے اسے معاشی مدد ملتی ہے۔
اسی معاملے میں ایک سماجی کارکن کی جانب سے انسداد گؤکشی آرڈیننس کے خلاف دائر مفاد عامہ کی عرضی پر کرناٹک ہائی کورٹ نے بی جے پی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔چیف جسٹس اے ایس اوکا کی سربراہی والی دو رکنی بینچ نے حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مفاد عامہ کی عرضی پر 17 فروری تک جواب داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔
عرضی گزار نے مفاد عامہ کے دفعہ 5 کے تحت مذکورہ آرڈیننس کو نافذ نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔ مزید عرضی میں کہا گیا ہے کہ جانوروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں کافی دشواریوں کا سامنا ہے۔
دو رکنی بیچ نے ریاستی حکومت سے عرضی گزار کے اعتراضات کو واضح کرنے کی ہدایت دی ہے۔ کورٹ کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس سلسلے میں اپنی وضاحت دینی چاہیے۔ جبکہ اس سلسلے میں اایڈ جنرل پربھولنگا نے حکومت کی جانب سے درخواست داخل کی ہے۔ہائی کورٹ نے 18 جنوری تک سماعت ملتوی کردی ہے۔
واضح رہے کہ ملک بھر میں گذشتہ سالوں میں گائے کے نام پر تشدد میں کئی مسلم نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس تشدد میں کئی بے قصور افراد ہلاکت کا شکار ہوگئے ۔ گاؤ رکشک کے نام سرعام بے قصور مسلم اور دلت افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اترپردیش میں یہ قانون نافذ کردیا گیا ہے جس کے تحت گاؤ کشی کرنے والے شخص کو 10 سال قید کی سزا اور پانچ لاکھ روپئے جرمانہ عائد کیاجائے گا۔