Death penalty for publishing blasphemous material
قومی خبریں

گستاخانہ مواد کی اشاعت پر سزائے موت

دنیا بھر میں اظہار آزادی ٔ رائے کے نام کبھی اسلام اور کبھی پیغمبر اسلام ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کی جاتی ہے اور اس کو ’’ فریڈم آف اسپیچ ‘‘کا نام دیا جاتا ہے ۔ اظہار آزادی ٔ رائے نام پر کسی بھی مذہب کی توہین نہیں کی جاسکتی ۔ اور نہ ہی کسی مہذب سماج میں اس کی اجازت نہیں ۔

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک عدالت نے جمعے کے روز سوشل میڈیا پر پیغمبر اسلام ﷺ سے متعلق گستاخانہ مواد شائع کرنے کا جرم ثابت ہونے پر تین افراد کو موت جبکہ ایک مجرم کو دس سال قید کی سزا سنا دی ہے۔

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج راجہ جواد عباس نے 2018 میں درج کردہ مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے تین مجرمان کو موت کی سزا سنائی ہے ان میں ناصر احمد سلطانی ،عبدالوحید اور رانا نعمان شامل ہیں جبکہ پروفیسر انوار کو دس برس قید کی سزا دی گئی ہے۔

جن تین مجرمان کو توہین مذہب کے قانون 295 سی کے تحت موت کی سزا سنائی گئی ہے اُنھیں انسداد دہشت گردی کے ایکٹ سات کے تحت پانچ پانچ سال قید اور پچاس ہزار روپے جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔ جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں مزید چھ ماہ قید بھگتنا ہوگی۔

ان سزاؤں پر عمل درآمد ایک ہی وقت میں شروع ہوگا۔ اس عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سزائے موت پر عمل درآمد اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب اسلام آباد ہائی کورٹ اس فیصلے کی توثیق نہیں کرتی۔

اس مقدمے کی تفتیش کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق مجرم ناصر احمد سلطانی کا تعلق پنجاب کے ضلع جھنگ سے ہے اور اُنھوں نے پیغمبر ہونے کا دعوی بھی کیا تھا اس کے علاوہ دیگر دو مجرمان کا تعلق صوبہ سندھ کے شہر کراچی سے ہے اور اُنھوں نے سوشل میڈیا پر پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں توہین آمیز تبصرے کیے تھے۔

مقدمے کے تفتیشی افسر کے مطابق جس چوتھے مجرم کو دس سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے وہ اسلام آبادکے ایک کالج کے میں استاد تھے۔ تفتیشی افسر کے مطابق پروفیسر انوار کالج میں لیکچر کے دوران پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین امیز الفاظ بھی کہتے رہے ہیں جن کے بارے میں شہادت ان کے طالب علموں نے بھی دی۔

واضح رہے کہ سنہ 2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ سوشل میڈیا پر پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں توہین آمیز مواد شائع کیا جارہا ہے لہٰذا ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

ایف آئی اے کے اہلکار کے مطابق تمام شواہد کو سامنے رکھتے ہوئے تفتیش کی گئی اور تفتیش میں متعدد افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں وہ بلاگرز بھی شامل تھے جو جنوری 2017 میں لاپتہ ہوئے تھے اور تاہم ان کا اس مقدمے سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا تھا اور ان کے بارے میں رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروادی گئی تھی۔

جج نے جب اس مقدمے کا فیصلہ سنایا تو مجرمان کو سکیورٹی کے سخت حصار میں عدالت میں پیش کیا گیا۔ فیصلے سننے کے بعد مجرمان کو واپس اڈیالہ جیل بھیجنے کے لیے سکیورٹی کے سخت انتظامات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

مجرم کون ہیں؟

سزائے موت پانے والے پہلے مجرم ناصر احمد سلطانی کے بارے میں ایف آئی اے کے حکام کا کہنا ہے اس کے بارے میں ایسے شواہد موجود ہیں کہ جس میں انھوں نے فیس بک اور سوشل میڈیا کے دوسرے پلیٹ فارم پر پیغمبر ہونے کا دعوی کیا تھا۔

ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے مطابق مجرم ناصر احمد سلطانی پاکستان میں اقلیت قرار دی جانے والی جماعت احمدیہ (حقیقی) کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ بھی چلاتے تھے۔

دوسرے مجرم عبدالوحید کے بارے میں ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ دین کے بارے میں اُنھیں کافی معلومات ہیں ایف آئی اے کے حکام کے مطابق مجرم نے پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں فیس بک اور سوشل میڈیا کے دوسرے پلیٹ فارم پر پیغمبر اسلام کے بارے میں کمنٹس دیے ہیں جس کے بارے میں شواہد عدالت میں پیش کیے گئے۔

چوتھے مجرم رانا نعمان کے بارے میں ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ وہ اور عبدالوحید ان افراد میں شامل ہیں جنھوں نے پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز کتاب کا ترجمہ کیا تھا۔

دس برس قید کی سزا پانے والے مجرم انوار احمد کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ اسلام آباد کے ایک سرکاری کالج میں اردو کے پروفیسر تھے اور انٹرمیڈیٹ کے طالب علموں کو لیکچر کے دوران وہ انسان کے مرنے کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے نیک انسانوں کے لیے جنت میں دی جانے والی سہولتوں کا نہ صرف مذاق اڑاتے رہے ہیں بلکہ وہ اللہ تعالی کی ذات کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

اس مقدمے میں پروفیسر انوار احمد واحد مجرم ہیں جنھوں نے اپنے جرم کا اعتراف کیا جبکہ باقی مجرمان نے استغاثہ کو اپنے خلاف گواہان اور شہادتیں پیش کرنے کو ترجیح دی تھی

( بشکریہ بی بی سی )