اگریکلچرل اینڈ پروسیسڈ فوڈ پروڈکٹس ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایپیڈا) نے گوشت ایکسپورٹ (برآمد) فہرست سے لفظ ‘حلال کو ہٹا دیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ گوشت برآمد کرنے والی سبھی کمپنیوں کو اب حلال سرٹیفیکیشن کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ صرف ان کمپنیوں کو ہو گی جو مسلم ممالک کو گوشت برآمد کرتی ہیں۔نئے حکم کے مطابق اب برآمد کیے جانے والے گوشت پر لکھا جائے گا کہ ’جانوروں کو درآمد کرنے والے ممالک کے قواعد کے مطابق ذبح کیا گیا ہے۔‘
ایگریکلچرل اینڈ پروسیسڈ فوڈ پروڈکٹس ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (APEDA) زرعی برآمدات سے وابستہ حکومت ہند کا ادارہ ہے۔ ایپیڈا نے واضح کیا ہے کہ برآمدی مقاصد کے تحت ایسا کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ لفظ ‘حلال کو نئے مینوئل سے ہٹا دیا گیا ہے کیونکہ اس سے الجھن ہو رہی تھی۔ خواہ وہ گوشت ہو یا کوئی اور مصنوعات اس کا انحصار درآمد کرنے والے ملک اور خریدار کی ضرورت پرمنحصر ہوتا ہے۔
تاہم اس فیصلے کا زمینی سطح پر زیادہ اثر نہیں ہوگا۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ اسلامی ممالک صرف حلال گوشت کے درآمد کی اجازت دیتے ہیں۔
بھارت دنیا میں بھینس کے گوشت برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، وہیں ملک ویتنام ایک ایسا ملک ہے جو سب سے زیادہ دنیا میں گوشت درآمد کرتا ہے۔ خیال رہے کہ بھارت سے گوشت کی پیداوار اور برآمد کا آغاز 1969 میں ہوا۔
واضح رہے کہ گوشت سے متعلق اس ہدایت نامے میں پہلے لکھا جاتا تھا کہ ’تمام جانوروں کو اسلامی شریعت کے مطابق جمیعت العلمائے ہند کی نگرانی میں ذبح کیا جاتا ہے، جس کے بعد ہی جمیعت حلال سرٹیفیکٹ دیتی ہے۔اپیڈا نے واضح کیا ہے کہ ’حلال‘ کا سرٹیفکیٹ دینے میں کسی بھی سرکاری محکمے کا کوئی کردار نہیں۔
ہندوستان میں جانوروں کو دو طریقے سے ذبح کیا جاتا ہے: حلال اور جھٹکا۔ کئی قومیں جھٹکا گوشت کو ترجیح دیتی ہیں جس کے تحت حلال طریقے کے برعکس جانور کو ایک جھٹکے میں ذبح کیا جاتا ہے۔
ہندو پریشدکا کہناہے کہ ’یہ تو ایک مذہب کے نظریہ کو مسلط کرنا ہوا۔ ہم حلال کھانے والوں کے حق کو چیلنج نہیں کررہے ہیں لیکن جو لوگ حلال نہیں کھانا چاہتے ہیں ان پر یہ کیوں مسلط کیا جا رہا ہے؟ ہم اسی بات کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انڈیا ایک سیکولر ملک ہے اور سبھی کو کاروبار کرنے کے مساوی حقوق ملنے چاہیے۔‘
واضح رہے کہ جمیعت کے علاوہ اور بھی تنظیمیں حلال سرٹیفیکٹ دیتی ہیں اور جمیعت خود گوشت کے علاوہ متعدد اشیاء کو حلال سرٹیفیکٹ دیتی ہے جو ہندوستان کے علاوہ مسلم ممالک میں فروخت ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں ملک بھر میں گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں متعدد لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا چکا ہے جس میں کئی افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔
اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ سنہ 2019 اور 2020 مالی سال کے دوران تقریباً 23 ہزار کروڑ روپے کا ’ریڈ میٹ یعنی بھینس کا گوشت انڈیا سے برآمد کیا گیا۔ اس میں سے سب سے زیادہ گوشت ویتنام کو برآمد کیا گیا۔اس کے علاوہ بھینس کا گوشت ملائیشیا، مصر، سعودی عرب، ہانگ کانگ، میانمار اور متحدہ عرب امارات کو بھی برآمد کیا گیا تھا۔
تنظیموں کا کہنا ہے کہ اگر اسلامی ممالک کو چھوڑ دیا جائے تو بھی صرف ویتنام کو ہی تقریبا 7600 کروڑ کا گوشت برآمد کیا گیا۔ جو گوشت ویتنام اور ہانگ کانگ بھیجا جاتا ہے اس کا حلال ہونا لازمی نہیں کیونکہ وہاں سے یہ چین جاتا ہے جہاں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گوشت حلال ہے یا نہیں۔