ہمارے ملک میں یوں تو بے روزگاری عام لوگوں بالخصوص نوجوانوں کے لئے پہلے سے ہی ایک اہم مسئلہ تھا لیکن کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کے بعد تو بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے۔
ریاست اترپردیش کے ضلع مرادآباد کے رہنے والے دونوں پیر سے معذور نوجوان سلمان نامی شخص کا کارنامہ دیگر معذوروں کے مشعل راہ ہے، اپنے دونوں پیروں سے معذور ہونے کے باوجود بھی سلمان نے خود کی فیکٹری کھول رکھی ہے، ساتھ ہی انہوں نے کئی معذوروں کو روزگار بھی مہیا کرایا ہے۔
مرادآباد کے کاشی پور سے تقریبا 22 کلو میٹر کی دوری پر واقع گاؤں ہمیر پور کے رہنے والے سلمان پیدائشی طور پر اپنے دونوں پیروں سے معذور ہیں، کئی برسوں تک وہ ‘ایس ایس سی کے مقابلہ جاتی امتحانات میں شامل ہوتے رہے، لیکن کامیاب نہ ہونے کے باعث انہوں نے دسمبر سنہ 2019 سے اپنا کام شروع کردیا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی ارادہ کیا کہ وہ اپنی طرح معذوروں کو نوکری دیں گے۔ سلمان نے اپنے گاؤں میں ہی ایک کرایہ کے مکان میں ٹارگیٹ نامی ایک کمپنی قائم کی۔ ابتدائی دنوں میں سلمان چھوٹے پیمانہ پر چپل اور ڈٹرجنٹ پاؤڈر بنانے کا کام شروع کیا، اب ان کے کارخانہ میں 55 سے زیادہ معذور کام کر رہے ہیں ساتھ ہی وہ دیگر معذوروں کو بزنس کا طریقہ بھی سکھا رہے ہیں۔
سلمان نے نہ صرف اپنے لئے روزگار پیدا کیا بلکہ دوسرے معذوروں کے لئے روزگار کا سبب بنے اور یوں ان کایہ کارنامہ ملک بھر کی عوام میں مشہور و معروف ہوا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے 23 فروری 2020 کے من کی بات میں ان کی ستائش کی ہے، وزیر اعظم کی اس ستائش کے بعد امید ہے کہ ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ انہیں ایک ابھرتے ہوئے انٹر پرینر کے خطاب سے نوازیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے 23 فروری کے اپنے من کی بات میں سلمان کی ستائش کی اور کہا تھا کہ میں نے میڈیا کے ذریعے ایک ایسی کہانی پڑھی جسے میں آپ لوگوں سے ضرور شیئر کرنا چاہوں گا، انہوں نے کہا تھا کہ مرادآباد کے ہمیر پور کے رہنے والے سلمان جو دونوں پیروں سے معذور ہیں، اپنی بلند ہمت اور عزم مصمم سے انہوں اپنے دیگر معذور ساتھیوں کے ساتھ مل کر چپل اور ڈٹرجنٹ پاؤڈر کا کام شروع کیا، آج 30 معذور ان کے پاس نوکری کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے تقریبا 100 دیگر معذوروں کو نوکریاں دینے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
سلمان کی فیکٹری میں تقریبا 20 معذور افراد ایک شفٹ میں کام کرتے ہیں، دن بھر میں یہ لوگ تقریبا 150 جوڑے سے زیادہ چپل تیار کر لیتے ہیں، اس کے ساتھ ڈٹرجنٹ بنانے کاکام بھی کرتے ہیں، جب چیزیں تیار ہوجاتی ہے تو انہیں فروخت کرنے کی بھی ذمہ داری معذوروں کے ہی سپرد کی جاتی ہے، مارکیٹنگ کے کام میں 20 سے زیادہ معذور افراد روزانہ 5 ہزار کا سامان فروخت کر لیتے ہیں، معذوروں کے یہ ٹیم گاؤں گاؤں گھر گھر جا کر چپل اور ڈٹرجنٹ فروخت کرتے ہیں، اس کام میں بطور کمیشن فی فرد کو 500 روپے بچتے ہیں۔
سلمان نے اس تعلق سے بتایا کہ جب مجھے نوکری نہیں ملی تب مجھے اپنے جیسے دیگر معذوروں کا درد سمجھ میں آیا، تبھی میں نے یہ بیڑا اٹھا یا کہ میں اپنے جیسے معذوروں کے لیے کچھ کروں گا، جس کے بعد میں کمپنی سے 5 لاکھ روپے لیے اور ‘ ٹارگیٹ ‘ نامی فیکٹری کی بنیاد رکھی، سلمان کے مطابق فیکٹری میں تیار چپل 100 روپے میں فروخت ہوجاتے ہیں ساتھ ہی 10 روپے میں ڈٹرجنٹ پاؤڈر بھی فروخت ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پروڈکٹ کی مارکیٹنگ بھی انہیں معذوروں سے کرائی جاتی ہے، تھوڑی پریشانی تو ضرور ہوتی ہے لیکن سب کام بخوبی انجام پاتا ہے۔
سلمان نے مزید کہاکہ میں معذوروں کا درد سمجھتا ہوں، فیکٹری میں تیار چیزوں کو مرادآباد منڈل کے علاوہ بریلی سے بھی کچھ معذور بھائی ہم سے سامان خرید کر ڈور ٹو ڈور بیچ رہے ہیں، انہوں نے بتایاکہ معذوروں کی ایک تنظیم کے بینر تلے ہم نےسوشل میڈیا پر اپنے کام کو شیئر بھی کیا۔ سلمان کا مزید کہنا ہے کہ ابھی ہمارا کام چھوٹے پیمانہ پر چل رہا ہے لیکن اسے بڑے پیمانہ پر ہم ضرور لے جائیں گے۔
سلمان اپنی کامیابی کا کریڈٹ وزیر اعظم نریندر مودی کو ہی دیتے ہیں، انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم نے جب ہمارے کاروبار کو من کی بات کے ذریعے شیئر کیا تب سے ہمارے کام کو مزید فروغ ملا ہے۔