آج مسلمان نئے سال کی آمد پر جشن مناتا ہے اور اس کو اسلامی سال کے آغاز کا پتہ ہی نہیں، اسلامی مہینوں کے نام پتہ نہیں، کیا اس کو یہ معلوم نہیں کہ اس نئے سال کی آمد پر اس کی زندگی کا ایک برس کم ہوگیا ہے ، زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمتی نعمت ہے اور نعمت کے زائل یاکم ہونے پر جشن نہیں منایا جاتا بلکہ افسوس کیا جاتاہے۔
دنیا کے تمام مذاہب اور قوموں میں تہوار اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے رائج ہیں۔ ہر ایک عید اور تہوار کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے اور ہر عید اور تہوار کوئی نہ کوئی پیغام دے کر جاتا ہے، جن سے نیکیوں کی ترغیب ملتی ہے اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت ملتی ہے؛ لیکن لوگوں میں بگاڑ آنے کی وجہ سے ان میں ایسی بدعات وخرافات بھی شامل کردی جاتی ہیں کہ ان کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا ترقی کی منازل طے کرتی گئی اور مہذب ہوتی گئی انسانوں نے کلچر اور آرٹ کے نام پر نئے جشن اور خوشیاں منانے کے طریقے وضع کیے انھیں میں سے ایک نئے سال کا جشن ہے ۔
در اصل یہ نئے سال کا جشن عیسائیوں کاایجاد کردہ ہے، عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلتی آرہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق ۲۵/دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ، اسی کی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہی کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے۔
نئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور ۳۱/دسمبر کی رات میں ۱۲/ بجنے کا انتظار کیا جاتاہے اور ۱۲/بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہے، کیک کاٹا جاتا ہے، ہر طرف ہیپی نیو ائیر( نئے سال کی مبارک باد) کی صدا گونجتی ہے، آتش بازیاں کی جاتی ہیں اور مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھا جاتاہے، جس میں شراب و شباب اور ڈانس کا بھر پور انتظام رہتا ہے؛ اس لیے کہ ان کے تفریح صرف دو چیزوں سے ممکن ہے اوّل شراب دوسرے عورت۔
آج ان عیسائیوں کی طر ح بہت سے مسلمان بھی نئے سال کے منتظر رہتے ہیں اور ۳۱/ دسمبر کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے، ان مسلمانوں نے اپنی اقدارو روایات کو کم تر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کر دیا ہے؛ جب کہ یہ عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظام تاریخ ہے۔ مسلمانوں کا اپنا قمری اسلامی نظام تاریخ موجود ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے مربوط ہے جس کا آغاز محرم الحرام سے ہوتاہے یہی اسلامی کیلینڈر ہے؛ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کو اس کا علم بھی نہیں ہوپاتا۔
آج مسلمان نئے سال کی آمد پر جشن مناتا ہے اور اس کو اسلامی سال کے آغاز کا پتہ ہی نہیں، اسلامی مہینوں کے نام پتہ نہیں، کیا اس کو یہ معلوم نہیں کہ اس نئے سال کی آمد پر اس کی زندگی کا ایک برس کم ہوگیا ہے ، زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمتی نعمت ہے اور نعمت کے زائل یاکم ہونے پر جشن نہیں منایا جاتا بلکہ افسوس کیا جاتا ہے۔
آج اگر ہم اپنی موجودہ صورت حال پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ہمارے معاشرہ میں پوری مغربی تہذیب کااثر چھایا ہوا ہے۔ ہمارے گھروں میں مغربی تہذیب ،ہماری خواتین اپنے آپ کو مغربی تہذیب میں ڈھال کرنے کی پوری پوری کوشش کرتی نظر آئیں گی۔ ہمارے نوجوان مغربی تہذیب کے دلدادہ ، ان کے رسم ورواج سے وہ شدید متاثر، ان کے خوشیوں میں ہم اس طرح شامل ہوجاتے ہیں کہ گویا وہ ہماری ثقافت، کلچر اور مذہب کا حصہ ہو۔
گزرا ہوا سال تلخ تجربات، حسیں یادیں، خوشگوار واقعات اور غم و الم کے حادثات چھوڑ کر رخصت ہوجاتا ہے اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور نا پائیداری کا پیغام دے کر الوداع کہتا ہے، سال ختم ہوتاہے تو زندگی کی بہاریں بھی ختم ہوجاتی ہیں اور انسان اپنی مقررہ مدت زیست کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہوتا رہتا ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعوؓدفرماتے ہیں کہ میں کسی چیز پر اتنا نادم اور شرمندہ نہیں ہوا جتنا کہ ایسے دن کے گزرنے پر جس کا سورج غروب ہوگیا جس میں میرا ایک دن کم ہوگیا اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہ ہوسکا۔
حسن بصری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ: اے ابن آدم! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے، جب ایک دن گزرگیا تو یوں سمجھ تیرا ایک حصہ بھی گزرگیا۔یہ عمر اور زندگی جو ہم کو عطا ہوئی ہے وہ صرف آخرت کی ابدی زندگی کی تیاری کی خاطر عطا ہوئی ہے کہ ہم اس کے ذریعے آنے والی زندگی کو بہتر بناسکیں اور اپنے اعمال کو اچھا بناسکیں۔
حضرت علی المرتضی ؓفرماتے ہیں کہ یہ ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں، اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ترجمہ: آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول چیزوں سے بچے۔( ترمذی شریف) ہمارے آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو غیروں کی اتباع اور مشابہت اختیار کرنے سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ترجمہ: جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انھیں میں سے ہے۔( ابو داؤد شریف ) اب سوال یہ ہے کہ اس موقع پر مسلمانوں کو کیا رویّہ اختیار کرنا چاہیے جو قرآن و احادیث کی روشنی میں صحیح ہو؟
نئے سال سے متعلق کسی عمل کو تلاش کرنے کی کوشش کی تو قرون اولی کا کو ئی اور عمل تو مل نہ سکا، البتہ بعض کتب حدیث میں یہ روایت نگاہوں سے گذری کہ جب نیا مہینہ یا نئے سال کا پہلا مہینہ شروع ہوتا تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے اور بتا تھے ”اللّٰہُمَّ أدْخِلْہُ عَلَیْنَا بِالأمْنِ وَ الإیْمَانِ، وَالسَّلَامَة وَاإسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ وَجِوَازٍمِّنَ الشَّیْطَانِ“ (المعجم الاوسط للطبرانی ) ترجمہ: اے اللہ اس نئے سال کو ہمارے اوپر امن وایمان، سلامتی و اسلام او راپنی رضامندی؛ نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما۔اس دعا کو پڑھنا چاہیے ، نیز اس وقت مسلمانوں کو دو کام خصوصا کر نے چاہئیں یا دوسرے الفاظ میں کہ لیجیے کہہ نیا سال ہمیں خاص طور پر دو باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے : (۱) ماضی کا احتساب (۲) آگے کا لائحہ عمل۔
ماضی کا احتساب
نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے۔ کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
ہمیں عبادات، معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں، اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے، لیکن خود کی نظروں سے نہیں بچ سکتا، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ”حَاسِبُوْا أنْفُسَکُمْ قَبْلَ أنْ تُحَاسَبُوْا“۔ (ترمذی شریف) ترجمہ: تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔
اس لیے ہم سب کو ایمان داری سے اپنا اپنا موٴاخذہ اور محاسبہ کرنا چاہیے اور ملی ہوئی مہلت کا فائدہ اٹھانا چاہیے؛ اس سے پہلے کہ یہ مہلت ختم ہوجائے ۔ اسی کو اللہ جل شانہ نے اپنے پاک کلام میں ایک خاص انداز سے ارشاد فرمایا ہے ترجمہ: اور جو کچھ ہم نے تمھیں دے رکھا ہے، اس میں سے (ہماری راہ میں) اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو وہ کہنے لگے اے میرے پروردگار مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہوجاوٴں ۔ اور جب کسی کا وقت مقرر آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالی ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالی اچھی طرح باخبر ہے۔( سورۃ المنافقون )
آگے کا لائحہ عمل:۔
اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کے تجربات کی روشنی میں بہترین مستقبل کی تعمیر اور تشکیل کے منصوبے میں منہمک ہونا ہوگا کہ کیا ہماری کمزوریاں رہی ہیں اور ان کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے؟ دور نہ سہی تو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟ انسان غلطی کا پتلا ہے اس سے غلطیاں تو ہوں گی ہی ، کسی غلطی کا ارتکاب تو برا ہے ہی اس سے بھی زیادہ برا یہ ہے کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور اسی کا ارتکاب کیا جاتا رہے۔
یہ منصوبہ بندی دینی اور دنیوی دونوں معاملات میں ہو جیساکہ حدیث سے معلوم ہوتاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہےترجمہ: پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جان لو (۱) اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے (۲) اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے (۳) اپنی مالداری کو فقروفاقے سے پہلے (۴) اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے (۵) اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔
آخرت کی زندگی کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اسی دنیا کے اعمال پر منحصر ہے۔ جیساکہ ارشاد ربانی ہےترجمہ: اور ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی، اور بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی، پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔( سورۃ النجم )
خلاصہ یہ ہے کہ ہر نیا سال خوشی کے بجائے ایک حقیقی انسان کو بے چین کردیتا ہے،اس لیے کہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے میری عمر رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے ۔ وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بل کہ اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوجائے کچھ کر لینے کی تمنا اس کو بے قرار کردیتی ہے اس کے پاس وقت کم اور کام ز یادہ ہوتاہے۔
ہمارے لیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا وقت نہیںبلکہ گزرتے ہوئے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحا تِ زندگی کا صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کا موقع ہے اور از سر نو عزائم کو بلند کرنے اور حوصلوں کو پروان چڑھانے کا وقت ہے۔
مسلمانوں کا نیا سال جنوری سے نہیں، بلکہ محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے جو ہو چکا ہے اور ہم میں سے اکثروں کو اس کا علم بھی نہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قمری اور ہجری سال کی حفاظت کریں اور اپنے امور اسی تاریخ سے انجام دیں،اس لیے کہ ہماری تاریخ یہی ہے، چونکہ ہر قوم اپنی تاریخ کو کسی خاص واقعے سے مقرر کرتی ہے؛ اس لیے مسلمانوں نے اپنی تاریخ کو خلیفہٴ ثانی حضرت عمر فاروق ؓکے دورِ خلافت میں حضرت علی المرتضی ؓکے مشورے سے واقعہ ہجرت سے مقرر کیا ۔
ہمیں ہجری سن دوسرے مروجہ سنین سے بہت سی باتوں میں منفرد نظر آتا ہے ہجری سال کی ابتدا چاند سے کی گئی اور اسلامی مہینوں کا تعلق چاند سے جوڑاگیا، تاکہ چاند کو دیکھ کر ہر علاقے کے لوگ خواہ پہاڑوں میں رہتے ہوں یا جنگلوں میں، شہروں میں بستے ہوں یا دیہاتوں میں، نیز دور دراز جزیروں میں رہنے والے حضرات بھی چاند دیکھ کر اپنے معاملات بہ آسانی طے کرسکیں اور انھیں کسی طرح کی کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ نہ اس میں کسی کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے اور نہ کسی مادی سبب کی احتیاج ہے۔
اسلام کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت مساوات ہے او رایک خصوصیت ہمہ گیری بھی ہے، اسلام نے ان خصوصیات کی حصانت و حمایت میں یہ پسند فرمایا کہ اسلامی مہینے ادلتے بدلتے موسم میں نہ آیا کریں۔ ذرا اسلام کے رکن چہارم ماہ رمضان کے روزوں پر غور کرو کہ اگر اسلام میں شمسی مہینہ مقرر فرمادیا جاتا تو نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ کے لیے آسانی میں اور نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ کے لیے تنگی و سختی میں پڑجاتے۔ پس اسلام کی مساوات ِجہاں گیری کا مقتضا ہی یہ تھا کہ اسلامی سال قمری حساب پر ہو۔
اللہ تعالی نے آفتاب و ماہتاب کے طلوع وغروب اور ان کی رفتار کو ایک خاص حساب سے رکھا ہے جس کے ذریعے انسان سالوں، مہینوں، دنوں اور گھنٹوں کا، بلکہ منٹوں اور سکنڈوں کا حساب بآسانی لگا سکتا ہے یہ اللہ جلَّ شانُہ ہی کی قدرتِ قاہرہ کا عمل ہے کہ ان عظیم الشان نورا نی کروں او ران کی حرکات کو ایسے مستحکم اور مضبوط انداز سے رکھا کہ ہزاروں سال گذرجانے پر بھی ان میں کبھی ایک منٹ یا ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آتا، یہ دونوں نور کے کرے اپنے اپنے دائرے میں ایک معین رفتار کے ساتھ چل رہے ہیں: ”لا الشمس ینبغی لہا أن تدرک القمر ولا اللیل سابق النہار“ ہزاروں سال میں بھی ان کی رفتار میں ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آتا، قرآن کریم کے اس ارشاد نے اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ سالوں اور مہینوں کا حساب شمسی بھی ہو سکتا ہے اور قمری بھی دونوں ہی اللہ تعالی کے انعامات ہیں یہ دوسری بات ہے کہ عام ان پڑھ دنیا کی سہولت اور ان کو حساب کتاب کی الجھن سے بچانے کے لیے اسلامی احکام میں قمری سن وسال استعمال کیے گیے-
چوں کہ اسلامی تاریخ اور اسلامی احکام سب کا مدار قمری حساب پر ہے؛ اس لیے امت پر فرض ہے کہ وہ اس حساب کو باقی رکھے۔ دوسرے حسابات شمسی وغیرہ اگر کسی ضرورت سے اختیار کیے جائیں تو کوئی گناہ نہیں؛ لیکن قمری حساب کو بالکل نظر انداز او رمحو کردینا گناہ عظیم ہے جس سے انسان کو یہ بھی خبر نہ رہے کہ رمضان کب آئیگا اور ذی الحجہ اور محرم کب ۔ (معارف القرآن)
اخیر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو غیروں کی مشابہت سے بچائے اور آقائے نامدار جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی اتباع کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
Best article ahead of New year celebration
thanks