who are maulana kaleem siddiqui and umar gautam
حالات حاضرہ

مولانا کلیم صدیقی اور عمر گوتم کون ہیں؟

حیدرآباد: اتر پردیش اے ٹی ایس کے ہاتھوں تبدیلی مذہب کے معاملے میں مظفر نگر کے رہنے والے مولانا کلیم صدیقی کو سال 2021 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ مولانا پر تبدیلی مذہب کے متعدد الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ عدالت کی جانب سے مولانا کلیم صدیقی مولانا عمر گوتم سمیت 14 افراد کو اس معاملے میں قصور وار قرار دیا گیا ہے۔

  • مولانا کلیم صدیقی کون ہیں؟

مولانا کلیم صدیقی کو ہندوستان کے نمایاں مسلم اسکالرز اور علماء کرام میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ ان کا تعلق مظفرنگر میں کھاتولی علاقے کے پھلت گاؤں سے ہے۔ وہ گلوبل پیس سینٹر اور جامعہ ولی اللہ ٹرسٹ کے صدر ہیں۔ سال 1987 میں انھوں نے اس گاؤں میں جامع امام ولی اللہ اسلامیہ کے نام سے ادارہ بنایا تھا جسے وہ خود چلاتے ہیں۔ ان کے مدرسے میں قریب 300 طالب علم عربی، اُردو اور قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں مولانا کے زیر نگرانی کئی مدارس چلتے ہیں۔

مولانا کلیم صدیقی کی ابتدائی تعلیم پھلت گاؤں کے ایک مدرسے میں ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے پکٹ انٹر کالج کھٹولی سے سائنس اسٹریم میں انٹرمیڈیٹ کیا۔ میرٹھ کالج، میرٹھ سے بی ایس سی پاس کیا۔ مولانا کلیم صدیقی کا شمار خطے کے بڑے علماء کرام میں ہوتا ہے۔

گزشتہ 15 سالوں سے مولانا کلیم صدیقی اپنے خاندان کے ساتھ شاہین باغ دہلی میں مقیم ہیں۔ ان کا بڑا بیٹا احمد صدیقی گاؤں میں ہی دودھ کی ڈیری چلاتا ہے، جبکہ چھوٹا بیٹا اسجد صدیقی مولانا کے ساتھ دہلی میں رہتا ہے۔ مولانا کلیم صدیقی چار بھائیوں میں تیسرے نمبر پر ہیں۔

  • یوپی پولیس کے الزامات

اترپردیش اے ٹی ایس نے الزام عائد کیا ہے کہ مولانا کلیم صدیقی کئی مدارس کو فنڈز دیتے ہیں جس کے لیے بیرون ملک سے انہیں حوالہ کے ذریعے بھاری رقم بھیجی جاتی ہے۔ مولانا کے حوالے سے یو پی اے ٹی ایس نے مزید کہا کہ مظفر نگر کے رہنے والے مولانا کلیم صدیقی دہلی میں رہائش پزیر ہیں اور مختلف تعلیمی، سماجی اور مذہبی اداروں کی آڑ میں غیر قانونی تبدیلی مذہب کا کام کرتے ہیں جس کے لیے بیرونی ممالک سے فنڈنگ ​​حاصل کی جاتی ہے۔

مولانا کو لے کر یہ بات بھی موضوع بحث رہی کہ بالی ووڈ کی سابق اداکارہ ثنا خان کا نکاح بھی مولانا نے پڑھایا تھا۔ غور طلب ہے کہ ثنا خان نے اپنا فلمی کیرئیر چھوڑ کر ایک عالم دین سے شادی کرنے کے بعد اسلامی ثقافت کے مطابق زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا تھا جو کافی بحث کا موضوع رہا ہے۔

  • عمر گوتم کون ہیں، انہیں کیوں گرفتار کیا گیا؟

اتر پردیش کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے اسلامی اسکالر عمر گوتم کو ان کے معاون مفتی جہانگیر کے ساتھ گرفتار کیا اور الزام عائد کیا کہ انہوں نے تقریباً 1000 لوگوں کو زبردستی اسلام قبول کرایا ہے۔ اے ٹی ایس نے عمر گوتم پر جبری تبدیلی مذہب کا بھی الزام لگایا اور کہا کہ ان کے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے تعلقات ہیں۔

تاہم سرکردہ مسلم رہنماؤں، تنظیموں اور عمر گوتم کے اہل خانہ نے ان کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تبدیلی مذہب ایک آئینی حق ہے اور عمر گوتم کے خلاف جبری تبدیلی اور آئی ایس کے ساتھ روابط کے الزامات من گھڑت اور بے بنیاد ہیں۔

  • عمر گوتم کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ؟

عمر گوتم کی زندگی اور ان کے کام بہت سے حقائق سامنے لاتے ہیں جو ان پر لگائے گئے الزامات کے پیچھے کی سچائی کو سمجھنے میں مدد کرتے ہیں۔ عمر گوتم خود ایک نو مسلم ہیں، جنہوں نے نینی تال میں اپنے بی ایس سی کے آخری سال کے دوران اسلام قبول کیا۔

سال 1985 کا واقعہ ہے جب وہ ایک حادثے کا شکار ہو گئے۔ پھر ان کے ایک پڑوسی ناصر خان نے اس مشکل وقت میں عمر گوتم کی مدد کی۔ حادثے کے بعد عمر گوتم کالج، اسپتال اور میس جانے کے قابل نہیں رہے۔ ناصر خان نے انہیں کالج اور ہسپتال جانے میں مدد کی۔ وہ عمر گوتم کے لیے میس سے کھانا بھی لایا کرتے تھے۔ خان کے اس حسن سلوک نے عمر گوتم کو کافی متاثر کیا۔

اس حوالے سے عمر گوتم کہتے ہیں کہ انہوں نے (ناصر خان) ایک سال تک پیار اور دیکھ بھال کے ساتھ میری خدمت کی۔ انہوں نے اسلام کے بارے میں بھی بات کی اور اس پر اٹھائے گئے میرے سوالات کے جوابات دیئے۔ تاہم انہوں نے کبھی کسی بات پر بحث نہیں کی۔ اور نہ ہی انہوں نے مجھے اسلام قبول کرنے کی پیشکش کا اظہار کیا۔ ایک سال کے بعد میں نے خود انہیں بتایا کہ میں مسلمان بننا چاہتا ہوں۔

عمر گوتم شیام پرتاپ سنگھ کے نام سے 1964 میں اتر پردیش کے فتح پور ضلع میں ایک راجپوت خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ ہندوستان کے سابق وزیر اعظم وی پی سنگھ کے بھتیجے ہیں۔ جب وہ 15 سال کے تھے تو انہوں نے بت پرستی کے بارے میں شک کرنا شروع کر دیا کیونکہ ان کے مذہبی صحیفے کئی مقامات پر خود بت پرستی کے خلاف بات کرتے ہیں۔ ہندو مذہب میں مورتی پوجا اور تناسخ کے تصور کے بارے میں کئی سوالات تھے جو انہیں پریشان کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے سوالات کے ساتھ بہت سے ہندو اسکالرز سے رابطہ کیا لیکن ان کی پریشانی اور سوالات کا کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔

پرتاپ گڑھ یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے، انہوں نے تقریباً تمام ہندو مذہبی کتابیں اور ہندو سماجی مصلحین کی سوانح عمری پڑھی۔ لیکن یہ انہیں مطمئن نہ کر سکا۔ ایک بار انہوں نے تو یہاں تک کہ امن کی تلاش میں پہاڑوں میں ایک متولی کی حیثیت سے رہنے کا فیصلہ کیا۔

تاہم 1985 میں وہ ناصر خان کے رویے سے متاثر ہوئے اور اسلام کا مطالعہ شروع کر دیا جس سے ان کے خاندان کے لوگ نفرت کرنے لگے۔ انہوں نے قرآن کا ہندی ترجمہ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی زندگی کا مطالعہ کیا۔ ایک سال بعد انہوں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔

لیکن عمر گوتم کا اسلام قبول کرنا ان کے خاندان کے افراد سمیت بہت سے لوگوں کو اچھی نہیں لگا۔ جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے کالج میں اعلان کیا کہ آج سے میں شیام پرتاپ سنگھ نہیں بلکہ محمد عمر ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے میرے فیصلے کی مخالفت کی۔ مجھ پر حملہ کیا گیا۔ کچھ لوگوں نے مجھے مارنے کی کوشش کی۔ لیکن میں اللہ کے فضل سے ثابت قدم رہا ہوں۔