ہندوستان میں مسلمانوں کے گھروں کو منظم طریقے سے مسمار کرنا صرف شہری منصوبہ بندی یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ ریاست کی جانب سے منظور شدہ تشدد کی ایک شکل ہے جو ملک میں انصاف کے تانے بانے اور انصاف کی روح کو ختم کر رہی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بہانے مسلمانوں کی املاک کو نشانہ بنانے کے خطرناک رجحان نے عدلیہ بالخصوص سپریم کورٹ آف انڈیا کے کردار پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں جو کہ آئین کی محافظ ہے۔
یہ رجحان ستمبر 2017 میں مزید واضح ہوا، جب اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اعلان کیا کہ ان کی حکومت خواتین اور معاشرے کے کمزور طبقات کے خلاف جرائم میں ملوث افراد کی جائیدادوں کو بلڈوز کر دے گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ "میری حکومت خواتین اور معاشرے کے کمزور طبقوں کے خلاف جرائم کو جاری رکھنے کے بارے میں سوچنے والے کسی کے بھی گھروں کو بلڈوز کر دے گی۔” یہ بیان ایک منحوس اشارہ تھا کہ اتر پردیش میں بی جے پی حکومت قانونی عمل کو نظرانداز کرنے اور اسے انصاف کی فراہمی کے لیے ماورائے عدالت اقدامات کا سہارا لینے کے لیے تیار ہے۔ تاہم اس ’’بلڈوزر انصاف‘‘ کے ذریعہ صرف مسلمانوں کو غیر متناسب طور پر نشانہ بنایا گیا اور تا حال بھی بنایا جارہا ہے۔
آئینی حقوق کی اس طرح کی صریح خلاف ورزیوں کے خلاف سپریم کورٹ کی خاموشی انتہائی پریشان کن ہے۔ عدالت کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ ایگزیکٹو پر ایک چیک کے طور پر کام کرے گا اور تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرے گا۔ عدالت بڑے پیمانے پر لاتعلق رہی ہے کیونکہ بلڈوزر نے پورے ملک میں مسلمانوں کے ہی گھروں کو منہدم کر دیا ہے۔ یہ محض عدالتی بے عملی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی غیرانسانی حیثیت کو نظر انداز کرنے کا ایک دانستہ فیصلہ معلوم ہوتا ہے، اس طرح فاشزم کو معمول بنایا جاتا ہے اور انصاف اور مساوات کے اصولوں کو مجروح کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بُلڈوزر کا استعمال غیر قانونی؟
کیا سپریم کورٹ نے بھنڈ کلکٹر کی وہ آڈیو نہیں سنی جس میں کہا گیا تھا کہ اگر کوئی مسلمان جرم کرتا ہے تو اس کا گھر گرا دیا جائے گا، دوسرے مذاہب کے لوگوں کے برعکس؟ ( یعنی اگر کوئی مسلمان جرم کرتا ہے تو اس کا گھر گرادیا جائے گا اگر کسی دوسرے مذہب کے شخص نے کوئی جرم کیا تو اس کے گھر کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا جائے گا )
اس ” بلڈوزر انصاف “ کی سب سے عبرتناک مثال الہ آباد میں پیش آئی جہاں آفرین فاطمہ کی والدہ کا گھر مسمار کر دیا گیا۔ آفرین ایک طالب علم رہنما ہے، شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف مظاہروں کے دوران مودی حکومت کی کھلی تنقید کرتی رہی تھی۔ انہدام سے صرف دو دن قبل، پولیس نے اس کے 57 سالہ والد، محمد جاوید، اس کی والدہ پروین فاطمہ اور نوعمر بہن سومیا کو احتجاج میں شرکت کرنے پر حراست میں لے لیا۔ پولیس کے اس جواز کے باوجود کہ تمام مناسب عمل کی پیروی کی گئی تھی، آفرین کے گھر کو چن چن کر نشانہ بنانا سنگین سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اگر گھر واقعی ایک "غیر قانونی ڈھانچہ” تھا، تو اسے پہلے تعمیر کرنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ اور اگر یہ مناسب منظوری کے بغیر تعمیر کیا گیا تھا، تو کیا حکام اب ایسی تمام عمارتوں کو گرا دیں گے، یا یہ سزا صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص ہے؟
اسی طرح، 17 اگست 2024 کو، راجستھان کے ادے پور میں راشد خان کے گھر کو منہدم کردیا گیا۔ راشد خان کے گھر میں کرائے سے رہنے والے شخص کے 15 سالہ لڑکے نے مبینہ طور پر اسکول میں اپنے ہم جماعت کو چھرا گھونپا تھا۔ ادے پور ضلع انتظامیہ اور راجستھان کے جنگلات کے محکمے کی جانب سے حکم دیا گیا انہدام "بلڈوزر انصاف” کی من مانی نوعیت کی واضح یاد دہانی تھی۔ کرایہ دار کے بیٹے کے مبینہ جرم کی سزا کسی شخص کو کیسے دی جا سکتی ہے؟ اور کیا انہدام سے پہلے کوئی قانونی عمل کیا گیا؟ سپریم کورٹ کو سب سے پہلے ایسے اقدامات کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھانا چاہیے تھا، تاہم سپریم کورٹ اس معاملے میں خاموش رہی۔
مسماری کا سلسلہ سابق صدر اور کانگریس کے سابق ضلع نائب صدر حاجی شہزاد علی کے شاہانہ بنگلے کو مسمار کرنے کے ساتھ جاری رہا ۔ شہزاد گستاخانہ تبصرے کرنے والے ہندو "سَنت” کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے کے لیے ایک میمورنڈم جمع کرانے کے لیے پولیس اسٹیشن گئے تھے۔ اس دوران صورتحال کشیدہ ہوگئی اور یہ تصادم میں تبدیل ہوگیا تھا۔ جس کے نتیجے میں شہزاد کے گھر کو مسمار کر دیا گیا اور بلڈوزر کے ذریعے ان کی گاڑیوں کو تباہ کر دیا گیا۔
سپریم کورٹ ایک بار پھر خاموش تماشائی بنی رہی۔ اگر شہزاد کے گھر کی تعمیر غیر قانونی تھی تو اس واقعے سے پہلے ہی کیوں اس کو منہدم نہیں کیا گیا؟ کیا گاڑیوں کو تباہ کرنے سے پہلے غیر قانونی قرار دیا گیا تھا؟ اور مبینہ مجرموں کو بغیر مقدمہ چلائے کیوں سزا دی گئی؟
- بلڈوزر انصاف کے ذریعہ صرف مخصوص طبقہ کو نشانہ بنانے سے واضح ہوگیا ہے کہ یہ قانون کو برقرار رکھنے کے لئے نہیں ہے بلکہ بلڈوزر انصاف ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے لیے ہے۔ ان معاملات میں عدلیہ کی خاموشی پریشان کن ہے جب پُرتشدد واقعات میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے کمیونٹی کے لوگ ملوث ہوتے ہیں تو اس پر ردعمل بالکل برعکس ہوتا ہے۔ ( تو اس صورت میں بلڈوزر انصاف غائب ہوجاتا ہے۔) مثال کے طور پر 2016 میں جاٹ ریزرویشن ایجی ٹیشن کے دوران 30 لوگ مارے گئے اور 34,000 کروڑ کی مالیت کی املاک کا نقصان ہوا تھا تو ایک بھی گھر نہیں گرایا گیا۔ سلوک میں یہ واضح فرق یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ کیا عدلیہ واقعی انصاف کے لیے پرعزم ہے یا سیاسی دباؤ سے متاثر ہے۔
آئین کے محافظ کی حیثیت سے عدلیہ کے کردار پر سوالیہ نشان لگایا جا رہا ہے۔ کیا سپریم کورٹ اپنے ضمیر کے مطابق کام کر رہا ہے، یا وہ لالچ، ذاتی فائدے، سیاسی اثر و رسوخ یا اکثریت کو خوش کرنے کے لیے جھک رہا ہے؟ ہندو اکثریت میں "بلڈوزر راج،” "بلڈوزر اسٹیٹ،” "بلڈوزر جسٹس،” "بلڈوزر بابا،” اور "بلڈوزر ماما” جیسی اصطلاحات کی مقبولیت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ انصاف کی یہ شکل کس قدر گہرا ہو چکی ہے۔
فرنٹ لائن میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق صرف دو سالوں میں 150,000 سے زیادہ گھر مسمار کیے جا چکے ہیں، اور 738,000 لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، اس تباہی کا خمیازہ مسلمانوں اور پسماندہ گروہوں کو برداشت کرنا پڑا ہے۔
سپریم کورٹ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر فسطائیت غالب رہی تو عدالتیں غیر متعلقہ ہو جائیں گی اور وکلاء بے روزگار ہو جائیں گے۔ فاشسٹ حکومت میں فیصلے سیاسی آقا کرتے ہیں، قانون کی حکمرانی سے نہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کے مکانات مسمار کر کے ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنا صرف ایک مخصوص کمیونٹی پر حملہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہندوستان میں آئین، انصاف اور جمہوریت کی بنیادوں پر حملہ ہے۔ سپریم کورٹ پر آئین کا نگہبان کے طور پر تمام شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا فرض ہے، چاہے وہ کسی بھی مذہب کے ہوں۔ اس طرح کی سنگین ناانصافیوں کے سامنے اس کی خاموشی اس فرض سے غداری ہے۔