نئی دہلی: آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے پیر کو کہا کہ ملک میں مسلمان اچھوت بن گئے ہیں کیونکہ ان کی ملک کے معاملات میں مناسب نمائندگی نہیں ہے۔
مجلس کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے لوک سبھا میں مرکزی بجٹ پر اپنی تقریر کے دوران کہا کہ’’مسلمانوں کی نہ تو کوئی سیاسی نمائندگی ہے اور نہ ہی وہ قوم کی تعمیر کے عمل کا حصہ ہیں۔ وہ ہر طرف سے تکلیف میں ہیں”۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مسلم طلباء کو اقلیتی وظائف سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2007-08 سے مسلمانوں کے لیے اقلیتی وظائف میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔اویسی نے یہ دعوی کرتے ہوئے کہ مسلمان ہندوستان کی 17 کروڑ کی سب سے بڑی اقلیت ہیں، "مرکز کو اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں سے نفرت کرنا بند کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کو ان کے حقوق دیئے جائیں جو انہیں آئین نے دیا ہے۔ اگر ملک کی 17 کروڑ آبادی نفرت کا نشانہ بنتی ہے تو وزیراعظم مودی ‘وکشت بھارت’ کیسے بنا سکتے ہیں؟
اویسی نے مزید کہا کہ سنہ 2019 میں وزیراعظم مودی نے کہا کہ اقلیتوں کو ایک کروڑ سے زیادہ اسکالرشپ دی جائیں گی۔ تاہم ابھی تک صرف 58 لاکھ اسکالرشپ دیے گئے ہیں۔ تقریباً 37 فیصد اقلیتی درخواست دہندگان ہر سال اسکالرشپ سے محروم رہتے ہیں۔ اویسی نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے حکومت سے اسکالرشپ کی مانگ پر مبنی بنانے کی درخواست کی تھی، جو کہ مرکزی حکومت نے نہیں کی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اپنی تقریر میں چار برادریوں کا ذکر کیا، لیکن مسلمانوں کے بارے میں بات نہیں کی۔ انہوں نے سوال کیا کہ’’میں اس حکومت سے جاننا چاہتا ہوں کہ کیا ان 17 کروڑ لوگوں میں نوجوان، کسان، خواتین اور غریب شامل نہیں ہیں؟‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پیارے ملک میں سب سے زیادہ غریب مسلمان ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ مسلم خواتین ملک میں سب سے زیادہ ناخواندہ ہیں۔
یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ حج کے لیے بجٹ میں صرف 97 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، اویسی نے کہا کہ ”حج کمیٹی بدعنوانی کا مرکز بن چکی ہے۔ سعودی میں عمارت کے انتخاب کے لیے عازمین کو پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ انہیں منیٰ اور مزدلفہ میں کمپنی منتخب کرنے کے لیے بھی رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ حکومت کو اس گھوٹالے کی سی بی آئی انکوائری شروع کرنی چاہیے۔