یوپی میں مدارس کا سروے مکمل ہونے کی خبریں کئی دن پہلے آچکی ہیں، رپورٹس میں سات ہزار سے زائد مدارس کو ’غیر مانیتا پراپت‘ یعنی سرکار کے یہاں غیر منظور شدہ بتایا گیا ہے۔ یہ ایسے مدارس ہیں ، جو عوامی امداد اور چندوں سے چلتے ہیں، جن کا اپنا تعلیمی و اقامتی یا غیر اقامتی نظام ہے، جو سرکار سے کسی طرح کی کوئی مدد نہیں لیتے۔ ظاہر ہے کہ جن جن ریاستوں میں سرکار کے زیر نگرانی مدرسہ بورڈ موجود ہے، وہاں کچھ مدرسے بورڈ سے ملحق اور بہت سے غیر ملحق ہیں اور انھیں بھرپور دستوری و آئینی جواز و استناد حاصل ہے، انھیں ان معنوں میں ’غیر قانونی‘ہرگز نہیں کہا جاسکتا، جن کی وجہ سے وہ مدارس اور ان کے ذمے دار قابل گردن زدنی قرار پائیں ۔
نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک کا میڈیا، خصوصاً ہندی میڈیا پوری طرح تعصب کے زہر میں بجھا ہوا ہے اور وہ سیدھی سمپل خبر کو بھی مسلمانوں کے تئیں نفرت کو ہوا دینے کے لیے استعمال کرنے سے نہیں چوکتا، ’ہندوستان‘، ’دینک جاگرن‘ جیسے قومی ہندی اخبار تو سڑے ہوئے ہیں ہی، مگر ’دینک بھاسکر‘ اور ’امر اجالا‘ ، جو ایک حد تک انصاف پسند سمجھے جاتے تھے، وہ بھی پوری طرح بھگوا رنگ میں رنگ چکے ہیں اور ان دنوں مؤخرالذکر دونوں اخباروں میں مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے کے مقصد سے نہایت سطحی ، بودی اور زہریلی خبریں ، رپورٹیں شائع کی جارہی ہیں، اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر آج ’دینک بھاسکر‘ میں مدارس کے سروے کے تعلق سے امیت گپتا نامی شخص کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے، جس میں خصوصاً دارالعلوم دیوبند کو مرکزِ توجہ بنایا گیا ہے اور اس کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ وغیرہ کی مختصر نشان دہی کے ساتھ ساتھ قارئین کو مغالطے میں ڈالنے؛ بلکہ قابل قدر قومی کردار کے حامل اس عظیم ادارے سے بدظن کرنے کے لیے عمومی تاثر یہ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ گویا اتنا قدیم ادارہ بھی غیر قانونی طریقے سے چل رہا ہے،یہ صحافت نہیں، سراسر کمینہ پن ہے اور چار حرف بھیجے جانے لائق ہے؛ ایسا ہو نہیں سکتا کہ اتنے بڑے اخبار کے رپورٹر کو بورڈ سے ملحق اور غیر ملحق مدارس اور خصوصاً دارالعلوم دیوبند کے دستوری جواز کا علم نہ ہو، مگر اصل مقصد تو ان کا سنگھ اور بی جے پی کی نفرت انگیزی کی مہم کو کمک پہنچانا ہے، سو سبھی اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، حالاں کہ یوگی سرکار خود مدارس کے سروے پر کئی بار کہہ چکی ہے کہ اس سروے کا مقصد مدارس کا محض ڈیٹا جمع کرنا ہے کہ کتنے سرکار سے منظور شدہ ہیں اور کتنے آزادانہ طورپر چل رہے ہیں، مگر نیشنل میڈیا مہینوں سے اس معاملے کو اس طرح پیش کر رہا ہے گویا مدارس غیر قانونی سرگرمیوں کی آماجگاہ ہیں اور وہاں ملک کے لیے خطرناک سرگرمیاں انجام دی جا رہی ہیں۔
یہ فی الواقع ہندوستانی صحافت کی موت کا زمانہ ہے، بڑے بڑے اور کہنہ مشق صحافی اپنے ضمیر و ذہن کا سودا کرچکے ہیں اور ان کا واحد مطمحِ نظر مسلمانوں کو بدنام کرنا، ان کے تئیں راے عامہ کو گمراہ کرنا رہ گیا ہے ۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب نے بہت اچھا کیا کہ بروقت وضاحت جاری کردی اور بتایا کہ ’غیر منظور شدہ‘ ہونے کا مطلب کیا ہے اور دارالعلوم دیوبند سمیت دوسرے بڑے دینی تعلیمی ادارے کسی نہ کسی ٹرسٹ، سوسائٹی کے تحت عرصۂ دراز سے رجسٹرڈ ہیں اور قوم و ملک کی تعمیر و ترقی میں بغیر کسی سرکاری امداد کے اپنا غیر معمولی کرداد ادا کر رہے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ بدبودار ہندی میڈیا اس وضاحت کو اس جوش و خروش سے شائع نہیں کرے گا ، جس کا مظاہرہ وہ نفرت انگیز خبروں کی اشاعت میں کرتا ہے؛ اس لیے ہمیں خود اس ذمے داری کو ادا کرنا چاہیے اور بھاسکر کی بکواس کو عام کرنے اور لوگوں میں کنفیوژن پھیلانے کا سبب بننے کی بجاے مفتی صاحب کے بیان کو مختلف زبانوں میں عام کرنا چاہیے۔
یہ ہندوستانی مسلمانوں کا بہت بڑا المیہ ہے کہ اس وقت ان کا مقابلہ تمام تر ہتھیاروں سے لیس اور ہمہ وقت آمادۂ پیکار فرقہ پرست طاقتوں سے تو ہے ہی ، مگر کئی معنوں میں اس سے بھی شدید مقابلہ ان کا جمہوریت کا چوتھا ستون کہے جانے والے قومی میڈیا سے ہے، جو اپنے تمام تر دجالی کیل کانٹے سے لیس ہوکر ٹی وی چینلوں، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور سیکڑوں مطبوعہ اخبارات کے ذریعے ہر لمحہ انھیں زیر کرنے، نیچا دکھانے اور نگوں سار کرنے کے درپے ہے۔ ہم ان کا اجتماعی مقابلہ تو اِس وقت کرنے کی پوزیشن میں ہیں نہیں، کہ من حیث المجموع ہماری صفیں شگاف در شگاف در شگاف کے لاعلاج مرض سے دوچار ہیں؛ لہذا اگر باشعور لوگوں کو وقت کی سفاکی کا احساس ہے تو کم سے کم انفرادی طور پر ہی وہ کچھ کرنے کی کوشش کریں، جو ہمارے بس میں ہے۔