خطبہ حجۃ الوداع دنیا بھر کے خطبوں میں الگ شان رکھتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے اس ایک خطبے میں اسلام کا پورا منشور بیان کردیا ہے۔ یہ خطبہ عرفات کے میدان میں اس وقت دیا گیا جب ایک لاکھ سے زائد جانثار صحابہؓ آپ ﷺ کے روبرو موجود تھے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! میں جو کچھ کہوں اسے غور سے سنو، شاید آئندہ سال اور اس کے بعد پھر کبھی یہاں تم سے ملاقات نہ ہو سکے۔ چونکہ اس حج کے بعد رسول کریم ﷺ امت سے پردہ فرماگئے۔ اس لئے اسے حجۃ الوداع اور اس میں دیئے گئے خطبہ کو خطبہ حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔ خطبہ حجۃ الوداع میں رسول کریم ﷺ نے انسانیت کی عظمت، احترام اور حقوق پر مبنی ابدی تعلیمات اور اصول عطا کئے۔ انسانی حقوق کے تحفظ اور عملی نفاذ کے حوالے سے خطبہ فتح مکہ اور خطبہ حجۃ الوداع کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ خطبہ حجۃ الوداع کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
- (1) مساواتِ اِنسانی کا تصور (Equality of humanity)
اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّ اللہِ یَقُوْلُ: یٰـٓاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰـکُمْ. فَلَیْسَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَجَمِیٍّ فَضْلٌ، وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ، وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی اَبْیَضَ، وَلَا لِاَبْیَضَ عَلٰی اَسْوَدَ فَضْلٌ اِلَّا بِالتَّقْوٰی۔
’’لوگو! اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے انسانو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں جماعتوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا کہ تم الگ الگ پہچانے جاسکو، تم میں زیادہ عزت و کرامت والا خدا کی نظروں میں وہی ہے جو خدا سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔‘‘ چنانچہ اس آیت کی روشنی میں نہ کسی عرب کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو کسی عرب پر، نہ کالا گورے سے افضل ہے نہ گورا کالے سے۔ ہاں! بزرگی اور فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ تقویٰ ہے۔‘‘
اسلام کے اسی سنہرے اصول کی وجہ سے حبشی بلالؓ کو سیدنا بلالؓ کہہ کر پکارا گیا اور عطاء بن ابی رباحؒ جیسے سادہ شکل والے کے سامنے امیرالمومنین سلیمان بن عبدالملک بھی زانوئے تلمذ تہہ کرنا فخر سمجھتے تھے۔ ایک عجمی النسل محمد بن اسماعیل بخاریؒ کو امیر المومنین فی الحدیث کہا گیا اور ایک فارسی النسل امام غزالیؒ کے فلسفے کی دھوم چہار دانگ عالم میں ہے اور ایک غیر عرب نعمان بن ثابتؒ امام اعظمؒ کہلاتا ہے، جبکہ ایک عربی النسل ہاشمی خانوادے کے فرزند ابولہب، اپنے زمانے کے ابوالحکم، عمرو بن ہشام (ابوجہل) کو انہی کی کیٹگری کے لوگ بھی اچھے الفاظ میں یاد کرنا گناہ سمجھتے ہیں۔
اَلنَّاسُ مِنْ اٰدَمَ وَ اٰدَمُ مِنْ تُرَابٍ، اَلاَ کُلُّ مِأْثَرَۃٍ اَوْ دَمٍ اَوْ مَالٍ یُدَّعٰی بِہٖ فَهُوَ تَحْتَ قَدَمَیَّ هَاتَیْنِ اِلَّا سَدَانَۃُ الْبَیْتِ وَ سَقَایَۃُ الْحَاجِّ
’’انسان سارے آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گئے۔ اب فضیلت و برتری کے سارے دعوے، خون و مال کے سارے مطالبے اور سارے اِنتقام میرے پاؤں تلے روندے جاچکے ہیں۔ بس بیت اللہ کی تولّیت اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمات علیٰ حالہٖ باقی رہیں گی۔‘‘
دورِ حاضر میں روشن خیالی کا بڑا چرچا ہے۔ مسلمانوں کو رجعت پسند اور بنیاد پرست ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے، لیکن رسول کریم ﷺ نے روشن خیالی کا درس آج سے چودہ سو سال قبل دیا تھا، اس کے مطابق دورِ حاضر کی روشن خیالی، جہالت کا دوسرا نام ہے، مثلاً آج کی روشن خیالی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس کی عمر تقریباً سوا دو سو سال ہے۔ اس کی ابتدا انقلابِ فرانس سے ہوئی جب یورپ نے اپنی تمام فرسودہ باتوں سے جان چُھڑا لی اور اپنی روایات، اپنی تہذیب، اپنے طور طریق حتیٰ کہ اپنے مذہب تک سے پیچھا چھڑا لیا، انسانی خواہشات کو اپنا حکمران بنا لیا اور پھر ان کے نزدیک مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ٹھہرا۔
قتل عام کو دہشت پسندی کے خلاف جنگ کا نام دے کر امن کے پرخچے اُڑادئے گئے۔ گھر کی ملکہ عورت کو پاکیزگی کی دہلیز سے کھینچ کر کلبوں کے میدان میں کھڑا کر دیا گیا اور اسے حقوقِ نسواں کا حسین عنوان دیا گیا، نیز اسے پیسہ کمانے کی مشین بنا دیا۔ عریانی و فحاشی کا نام کلچر رکھ دیا گیا۔ سود کو منافع اور پرافٹ کا نام دے کر بینکوں کا کاروبار بڑھایا گیا، نیز سرمایہ دارانہ نظام کو ورلڈ آرڈر کا نام دے کر دنیا پر ٹھونسنے کی کوشش کی گئی۔ انسانی اخلاق کی قدر و قیمت گِرا دی گئی اور ہر مسئلے کا حل روپیہ کمانا ٹھہرا۔ خیانت اور دھوکے بازی کو سیاست کی پیکنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ یہ تھا مغرب کی روشن خیالی کا تصور، جبکہ رسول کریم ﷺ نے چودہ سو سال پہلے ان تمام اقدار کو اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے فرمایا: ’’میں نے جاہلیت کی تمام روایات اپنے قدموں تلے روند دی ہیں۔‘‘ اس ایک جملے میں آپ نے شرک، زنا، جوا، سود، بے حیائی، قتل، حق تلفی، تمام جاہلی معاملات کو یکسر ختم فرما دیا۔
- (2) حقوق کی ادائیگی
ثُمَّ قَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! لَا تَجِیْؤُا بِالدُّنْیَا تَحْمِلُوْنَهَا عَلٰی رِقَابِکُمْ، وَ یَجِئُ النَّاسُ بِالْاٰخِرَۃِ، فَلَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللہ ِشَیْئًا۔ ’’پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قریش کے لوگو! ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تم اس طرح آؤ کے تمہاری گردنوں پر تو دنیا کا بوجھ لدا ہو اور دوسرے لوگ سامانِ آخرت لے کر پہنچیں اور اگر ایسا ہوا تو میں خدا کے سامنے تمہارا کچھ ساتھ نہ دوں گا۔‘‘ - (3) نسلی تفاخر کا خاتمہ (Eradication of ethnicism)
مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! اِنَّ اللہَ قَدْ اَذْهَبَ عَنْکُمْ نَخْوَةَ الْجَاهِلِیَّۃِ، وَ تَعَظُّمَهَا بِالْاٰبَاءِ۔ ’’قریش کے لوگو! خدا نے تمہاری جھوٹی نخوت کو ختم کر ڈالا اور باپ دادا کے کارناموں پر تمہارے فخر و مباہات کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘
نسلی و قومی امتیاز کے تصورات دنیا کی ہر قوم میں پائے جاتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی قوم، اپنے رنگ، اپنی نسل اور اپنے نظریے کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے۔ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ برتری صرف اس کے ہاں پائی جاتی ہے اور باقی سب کمتر ہیں۔ یہی تفاخر اور غرور آگے چل کر نفرتوں، چپقلشوں، مقابلوں اور جنگوں کی صورت اختیار کر جاتا ہے جن کے نتیجے میں دنیا کا امن برباد ہوتا ہے۔
قرآن و حدیث کی ان تصریحات سے یہ تو واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام کسی ذات پات، رنگ، نسل اور قومیت کو فضیلت کی بنیاد نہیں مانتا بلکہ صرف اور صرف تقوی اور پرہیز گاری کو ہی فضیلت کا معیار قرار دیتا ہے۔ ظاہر ہے کوئی اپنی نیکیوں کی بنیاد پر دوسروں کو حقیر تو سمجھ نہیں سکتا اور نہ ہی اسے کمتر قرار دے سکتا ہے ورنہ اس کا اپنا تقوی خطرے میں پڑ جائے گا۔ دنیا کی دوسری اقوام اگر اپنے قومی و نسلی غرور میں مبتلا ہوتی ہیں تو یہ ان کے باطل نظریات کا قصور ہے لیکن حیرت ان مسلمانوں پر ہے جو قرآن کی ان آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور پھر بھی اس تکبر میں مبتلا ہیں۔ اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں قومی و نسلی تفاخر کے اثرات دوسری اقوام سے آئے۔ اس میں ان کے اپنے دین کا ہرگز ہرگز کوئی قصور نہیں ہے۔
- (4) زندگی کا حق (Right of life)
اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّ دِمَائَکُمْ وَ اَمْوَالَکُمْ وَ اَعْرَاضَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ، اِلٰی اَنْ تَلْقَوْا رَبَّکُمْ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ هٰذَا، وَ کَحُرْمَۃِ شَهْرِکُمْ هٰذَا، فِیْ بَلَدِکُمْ هٰذَا، وَ اِنَّکُمْ سَتَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ، فَیَسْئَلُکُمْ عَنْ اَعْمَالِکُمْ۔ ’’لوگو! تمہارے خون و مال اور عزتیں ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے پر قطعاً حرام کر دی گئی ہیں۔ ان چیزوں کی اہمیت ایسی ہی ہے جیسی اس دن کی اور اس ماہ مبارک (ذی الحجہ) کی خاص کر اس شہر میں ہے۔ تم سب خدا کے حضور جاؤ گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی بازپرس فرمائے گا۔‘‘
اَلاَ! فَـلَا تَرْجِعُوْا بَعْدِیْ ضُلَّا لًا یَّضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ۔ ’’دیکھو کہیں میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ آپس میں ہی کشت و خون کرنے لگو۔‘‘
- (5) مال کے تحفظ کا حق (Right of property)
فَمَنْ کَانَتْ عِنْدَهٗ اَمَانَۃٌ فَلْیُؤَدِّهَا اِلٰی مَنِ ائْتَمَنَهٗ عَلَیْهَا۔ ’اگر کسی کے پاس امانت رکھوائی جائے تو وہ اس بات کا پابند ہے کہ امانت رکھوانے والے کو امانت پہنچا دے۔‘‘ نیز فرمایا: ’’اے لوگو! میری بات گوشِ ہوش سے سنو! دیکھو! ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور اس رشتہ کی وجہ سے کسی مسلمان کا دوسرے مسلمان بھائی کی کسی شے پر اس کی اجازت کے بغیر تصرف روا نہیں ہے، ورنہ یہ ایک دوسرے پر ظلم ہو جائے گا۔‘‘
جو لوگ امانت داری کے وصف سے آراستہ ہوتے ہیں اور دوسروں کے حقوق کی حفاظت اور ان کی بر وقت ادائیگی کرتے ہیں وہ لوگوں میں پسندیدہ اور قابلِ تعریف ہوتے ہیں۔ امانت داری ایمان والوں کی بہترین صفت ہے اور ایک مسلمان کا امانت دار ہونا بہت ضروری ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جو امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں۔ یعنی ایمان کامل نہیں۔ (مسند احمد، ۴/۲۷۱۔ حدیث: ۱۲۳۸۶) آج کل ہم سمجھتے ہیں کہ امانت داری کا تعلق صرف مال سے ہے اور اگر کسی نے ہمارے پاس کوئی مال رکھوایا تو اس کی حفاظت کرنا اور اسے وقت پر مکمل طور پر واپس کر دینا ہی امانت داری ہے۔ یہ بات دُرست ہے لیکن جس طرح یہ امانت ہے اسی طرح اور بھی بہت ساری چیزیں امانت میں داخل ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے وہ حقوق جو ہمارے ذمے ہوں اور ان کی حفاظت و ادائیگی ہم پر لازم ہو انہیں امانت کہتے ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح، ۳/۲۳۶)
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی بھی امانت داری ہے چنانچہ نماز پڑھنا، رمضان کے روزے رکھنا، زکوٰة دینا، حج کرنا، سچ بولنا اور دیگر نیک اعمال ادا کرنا بھی امانت ہے۔ اسی طرح انسان کے اعضاء مثلاً زبان، آنکھ، کان، ہاتھ وغیرہ بھی اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں اور ان اعضاء کو گناہوں اور فضولیات سے بچانا ان اعضاء کے معاملے میں امانتداری ہے۔ یوں ہی دوسرے کے راز کی حفاظت کرنا، پوچھنے پر دُرست مشورہ دینا، مسلمان کے عیب کی پردہ پوشی کرنا، مزدور اور ملازم کا اپنا کام مکمل طور پر پورا کرنا بھی امانت داری میں داخل ہے۔
- (6) اَفرادِ معاشرہ کا حق (Right of society members)
اَیُّهَا النَّاسُ! کُلُّ مُّسْلِمٍ اَخُوا الْمُسْلِمِ، وَ اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ اِخْوَۃٌ0 ’’لوگو! ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘
قارئین کرام! قرآن کریم نے ایمان والوں کو بھائی سے تعبیر فرمایا: ’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ۔ ’’مسلمان آپس میں ایک دُوسرے کے بھائی ہیں۔‘‘ (سورۃ الحجرات۔ آیت: ۱۰)
رسول کریم ﷺ نے اخوتِ اسلامیہ اور اُس کے حقوق کے بارے میں ارشاد فرمایا: الْمُسْلِمُ أَخُوْ الْمُسلِمِ، لَا یَظْلِمُہٗ وَلَا یَخْذُلُہٗ، وَلَا یَحْقِرُہٗ۔ اَلتَّقْوٰی ھَاہُنَا وَیُشِیْرُ إِلٰی صَدْرِہِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ یَّحْقِرَ أَخَاہُ الْمُسلِمَ، کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُہٗ، وَمَالُہٗ، وَعِرْضُہٗ
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اُس پر خود ظلم کرتا ہے اور نہ اُسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اُسے حقیر جانتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے قلب مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار یہ الفاظ فرمائے: تقویٰ کی جگہ یہ ہے۔ (صحیح مسلم، ج: ۲، ص: ۳۱۷، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ واحتقارہ) کسی شخص کے بُرا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔ ہر مسلمان پر دُوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔‘‘ گویا کہ اُخوت و محبت کی بنیاد ایمان اور اسلام ہے، یعنی سب کا ایک ہی رب، ایک ہی رسول، ایک کتاب، ایک قبلہ اور ایک دین ہے جو کہ دینِ اسلام ہے۔
- (7) خادموں کا حق (Right of workers & servants)
اَرِقَّآئَکُمْ اَرِقَّائَکُمْ، اَطْعِمُوْهُمْ مِمَّا تَاْکُلُوْنَ، وَاکْسُوْهُمْ مِمَّا تَلْبَسُوْنَ ’’اپنے غلاموں کا خیال رکھو، انہیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو، ایسا ہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو۔‘‘ انسان كى معاشرتى زندگى ميں بهى اسلام نے ايك عظيم انقلاب پيدا كيا، رنگ و نسل كے امتيازات ريت كے گھروندے كى طرح گِرا دئیے گئے، اصول مساوات كے تحت سفيد و سياه، حاكم و محكوم، عربى و عجمى سب ايك ہى صف ميں كھڑے كردئیے گئے، صرف مسجد ميں ہى نہيں بلكہ ہر جگہ اور مقام پر مسلمان ايك دوسرے سے يكساں سطح اور مرتبہ پر ملتے ہيں، يہ اس لئے اسلام كى نگاه ميں مادى شے مثلاً دولت و منصب، نسلى و لسانى امتيازات، خاندانى وجاہت اور برترى كا باعث نہيں ہيں، صرف كردار اخلاق سے مراتب و درجات كا تعين ہوتا ہے۔ارشاد ربانى ہے: إن أكرمكم عند الله اتقاكم- "اللہ كى نگاه ميں سے سب سے اچھا وه ہے جو زياده پرہيزگار ہے”۔ (سورۃ الحجرات: آیت: ۱۳) اس طرح اسلام نے انسانى درجہ بندى كا معيار ہى بدل ڈال جس سے حسب و نسب اور دولت، انسان كے مرتبہ كى كسوٹى نہيں رہى بلكہ معاشره ميں انسان كا مقام اس كے كردار سے متعين ہونے لگا۔
ملازم يا خادم معاشرے كے ديگر افراد كى طرح بھى اس شخص پر حقوق ہيں جس كے تحت وه فرائض انجام ديتا ہے، ان حقوق كو چار حصوں ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے: (خوش گفتارى، حسن سلوک، كام ميں معاونت، اور تحفظ ملازمت)۔ خادم كو اپنے اصلى نام سے پكارنا چاہئے۔ پيار سے اسے كوئى اور نام سے پكارنا مقصود ہو تو وه نام بھى اچھا ہونا چاہئے، اس كا نام بگاڑ كر لينا يا اسے بد تہذيب لقب دينا مذموم فعل ہے، قرآن كريم ميں اس كى مذمت آئى ہے: ولا تلمزوا انفسكم ولا تنابزوا بالألقاب- آپس ميں ايك دوسرے پر طعن نہ كرو اور نہ ايك دوسرے كو برے القاب سے ياد كرو”۔ (سورۃ الحجرات۔ آیت: ۱۱) خادم كا مذاق بھى نہيں اڑانا چاہئے، اكثر لوگ باتوں باتوں میں ايسا كرتے رہتے ہيں۔ ارشاد ربانى ہے: ياأيها الذين آمنوا لايسخر قوم من قوم عسى أن يكونوا خيراً منهم۔ "اے لوگو! جو ايمان لائے ہو ايک دوسرے كا مذاق نہ اڑائيں ہو سكتا ہے كہ وه (اللہ كى نگاه ميں) ان سے بہتر ہوں”۔ (سورۃ الحجرات۔ آیت:۱۱) ملازم و خادم كو اس كى ذات پات كا طعنہ نہيں دينا چاہیے اور نہ اس كى كوئى عيب چينى كرنى چاہيے، قرآن مجيد ميں اس باره ميں سخت حكم ہے: ويل لكل همزة اللمزة۔ "بڑى تباہى ہے اس كے لئے جو طعن زنى اور عيب چينى كرتا ہے”۔ سورۃ الهمزه۔ آیت: ۱) انسان كو چاہئے كہ معاشرتى امور ميں اپنى ذات اور خادم كے مابين عدل و مساوات كا رويہ اختيار كرے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمايا: "جب تم ميں سے كسى كا خادم كھانا تيار كرے اور لے كر تمہارے پاس آئے اور كھانا تيار كرنے ميں اس نے گرمى اور دھوپ برداشت كى ہو تو چاہئے كہ اسے ساتھ بٹھا كر كھلاؤ، اگر كھانا تھوڑا ہو تو ايک دو لقمے ہى اسے دے دو۔ رسول کریم ﷺ چاہتے ہیں كہ صرف كھانے پينے ہى ميں نہيں، بلكہ يہ مساوات ملنے جلنے اور آدابِ معاشرت ميں بھى رہے۔
- (8) لاقانونیت کا خاتمہ (No to lawlessness)
اَلاَ! کُلُّ شَیْئٍ مِنْ اَمْرِ الْجَاهِلِیَّۃِ تَحْتَ قَدَمَیَّ مَوْضُوْعٌ، وَ دِمَاءَ الْجَاهِلِیَّۃِ مَوْضُوْعَۃٌ، وَ اِنَّ اَوَّلَ دَمٍ اَضَعُ مِنْ دِمَآئِنَا دَمُ ابْنِ الرَّبِیْعَۃِ بْنِ الْحَارِثِ، وَ کَانَ مُسْتَرْضَعًا فِیْ بَنِیْ سَعْدٍ، فَقَتَلَهٗ هُذَیْلٌ۔
دور جاہلیت کا سب کچھ میں نے اپنے پیروں تلے روند دیا۔ زمانہ جاہلیت کے خون کے سارے انتقام اب کالعدم ہیں۔ پہلا انتقام جسے میں کالعدم قرار دیتا ہوں، میرے اپنے خاندان کا ہے۔ ربیعہ بن حارث کے دودھ پیتے بیٹے کا خون جسے بنو ہذیل نے مار ڈالا تھا، اب میں معاف کرتا ہوں۔‘‘
مسلمانوں کے ہاں روشن خیالی اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے اپنی خواہشات کو دبا دینے کا نام ہے، جبکہ اہلِ مغرب کے نزدیک معاشرے میں جنم لینے والے منتشر خیالات روشن خیالی ہیں، چنانچہ وہ ایسی اشیاء کو قانون کا حصہ بنا لیتے ہیں، اگرچہ اخلاقی اعتبار سے کتنی ہی گری ہوئی ہوں، جیسے ہم جنس پرستی کے جواز کا قانون وغیرہ۔ دوسری چیز جسے اہلِ مغرب اپنے لئے فخر کی چیز سمجھتے ہیں وہ ہے دہشت گردی کے خلاف قتلِ عام، جبکہ رسول کریم ﷺ نے اس کے بارے میں بھی لائحہ عمل تجویز فرمادیا۔ فرمایا: ’’اے لوگو! تم پر ایک دوسرے کی جان و مال تا قیامت حرام ہیں، جس طرح آج کے دن اور اس مہینہ ذوالحجہ میں ایک دوسرے کی بے حرمتی نہیں کرتے۔‘‘ آپ ﷺ نے دوسرے مذاہب کے افراد، خواتین، بچے، بوڑھے حتیٰ کہ زمینوں اور فصلوں تک کے حقوق متعین فرمادئیے اور انہیں بلا ضرورت کاٹنے اور جلانے سے منع فرما دیا۔ فتح مکہ کے عظیم موقع پر اپنے جانی دشمنوں کو ’’لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ‘‘ (آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا) کی خوش خبریوں سے نواز دیا، حتیٰ کہ اپنے دشمن اُمیہ بن خلف کے بیٹے ربیعہ کو اسی خطبۂ حجۃ الوداع کا مُکبّر بنادیا، چنانچہ آپ ﷺ کا یہ خطبہ بلند آواز سے لوگوں تک ربیعہؓ نے ہی پہنچایا۔ جبکہ تصویر کے دوسرے رخ کا جائزہ لیں تو دنیا کے بڑے بڑے انقلابات میں کروڑوں انسان ’’امن‘‘ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ انقلابِ فرانس میں لاکھوں انسان قتل ہوئے، پہلی جنگ عظیم میں کم از کم ایک کروڑ انسان قتل ہوئے، لیکن رسول کریم ﷺ کے انقلاب میں طرفین کے صرف ایک ہزار اٹھارہ (۱۰۱۸) آدمی موت کی نیند سوئے۔ پھر یہ انقلاب ایسا پُر اثر تھا کہ اس کی گونج آج بھی پوری قوت سے اطرافِ عالم میں سنائی دے رہی ہے۔
- (9) معاشی اِستحصال سے تحفظ کا حق (Economic rights)
وَ رِبَا الْجَاهِلِیَّۃِ مَوْضُوْعٌ، وَ اَوَّلُ رِبًا اَضَعُ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطْلِبِ، فَاِنَّهٗ مَوْضُوْعٌ کُلَّهٗ۔
’’اب دور جاہلیت کا سود کوئی حیثیت نہیں رکھتا، پہلا سود جسے میں چھوڑتا ہوں، عباس بن عبدالمطلب کے خاندان کا سود ہے، اب یہ ختم ہوگیا۔‘‘ سود جس کے خاتمے کا آپ ﷺ نے حکم دیا فرمایا: ’’آج سے ہر قسم کا سود ختم کیا جاتا ہے راس المال کے سوا نہ تم ایک دوسرے پر ظلم کرو، نہ قیامت کے دن تمہارے ساتھ ظلم کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ نے سود کو ممنوع فرما دیا ہے۔ (میرے چچا حضرت عباسؓ) کا جو سود دوسروں کے ذمہ واجب الادا ہے، اسے موقوف کیا جاتا ہے۔‘‘ انگریزی کے مشہور مقولے’’ Charity begins at the home ‘‘ کے تحت سود کے خاتمے کی ابتدا اپنے گھر سے کی اور پھر اسلام میں سود کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔
- (10) وراثت کا حق (Right of inheritance)
ایُّهَا النَّاسُ! اِنَّ اللہَ قَدْ اَعْطٰی کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّهٗ، فَـلَا وَصِیَّةَ لِوَارِثٍ ’’لوگو! خدا نے ہر حق دار کو اس کا حق خود دے دیا، اب کوئی کسی وارث کے حق کے لئے وصیت نہ کرے۔‘‘
- (11) نو مولود کے تحفظِ نسب کا حق (Newborn’s right of anscestral sanctity)
اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَ لِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ، وَ حِسَابُهُمْ عَلَی اللہِ ’’بچہ اس کی طرف منسوب کیا جائے گا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا، جس پر حرام کاری ثابت ہو اس کی سزا پتھر ہے، اور ان کا حساب و کتاب خدا کے ہاں ہوگا۔‘‘
- (12) معاشرتی شناخت کا حق (Right of social identity)
مَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ اَبِیْهِ، اَوْ تَوَلّٰی إِلٰی غَیْرِ مَوَالِیْهِ فَعَلَیْهِ لَعْنَۃُ اللہِ. ’’جو کوئی اپنا نسب بدلے گا یا کوئی غلام اپنے آقا کے مقابلے میں کسی اور کو اپنا آقا ظاہر کرے گا تو اس پر خدا کی لعنت ہوگی۔‘‘
- (13) قرض کی وصولی کا حق (Right to recieve the debts)
اَلدَّیْنُ مَقْضِیٌّ، وَالْعَارِیَۃُ مُرْدَأْۃٌ، وَالْمِنْحَۃُ مَرْدُوْدَۃٌ، وَ الزَّعِیْمُ غَارِمٌ0 ’’قرض قابلِ ادائیگی ہے، عاریتاً لی ہوئی چیز واپس کرنی چاہئے، تحفے کا بدلہ دینا چاہئے اور جو کوئی کسی کا ضامن بنے، وہ تاوان ادا کرے۔‘‘
- (14) ملکیت کا حق (Right of ownership)
وَلَا یَحِلُّ لِامْرِئٍ مِنْ اَخَیْهِ اِلَّا مَا اَعْطَاهُ عَنْ طِیْبِ نَفْسٍ مِنْهُ، فَلَا تَظْلِمُنَّ اَنْفُسَکُمْ0 ’’کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے کچھ لے، سوائے اس کے جس پر اس کا بھائی راضی ہو اور خو شی خوشی دے۔ خود پر اور ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرو۔‘‘
- (15) خاوند اور بیوی کے باہمی حقوق (Rights of husbands & wives)
اَلاَ! لَا یَحِلُّ لِامْرَأَۃٍ اَنْ تُعْطِیَ مِنْ مَالِ زَوْجِهَا شَیْئًا اِلَّا بِاِذْنِہٖ. اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّ لَکُمْ عَلٰی نِسَآئِکُمْ حَقًّا، وَ لَهُنَّ عَلَیْکُمْ حَقًّا، لَکُمْ عَلَیْهِنَّ اَلَّا یُوْطِئْنَ فَرْشَکُمْ اَحَدًا تَکْرَهُوْنَهٗ، وَ عَلَیْهِنَّ اَنْ لَّا یَاتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ، فَاِنْ فَعَلْنَ فَاِنَّ اللہَ قَدْ اَذِنَ لَکُمْ اَنْ تَهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اَنْ تَضْرِبُوْا ضَرْبًا غَیْرَ مُبْرَحٍ، فَاِنِ انْتَهَیْنَ فَلَهُنَّ رِزْقُهُنَّ وَکِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْروْفِ0
’’عورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اس کی اِجازت کے بغیر کسی کو دے۔ دیکھو! تمہارے اوپر تمہاری عورتوں کے کچھ حقوق ہیں۔ اسی طرح ان پر تمہارے حقوق واجب ہیں۔ عورتوں پر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ اپنے پاس کسی ایسے شخص کو نہ بلائیں جسے تم پسند نہیں کرتے اور وہ کوئی خیانت نہ کریں، کوئی کام کھلی بے حیائی کا نہ کریں اور اگر وہ ایسا کریں تو خدا کی جانب سے اجازت ہے کہ تم انہیں معمولی جسمانی سزا دو اور وہ باز آجائیں تو انہیں اچھی طرح کھلاؤ پہناؤ۔” میاں بیوی کا رشتہ قاعدوں اور ضابطوں کے بجائے حسن اخلاق سے نبھایا جائے تو یہ رشتہ کامیاب رہتا ہے، ضابطہ کی رُو سے جہاں بہت ساری ذمہ داریاں بیوی پر عائد نہیں ہوتیں وہیں شوہر بھی بہت سے معاملات میں بری الذمہ ہوجاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف حسن معاشرت کا تقاضا اور بیوی کی سعادت و نیک بختی اس میں ہے کہ وہ شوہر اور اس کے والدین کی خدمت بجالائے نیز اگر کبھی شوہر کسی خدمت کا حکم دے تو اس صورت میں بیوی پر اس کی تعمیل واجب ہوجاتی ہے۔
شوہر کی خدمت، تابعداری اور اطاعت کے سلسلہ میں رسول کریم ﷺکے بے شمار ارشادات موجود ہیں۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے: حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ: رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرمیں کسی کو یہ حکم کرتا کہ وہ کسی (غیراللہ) کو سجدہ کرے تو میں یقیناً عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ صاحب مظاہرحق اس کے ذیل میں لکھتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ رب معبود کے علاوہ اور کسی کو سجدہ کرنا درست نہیں ہے اگر کسی غیر اللہ کو سجدہ کرنا درست ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے، کیوں کہ بیوی پر اس کے خاوند کے بہت زیادہ حقوق ہیں، جن کی ادائیگی سے وہ عاجز ہے، گویا اس ارشاد گرامی میں اس بات کی اہمیت و تاکید کو بیان کیا گیا ہے کہ بیوی پر اپنے شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری واجب ہے۔” نیز شوہروں کو بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ چناںچہ ایک روایت میں ہے: "حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گاروں) کے حق میں بہترین ہو اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں۔” اس مسئلہ میں اعتدال کی ضرورت ہے نہ یہ کہ تمام ذمہ داریاں بیوی پر ڈال دی جائیں اور نہ یہ کہ بیوی اپنے ضرورت مند شوہر یا ساس، خسر کی خدمت سے بھی دامن کش ہوجائے۔ رسول کریم ﷺ نے حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے نکاح کے بعد کام کی تقسیم اس طرح فرمائی تھی کہ باہر کا کام اور ذمہ داریاں حضرت سیدنا علیؓ انجام دیں گے اور گھریلو کام کاج اور ذمہ داریاں حضرت سیدہ فاطمہؓ کے سپرد ہوں گی۔ جب رسول کریم ﷺ کی صاحبزادی اس ذمہ داری سے مستثنیٰ نہیں تو دوسری خواتین کے لئے کیوں کر اس کی گنجائش ہوسکتی ہے؟ اسی طرح شادی کے بعد میاں بیوی دونوں پر ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے، اس کے بغیر پر سکون زندگی کاحصول محال ہے، شریعتِ مطہرہ میں میاں بیوی کے باہمی حقوق کو بہت اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کے بہت تاکید کی گئی ہے۔
(16) خواتین کے حقوق (Women’s rights)
وَاسْتَوْصُوْا بِالنِّسَآءِ خَیْرًا، فَاِنَّهُنَّ عَوَانٍ لَکُمْ لَا یَمْلِکْنَ لِاَنْفُسِهِنَّ شَیْئًا، فَاتَّقُوا اللہَ فِی النِّسَآءِ، فَاِنَّکُمْ اَخذْ تُمُوْهُنَّ بِاَمَانِ اللہِ، وَاسْتَخْلَلْتُمْ فُرُوْجَهُنَّ بِکَلِمَاتِ اللہِ0 ’’عورتوں سے بہتر سلوک کرو کیونکہ وہ تو تمہاری پابند ہیں اور خود اپنے لئے وہ کچھ نہیں کر سکتیں۔ چنانچہ ان کے بارے میں خدا کا لحاظ رکھو کہ تم نے انہیں خدا کے نام پر حاصل کیا اور اسی کے نام پر وہ تمہارے لئے حلال ہوئیں۔ لوگو! میری بات سمجھ لو، میں نے حقِ تبلیغ ادا کر دیا۔‘‘ رسول کریم ﷺ نے جو ذکر اپنے خطبہ میں فرمایا، وہ خاندانی نظام کا تحفظ ہے۔ مغرب اپنے حقوقِ نسواں کے نعرے پر بہت زور دیتا ہے۔ مغرب کا دعویٰ ہے کہ ہم نے عورت کو وہ حقوق دئیے ہیں جو اس سے پہلے کسی نے بھی اسے عطا نہیں کئے، لیکن غور کیا جائے تو مغرب نے عورت کو بجائے حقوق دینے کے اسے انہی خطوط پر چلانے کی سعی کی ہے جنہیں اسلام نے چودہ سو سال قبل جہالت کہہ کر پاؤں تلے روند ڈالا تھا۔ ذرا غور فرمائیں! مغرب عورت کو گھر کی دہلیز سے کھینچ کر سرِ بازار لے آیا ہے، مغربی مفکرین نے عورت کو مرد کے ہم پلہ قرار دیا، نتیجۃً مغرب نے عورت سے اس پر دوگنا بوجھ لاد دیا ہے۔
ایک تو وہ بوجھ ہے جو اس پر فطرتاً مسلط ہے، یعنی گھریلو امور کی نگرانی، بچے جننا، اور ان کی پرورش کرنا، وغیرہ، یہ کام مرد نہیں کر سکتا اور دوسرا بوجھ کمائی کرنا، نوکریاں کرنا، ڈیوٹیاں سرانجام دینا، وغیرہ، جبکہ اسلام نے دونوں فریقوں کے حقوق متعین کردئیے۔ اسلام نے مرد و عورت کو گاڑی کے دو پہیے قرار دیا، جس کی وجہ سے زندگی کی گاڑی کا چلنا نہایت آسان ہوگیا، جبکہ مغرب نے برابر کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹ کر دونوں پہیے گاڑی کی ایک ہی سمت میں لگادئیے۔ چنانچہ ان کا گھریلو نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا، جس کا اقرار اب خود مغربی مفکرین بھی کر رہے ہیں۔ عورت جسے یونانیوں نے سانپ، سقراط نے فتنہ، قدیس جرنا نے شیطانی آلہ اور یوحنا نے شر کی بیٹی اور امن وسلامتی کی دشمن لکھا، جب گھر سے باہر نکلی تو اپنی حشر سامانیوں سمیت نکلی، مردوں کے سفلی جذبات کی تسکین ہوئی اور بے حیائی نے جڑ پکڑ لی، جب کہ اسلام نے اسی عورت کے قدموں تلے جنت بتلائی اور ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے حقوق وضع کر کے اس کی باقاعدہ حیثیت متعین کر دی۔
(17) قانون کی اِطاعت (Obedience of law)
وَ اِنِّیْ قَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَّا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَهٗ اَبَدًا، اِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہٖ: کِتَابَ اللہِ، وَ اِیَّاکُمْ و الْغُلُوُّ فِی الدِّیْنِ، فَاِنَّمَا اَهْلَکَ مَنْ قَبْلَکُمُ الْغُلُوُّ فِی الدِّیْنِ0 ’’میں تمہارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ تم کبھی گمراہ نہ ہو سکو گے اگر اس پر قائم رہے اور وہ خدا کی کتاب ہے، اور ہاں دیکھو، دینی معاملات میں غلو سے بچنا کہ تم سے پہلے کے لوگ انہی باتوں کے سبب ہلاک کر دیئے گئے۔‘‘ آج ساری دنیا میں مسلمانوں کے عمومی زوال کا بڑا سبب یہی ہے کہ اپنے سر چشمۂ حیات (قانون شریعت) سے ان کا رشتہ کمزور ہوگیا ہے، انہوں نے اس قانونی نظام کو سرد خانے میں ڈال دیا ہے، جو نہ صرف ان کی زندگی و تشخص کو ضمانت فراہم کرتا ہے، بلکہ ساری انسانیت کی حیات و ارتقاء کا راز بھی اس میں پوشیدہ ہے، لیکن مسلمان اپنا مقام بھول گئے، انہیں اپنی حقیقت کا عرفان نہ رہا، انہیں یاد نہ رہا کہ وہ کس خدائی منصب اور خدائی نظام کو لے کر اس انسانی دنیا میں آئے ہیں؟ بلکہ وہ دنیا کی دوسری قوموں کی طرح مادہ پرستی، دنیا طلبی کے میدان میں کود پڑے اور ابلیسی نظام یہی چاہتا ہے کہ دوسروں کو جگانے والی قوم خود سوجائے۔ کاش کوئی ایسی صورت پیدا ہوتی کہ مسلمان پھر اپنے گھر کی طرف پلٹیں، اپنا کھویا ہوا خزانہ واپس لیں، انہیں ایسی آنکھ نصیب ہو کہ وہ ہیرے موتی اور کنکر پتھر میں فرق کرسکیں اور وہ پوری بصیرت کے ساتھ جان سکیں کہ انسانوں کا بنایا ہوا مصنوعی نظام کبھی خالق کائنات کے عطا کردہ قانونی نظام کا ہم پلّہ نہیں ہوسکتا، پھر یہ کیسی نادانی ہے کہ خالق کا آستانہ چھوڑ کر دنیا مخلوق کے پیچھے دوڑ رہی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "دنیا والے آگ کی طرف بلا رہے ہیں اور اللہ تمہیں جنت کی طرف پکار رہا ہے‘‘۔(سورۃالبقرہ)
(18) قانون کی حکمرانی (Right of law observanc)
وَ اِنَّ الشَّیْطَانَ قَدْ یَئِسَ مِنْ اَنْ یُّعْبَدَ فِیْ اَرْضِکُمْ هٰذِهٖ اَبَدًا، وَلٰکِنْ سَتَکُوْنُ لَهٗ طَاعَۃٌ فِیْمَا تُحَقِّرُوْنَ مِنْ اَعْمَالِکُمْ، فَسَیَرْضٰی بِهِ فَاحْذَرُوْهُ عَلٰی دِیْنِکُمْ0
’’شیطان کو اب اس بات کی کوئی توقع نہیں رہ گئی ہے کہ اب اس کی اس شہر میں عبادت کی جائے گی لیکن اس بات کا امکان ہے کہ ایسے معاملات میں جنہیں تم کم اہمیت دیتے ہو اس کی بات مان لی جائے اور وہ اس پر راضی ہے۔ اس لئے تم اس سے اپنے دین و ایمان کی حفاطت کرنا۔‘‘
(19) اللہ کے حقوق (Divine rights)
اَلاَ! فَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ، وَ صَلُّوْا خَمْسَکُمْ، وَ صُوْمُوْا شَهْرَکُمْ، وَ اَدُّوْا زَکوٰةَ اَمْوَالِکُمْ طَیِّبَۃً بِهَا اَنْفُسُکُمْ، وَ تَحُجُّوْا بَیْتَ رَبِّکُمْ، وَ اَطِیْعُوْا وَلَاةَ اَمْرِکُمْ، تَدْخُلُوْا جَنَّةَ رَبِّکُمْ0 ’’لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ وقت کی نماز ادا کرو، مہینے بھر کے روزے رکھو، اپنے مالوں کی زکوٰۃ خوش دلی کے ساتھ دیتے رہو، اپنے خدا کے گھر کا حج کرو اور اپنے اہل اَمر کی اطاعت کرو تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
(20) اِنصاف کا حق (Right of justice)
اَلاَ! لَا یَجْنِیْ جَانٍ اِلَّا عَلٰی نَفْسِہٖ، اَلاَ! لَا یَجْنِیْ جَانٍ عَلٰی وَلَدِہٖ، وَ لَا مُوْلُوْدٌ عَلٰی وَالِدِہٖ ’’آگاہ ہو جاؤ! اب مجرم خود ہی اپنے جرم کا ذمہ دار ہوگا، آگاہ ہو جاؤ! اب نہ باپ کے بدلے بیٹا پکڑا جائے گا اور نہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائے گا۔‘‘
(21) عوام الناس کا پیغامِ ہدایت سے آگہی کا حق (Right of awareness for future generations)
اَلاَ! فَلْیُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ اَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ0 ’’سنو! جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہئے کہ یہ احکام اور یہ باتیں ان لوگوں کو بتا دیں جو یہاں نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر موجود تم سے زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والا ہو۔‘‘ رسول کریم ﷺ کے ارشاد مبارک کو بالکل سلامتی کے ساتھ دوسرے تک پہنچانے والے کے بارے میں رسول کریم ﷺ نے بہت ہی بہترین دعا کی ہے۔ "اللہ تعالیٰ اس شخص کو تر و تازہ رکھے جس نے میری بات کو سنا اور اس کو آگے پہنچادیا” (سنن ابن ماجہ۔ حدیث:۲۴۴)
(22) رسول کریم ﷺ کا حق (Right of Holy Prophet)
وَ اَنْتُمْ تُسْأَلُوْنَ عَنِّیْ، فَمَا ذَا اَنْتُمْ قَائِلُوْنَ؟ قَالُوْا: نَشْهَدُ اِنَّکَ قَدْ اَدَّیْتَ الْاَمَانَةَ، وَ بَلَّغْتَ الرِّسَالَةَ، وَ نَصَحْتَ.’’اور لوگو! تم سے میرے بارے میں (خدا کے ہاں) سوال کیا جائے گا۔ بتاؤ تم کیا جواب دو گے؟ لوگوں نے جواب دیا: ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپ نے امانتِ (دین) پہنچا دی اور آپ نے حقِ رِسالت ادا فرما دیا اور ہماری خیر خواہی فرمائی۔‘‘ فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ بِاَصْبُعِهِ السَّبَّابَۃِ یَرْفَعُهَا اِلَی السَّمَآءِ وَ یَنْکُتُهَا اِلَی النَّاسِ: اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ، اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ، اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ. ’’یہ سن کر رسول کریم ﷺ نے اپنی انگشتِ شہادت آسمان کی جانب اٹھائی اور لوگوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ دعا فرمائی: ’’خدایا گواہ رہنا! خدایا گواہ رہنا! خدایا گواہ رہنا۔‘‘ اللہ تعالی ہمیں احکام خدا و رسول ﷺ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)