وطن عزیز ہندوستان میں ہفتوں پر محیط دنیا کے سب سے بڑے عام انتخابات منعقد ہونے جارہے ہیں جس کا آغاز 19 اپریل سے ہوچکا ہے اور یکم جون تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ان انتخابات میں مسلمانوں کو بڑھ چڑھ کر جوش و خروش کے ساتھ حصہ لینا چاہیے۔ علمائے کرام کی رائے کے مطابق انتخابات میں حصہ لینا ہر مسلمان پر فرض ہے کیونکہ اگر وہ حصہ نہیں لیتے ہیں تو وہی امیدوار کامیاب ہوں گے جو اسلام اور مسلمان مخالف ہوں گے یا پھر ایسے نام نہاد سیکولر امیدوار کامیاب ہوں گے جو وقت اور موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنی ترجیحات کو بدلتے رہتے ہیں۔
اسی لیے مسلمانوں کا اپنا سیاسی شعور بیدار کرنا اور سیاسی قوت پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ مسلمان اپنے اور ابنائے وطن کے اہم اور بنیادی مسائل (جیسے بیروزگاری، مہنگائی، تعلیم اور صحت )کو شدت کے ساتھ اور موثر طریقے سے ایوانوں میں اٹھاسکیں اور جو سیاسی استحصال ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں کا اب تک ہوتا آرہا ہے اس کا خاتمہ ہوسکے۔ اس مقصد جلیلہ کے حصول کے لیے نہ صرف مسلمانوں کا انتخابات میں حصہ لینا ضروری ہے بلکہ قرآن مجید کا عطا کردہ زندگی کے زریں اصول یعنی ’نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی اعانت کرو‘ کے تحت دوسروں کو بھی رائے دہی میں حصہ لینے کے لیے ترغیب دلانا بھی مسلمانوں پر لازم ہے تاکہ رائے دہی کے تناسب میں اضافہ ہو اور ایماندار سیاسی قائدین کا انتخاب یقینی ہوسکے۔
اس اہم مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے دوسری جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ مسلمان غیر مسلم ابنائے وطن کو اعتماد میں لے جس طرح آقائے نامدار رسول عربیؐ نے صدیوں سے مدینہ پاک کی قیادت کرنے والے یہودیوں کو اپنے اعتماد میں لیکر ان کے ساتط دنیا کا پہلا بین الاقوامی معاہدہ کیا اور ان سے اپنی قیادت تسلیم کروائی۔ اس عظیم کارنامے کو انجام دینے کے لیے عصر حاضر کے مسلمانوں کو اپنے اندر کردار مصطفیؐ پیدا کرنا ہوگا جو قرآنی ارشادات پر سختی سے عمل پیرائی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ وطن عزیز ہندوستان فسطائی طاقتیں مذہبی تعصب کو بڑھاوا دینے، نفرت کی آگ بھڑکانے اور شر و فساد کو ہوا دینے کی ہر ممکنہ کوششیں کررہی ہیں۔
ایسے پر فتن دور میں ابنائے وطن کے دل جیتنے کا گر یہی ہے کہ ہم اپنے اندر ہیجان پیدا کرے بغیر انتہائی صبر و استقامت، ضبط و تحمل اور حلم و درگذر کا مظاہرہ کریں اور برائی کا بدلہ نیکی سے نہیں بلکہ بہترین نیکی سے دیں تاکہ انتہائی بغض و عداوت رکھنے والا سخت سے سخت دشمن بھی ہمارا سچا و پکا دوست بن جائے اور شرپسند عناصر حق کے پرستار بن جائیں اس طرح خیر کو فتح و کامیابی اور شر کو ہزیمت و ناکامی ہوگی۔
اگر ہم اس قرآنی ارشاد سے انحراف کرتے ہیں تو ہماری تمام توانائیاں ضائع ہوجائیں گی، مقاصد کے حصول میں ہم بری طرح ناکام ہوجائیں گے اور ہمارے تمام بنے بنائے پروگرام نقش برآب بن کر رہ جائیں گے اگر چہ ہم موقتی طور پر کامیاب ہی کیوں نہ ہوجائیں جیسا کہ آزادی کے بعد سے اب تک ہوتے آرہا ہے۔اسی لیے مسلمانوں کو انتخابات کے اس موسم میں اپنا مذہبی تشخص برقرار رکھنا ضروری ہے۔
موجودہ حالات پر سرسری نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر معاملے اور میدان میں آج کا مسلمان بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ مسلم اور غیر مسلم سیاسی امیدواروں میں فرق کرنا انتہائی مشکل ترین امر بن چکا ہے۔ عموماً انتخابات سے قبل مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے امیدواروں کے حق میں جلسے منعقد کرتی ہیں، روڈ شو کرتی ہیں اور پرچہ نامزدگی داخل کرتے وقت اپنی قوت و طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے بڑی بڑی ریالیاں نکالتی ہیں۔ جہاں تک انتخابی جلسوں کے انعقاد کا تعلق ہے تو اس میں امیدوار اور اس کے ہمنوا لوگ محض انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مخالف پارٹیوں پر رکیک حملے کرتی ہیں، ان کا تمسخر و مذاق اڑاتی ہیں، ان کی پگڑیاں اچھالتی ہیں، ان کی عزت و آبرو کو سربازار نیلام کرتی ہیں، ان کی دل آزاری میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتیں، ان کے رازوں کا غیر ضروری افشا کرتی ہیں، ان کی عیب جوئی اور جھوٹے بہتان تراشیوں میں حدیں پار کرتی ہیں، ان پر غلط الزامات لگاتی ہیں، بے ہودہ گوئی اور ذاتیات پر اتر آتی ہیں، مغلظات اور انسانیت کو شرم سار کرنے والے جملے استعمال کرتی ہیں۔
غیر مسلم حضرات کے ان حرکات ناشائستہ اور ہتھیاروں کے مقابلے میں مومن کا بے شمار فوائد ومنافع کا حامل ، خوشنما وصف اور جاذب نظر ہتھیار نفاست و پاکیزگی، خوف و تقوی شعاری، اور محبت و نرمی ہوتا ہے جس سے بغاوت پسند اور سرکش افراد بھی بہ آسانی قابو میں آجاتے ہیںاس حقیقت کو ہمیں انتخابی جلسوں اور ریالیوں کے وقت مد نظر رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالی نرمی کرنے والا ہے ، نرمی کو پسند کرتا ہے، اور نرمی کرنے پر وہ سب کچھ عطا کرتا ہے جو سختی کرنے پر عطا نہیں کرتا۔ ایمان اور غلامی مصطفیؐ کا تقاضہ ہے کہ مسلمان ان تمام غیر اسلامی اور غیر انسانی امور سے حد درجہ اجتناب کریں اس کی پرواہ کیے بغیر کہ ہمارا مخالف ہمارے خلاف کس قدر نچلی سطح تک پہنچ گیا ہے ۔
ہر مسلم سیاسی قائد پر لازم ہے کہ وہ صبر و تحمل اور وقار و سنجیدگی سے ایسے ناگوار امور کو برداشت کرے اور عفو و درگزر اور نرمی کا مظاہرہ کرے چونکہ قرآن مجید کے مطابق ایسے لوگ زمرہ صابرین میں شامل ہوتے ہیں اور اجر عظیم کے مستحق ہوتے ہیں۔ ہم محض مخالفین کا جواب دینے یا انتخابات جیتنے کے لیے اوچھے طریقے استعمال کرکے قرآن مجید کے بیان کردہ دنیا و آخرت کی عظیم نعمتوں سے محروم نہیں ہوسکتے۔ خلیفہ اول حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ کی شان میں کسی نے گستاخی کی اور نازیبا جملے استعمال کیے آپؐ نے پورے تحمل اور برداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جواباً اس شخص سے کہا اگر آپ سچے ہیں تو اللہ تعالی مجھے معاف فرمائے اور اگر آپ جھوٹے ہیں تو اللہ تعالی آپ کی مغفرت فرمائے۔ ایسا اعلی کردار وہی پیش کرسکتا ہے جو صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے ہوئے ہوتا ہے۔
خلیفہ چہارم حضرت سیدنا علی المرتضیؓ کے خادم قنبر کے ساتھ کسی نے بدکلامی کی ۔ آپؓ نے اپنے خادم سے کہا اسے معاف کردو اس طرح تو اپنے رب کو راضی کرے گا، شیطان کو غضبناک کرے گا اور بدکلامی کرنے والے کو سزا دے گاکیونکہ احمقوں کی یہی سزا ہے کہ ان سے الجھنے کی بجائے خاموشی اختیار کی جائے۔مسلمانوں کو اپنی نرم خوئی ،نرم مزاجی اور تحمل و بردباری سے اسلام کی خوبصورت روایات کو قائم کرتے ہوئے اپنی زبان تبلیغ کا عملی ثبوت پیش کرنا چاہیے تاکہ فسطائی طاقتیں اپنے منصوبوں میں ناکام و نامراد ہوجائیں اور ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں ا من و سلامتی کی فضا ہر سو عام ہوجائے۔ سڑکوں پر نماز پڑھی جاتی ہے تو سیاسی قائدین اور پولیس والوں کو اعتراض ہوتا ہے اور مسلمانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک برتا جاتا ہے۔
لیکن جب سیاسی قائدین اپنے سیاسی مقاصد کے لیے انتخابی ریالیاں نکالتے ہیں جس کی وجہ سے عام راستوں پر آمد و رفت اور ٹرافک کی روانی متاثر ہوتی ہے، گھنٹوں گزرنے والوں کو مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تب کسی کے ماتھے پر شکن نہیں پڑتی۔ ایسے ماحول میں مسلم سیاسی قائدین و پارٹیوں پر لازم ہے کہ جب وہ ریالیاں نکالیں یا پرچہ نامزدگی داخل کرنے کے وقت اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں تو اس بات کا خاص خیال رکھیںعوام الناس بالخصوص راہگیروں کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ شریعت میں یہ ایک پسندیدہ چیز ہے۔ طواف میں ہم سات چکر لگاتے ہیں اور پہلے تین چکروں کو رمل کہتے ہیں جس میں سینہ تان کر اکڑتے ہوئے بہادری دکھاتے ہوئے چلنے کا حکم ہے۔ لیکن طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی کو تکلیف پہنچا اسلامی تعلیمات کے مغائر ہے۔
پیش امام صاحب کے اللہ اکبر کہنے پر لاکھوں کا مجمع بیک وقت رکوع و سجدہ میں چلے جاتا ہے ایسی منظم قوم کے لیے ریالیوں کو منظم بنانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ چونکہ اب موسم گرما چل رہا ہے اور کسی کے لیے بھی ایک لمحہ کے لیے شاہراہ پر ٹہرنا بہت دشوار ہورہا ہے ایسے میں اگر ہم بالخصوص مسلم سیاسی قائدین اور پارٹیاں اجتماعی مفاد اور خلق خدا کی بھلائی کے نظریہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے انتخابی جلسے و ریالیاں منظم انداز میں منعقد کریں گے اور مومنانہ کردار پیش کریں گے جس سے کسی انسان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے تو یقینا ہمیں نہ صرف اپنی قوم کا ساتھ ملے گا بلکہ اکثریتی طبقہ بھی ہمارے کردار سے متاثر ہوگا اور ہمارا ساتھ دے گا (انشاء اللہ العزیز)
چونکہ ہم اس وقت اپنے مومنانہ کردار کے باعث ساری انسانیت کے لیے مرکز عقیدت و محبت بن چکے ہوں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اغیار شریعت مصطفویؐ میں کوئی مداخلت نہ کرے لیکن ہم اپنا محاسبہ کریں کہ انتخابی موسم و ماحول میں کس نے ہمیں شرعی اقدار و اخلاق اپنانے سے منع کیا ہے؟ ہر مسلمان کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ہمیں یقینا انتخابات میں جیتنے کی کوشش کرنا چاہیے لیکن یہ کامیابی ہماری زندگی کا مقصود نہیں ہونا چاہیے جس کے لیے ہم شرعی امور سے انحراف کریں۔ جب ہم خود شریعت پر چلنے میں کوتاہی برتیں گے تو اغیار کو موقع ملے گا کہ وہ شریعت مطہرہ کے خلاف آواز اٹھائیں۔
اگر ہم قندیل سیرت سے اپنے حسن اخلاق کے بام و در کو روشن و منور کریں گے اور اپنے اعلی کردار سے اکثریتی طبقہ کے دل و دماغ کو فرحت و تازگی بخشنے اور انہیں متاثر کرنے میں کامیاب ہوں گے تو عین ممکن ہے کہ مستقبل میں جب بھی الیکشن کمیشن آف انڈیا انتخابات کا اعلان کرے گا تو وہ رہمنایانہ خطوط جاری کرتے ہوئے کہے کہ مصطفویؐ کوڈ آف کنڈکٹ لاگو ہوچکا ہے ۔اللہ قادر مطلق ہے ہمیں بحیثیت مسلمان اس کی قدرت، طاقت، عظمت سے غافل اور اس کی وسیع رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں قرآن اور صاحب قرآنؐ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔