اسلامی تہذیب ایک منفرد تہذیب ہے جو عقل و خرد کی نہیں بلکہ وحی الہی کی تابع ہوتی ہے ، یہ ممکن ہے کہ دونوں میں اکثر موافقت ہوجائے لیکن جہاں موافقت نہ ہوسکے وہاں عقل و خرداحکام الہی کے تابع ہوں گے۔
عادات و اطوار ، طرز زندگی ،سماجی رکھ رکھائو، رسوم و رواجات کے مجموعہ کا نام تہذیب ہے
جو مختلف اقوام و قبائل ، ملک و وطن کے درمیان فرق و امتیاز کی لکیر کھینچتی ہے ،جب سے دنیا قائم ہے انسانی بستیاں آباد ہورہی ہیں ،ان گنت جدا جدا تہذیبیں و ثقافتیں فروغ پارہی ہیں ،لیکن ان کو تقسیم کیا جائے تو اصلاً دو تہذیبوں کا وجود ثابت ہوتا ہے ایک اسلامی کلچر دوسرے غیر اسلامی کلچر ،اسلامی تہذیب ایک منفرد تہذیب ہے جو عقل و خرد کی نہیں بلکہ وحی الہی کی تابع ہوتی ہے ، یہ ممکن ہے کہ دونوں میں اکثر موافقت ہوجائے لیکن جہاں موافقت نہ ہوسکے وہاں عقل و خرداحکام الہی کے تابع ہونگے ،امتحان کی غرض سے اس دنیا میں اللہ سبحانہ نے انسانوں کو اختیار کا حق دیا ہے وہ دونوں میں جس کا چاہے انتخاب کریں اس کے عواقب ونتائج کے وہی ذمہ دار رہیں گے ،،اے پیغمبر ﷺ آپ فرمادیجئے کہ حق کا پیغام آچکا ہے ،ہدایت و گمراہی کی دونوں راہیں واضح ہوچکی ہیں (اب کسی پر جبر نہیں ہے)جس کا جی چاہےمانے یعنی ایمان لائے اور جس کا جی چاہے نہ مانے‘‘ لیکن پیغامِ حق سے انحراف کرنے کا انجام رسوا کن ہوگا ،چونکہ یہ لوگ بڑے ظلم کے مرتکب ہیںظالموں کیلئے جہنم کا سخت ترین عذاب تیار رکھا گیا ہے جس کی قناتیں ان کو گھیر لینگی اور اگر تشنہ بلب پانی کی فریاد کریں گے تو انہیں کھولتا ہوا پانی ملے گا جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح گرم ہوگا جو ان کوجھلسادیگا ۔(مفہوم آیت ۲۹؍الکہف )،ظاہر ہے حق کا انتخاب کرنے والے فائزالمرام ہونگے ،ارشاد باری ہے بیشک جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے بلاشبہ ہم اچھے کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے(الکہف ؍۳۰)
اسلامی تہذیب و ثقافت کو قبول کرنے والے شکر گزار بندوں کی فہرست میں شامل ہونگے اور غیر اسلامی کلچرکو پسند کرنے والے اپنے خالق و مالک کے ناشکرے ٹہریںگے ، جو شکر گزار ہونگے اس کا فائدہ انہیں کو ملے گا اور جو ناشکری کریں (تواللہ سبحانہ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں)یقیناً میرا رب بے نیاز و کریم ہے
(النمل ؍۴۰)۔
اسلامی تہذیب و ثقافت جہاں اللہ سبحانہ کو پسند ہے وہیں اس سے سماج میں انسانیت کو وقار و اعتبار حاصل ہوتا ہے اور دونوں جہاں کی سعادتیں نصیب ہوتی ہیں ،غیر اسلامی تہذیب و ثقافت سے ممکن ہے فانی دنیا میں وقتی سرورولذت مل جائے اور وقتی تسکین خاطر کا سامان ہو ،لیکن ابدی دنیا میں دائمی راحت و رحمت ،کامیابی و کامرانی سے محرومی ان کا مقدر بنے گی ،مغربی تہذیب بھی غیر اسلامی تہذیب ہی کا ایک حصہ ہے ۔ظاہر ہے مغربی تہذیب آزاد خیالی کی بنیاد پر قائم ہے ،عقل و خردایک قیمتی جوہر ہے لیکن اسی کو حق یا نا حق کو جانچنے کا پیمانہ بنالیا جائے اور جو کچھ عقل کہے اسی کو تسلیم کرلیا جائے تو انسان ٹھوکریں کھاتا رہے گا،عقل و خرد کی نعمت سے اللہ سبحانہ نے انسانوں کو نوازا ہے تو اس کے ساتھ آسمانی ہدایات بھی نازل فرمائی ہیں،ظاہر ہے عقل ان کی تابع ہوتبھی منشاء الہی کے مطابق ان پرعمل کرنا ممکن ہے ،یہ بات ہمیشہ پیش نظررہے کہ عقل ہی پرکامل انحصار سے گمراہی کا راستہ کھلتاہے ،اسی سے مادہ پرستی وجود میں آتی ہے ،عقل و خرد ،سمجھ بوجھ سے مادی اسباب و ذرائع اختیار کرکے ترقی حاصل کی جاسکتی ہے ،چنانچہ ترقی یافتہ اسباب زندگی کی فراوانی اسی کی دین ہے،یہ صحیح ہے کہ مادیات میں عروج و ترقی سے کرئہ ارض کو جنت نظیر بنایاجاسکتاہے۔
الغرض مغربی تہذیب کے جہاں بہت زیادہ نقصانات ہیں وہیں اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس نے عقل و خرد پر محنت کی ہے ،جس کے اچھے نتائج و ثمرات ضرور حاصل ہوئے ہیں ،نئی نئی ایجادات سے دنیا روشناس ہوئی ہے لیکن آسمانی ہدایات کی روشنی سے عقل و خرد کو محروم رکھنے کے عواقب و نتائج بھی بھگتنے پڑےہیں ، نیزکچھ اسلامی اخلاقی خوبیاں ،دھوکہ دہی و کذب بیانی سے اجتناب ،دیانت و امانت ،ایفائے عہد کی پاسداری نے تہذیب مغرب کے علمبرداروں کو ظاہری نفع ضرور پہونچایا ہے لیکن خدابیزاری ،آخرت فراموشی ،سود خوری ،میخواری ،موسیقی ، بے حیائی ،عریانی ،مادرپدر آزادی نے ان کا حقیقی چین و سکون چھین لیا ہے ،اس لئے وہ اس وقت اسی کے متلاشی ہیں،لیکن اس کی تلاش عقل و خرد کی پہنائیوں میں گم رہتے ہوئے کی جائے تو یہ ایک ایسا خواب ہے جس کی کوئی اچھی تعبیرہاتھ نہیں آسکتی،ویسے زندگی کے سارے گوشوں پر عقل و خرد کی حکمرانی ہی تہذیب نو کی پہچان ہے ان سارے گوشوں میں زندگی کا ایک حسین گوشہ ازدواجی بندھن بھی ہے ۔
مرد و عورت کو خالق کائنات نے ایک دوسرے کی ضرورت بنایا ہے اور اس کی تکمیل کیلئے نکاح کا جائز راستہ متعین کیا ہے رفیق حیات کے انتخاب میں خداترسی ،دینداری کا پاس و لحاظ رکھنے کی تلقین کی ہے،دیندار رشتہ کے انتخاب ہی میں کامیابی کی ضمانت ہے فاظفربذات الدین تربت یداک اور باہمی اعتماد قائم رہتا ہے ،صبر و برداشت ،ایثار و قربانی کے جذبات دونوں میں فروغ پاتے ہیں ،پاکیزہ ازدواجی بندھن ایک پاکیزہ خاندان کی تشکیل میں خشت اول کی حیثیت رکھتاہے ،یہ وہ مضبوط بنیاد ہے جس پر کامیاب و خوشگوارزندگی کا خوبصورت محل تعمیر ہوسکتا ہے،لیکن تہذیب ِجدیدایک شیطانی دھوکہ ہے جس نے رفیق زندگی (Life Partner) کے انتخاب میں ایک دوسرے کو سمجھنے ( Understanding)کے عنوان سے بگاڑ و فساد کی راہیں کھولی ہیں ،اسلام نے اس رشتہ کو جوتقدس بخشا تھا غیر اسلامی تہذیب نے اس فطری رشتہ کی تقدیس کو پامال کردیا ہے ۔ترقی یافتہ موجودہ ممالک جب اس کی سرپرستی کررہے ہوںتو ظاہر ہے ان سے کیا امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اس کی وجہ پنپنے والے جرائم پر قدغن لگائیں گے ،ان کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ فطرت سے بغاوت کے برے عواقب و نتائج سے محفوظ نہیں رہا جاسکتا ۔آخرت کی گرفت اپنی جگہ ہے اس سے کسی صورت مفر نہیں ۔
اسلام دین فطرت ہے اس نے ایک ایسا پاکیزہ نظام حیات عطا کیا ہے جو انسان کے فطری تقاضوں کی تکمیل کیلئے ایسی راہ دکھاتا ہےجس سے بدکاریوں اور جنسی جرائم کے سارے دروازے خود بخود بندہوجاتے ہیں اور تسکین خاطر کا راحت بھراسامان ہوتا ہے ،زندگی کا دامن مسرتوں سے بھر جاتا ہے ۔
یہ بات درست ہے کہ عقل و خرد کے استعمال سے مغرب کو خوداعتمادی حاصل ہوئی ہے ،علم و تحقیق کی راہیں ہموار ہوئی ہیں،مظاہرفطر ت کی تسخیر آسان ہوئی ہےلیکن چین و سکون سے محرومی ان کے گلے کا ہار بن گئی ،چونکہ ترقی کے سارے اہداف ہدایات ربانی کی روح سے یکسر خالی ہیں ،اس لئے وہ تاریک راہوں کے مسافر بنے ہوئے ہیں ،ظلمات بعضہا فوق بعض کے مصداق تہہ در تہہ تاریکیوں و گمراہیوں میں اس قدر غوطہ زن ہیںکہ بقول کسے’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے ‘‘دوسروں کو بھی مادہ پرستانہ غیر اسلامی کلچر کے منجدہار میں غرقاب کرنا چاہتے ہیں ۔
تہذیب نو کے علمبرداروں نے عزم کرلیا ہے کہ کرئہ ارض پرصرف ہمارے کلچر کا چلن رہے اورسارے ممالک پر ہماری اجارہ داری رہے ، اس مقصد میں کامیابی کیلئے انہوں نے مادہ پرستی ،مادی منفعت ،خودغرضی و مفاد پرستی کو مقصودحیات بنالیاہے ،جس کا خمیازہ آج ساری دنیا بھگت رہی ہے ۔دنیا بھر کی ساری مملکتیں خواہ و ہ جمہوری ہوں کہ تانا شاہی سب اس کے تابع فرمان ہیں، یہ تو مملکتوں کا حال ہے لیکن تہذیب نو کی چکاچوند نے انسانو ںکو اس کا گرویدہ بنادیا ہے،ظاہر ہے نفسانی خواہشات کے اسیراس کی غلامی کا قلادہ اپنے گلےمیں ڈالے رہیں گے ،اللہ سبحانہ کی معرفت اور احکام الہی کی روشنی سے عقل و خرد کی محرومی نے ان کی راہ گم کردی ہے،وہ چاہتے ہیں کہ سارے انسان انہیں کے شانہ بہ شانہ، قدم بہ قدم چلیں ، ہر دور میں راہ حق سے بھٹکانے اور خلاف حق راستہ اختیار کرنے میں شیطان مددگار رہاہے ،نئی تہذیب کے علمبردار اسی کے پیروکار ہیں ،عقل و خرد کو آسمانی ہدایات سے روشنی ملے تو انسانیت کبھی اس طرح گمراہ نہیں ہوسکتی ،ایمان و اعتقاد متزلزل نہ ہوتے ،غیرت و حیا ءرخصت نہ ہوتی ،عورتیںبازاروں اور تجارت گاہوں کی زینت نہ بنتیں ،محارم و غیر محارم کے درمیان اسلام نے جو خط فاصل کھینچا تھا مغربی تہذیب نے اس کو مٹادیا ہے ،غیر محرم و اجنبیوں سے روابط و تعلقات کو تہذیب نو کا نام دیدیا گیا ہے ،نئی نسل اس کی ظاہری چمک دمک سے متاثر ہوتی جارہی ہے ۔ لیکن درباطن اس میں روحانی اقدار کی موت ہے ۔
نظرکو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
فحاشی و عریانیت کا ایک سیلاب امڈپڑا ہے جو نوخیز نسلوں کو بہائے لےجارہا ہے ، جدید ذرائع ابلاغ و نظام مواصلت جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کررہے ہیں ،جس سے ان کے دل و دماغ مسموم ہوتےجارہے ہیں،غیروں سے کیا گلہ ،فطری پاکیزہ اسلامی تعلیمات سے اپنوں کی بیگانگی خون کے آنسو رلارہی ہے،تہذیب نو کے دلدادہ اسلامی اقدار و روایات کو فرسودہ اور ناقابل عمل قرار دے رہے ہیں ۔شومی قیمت سیدنامحمد رسول اللہ ﷺ کی اس پیش گوئی کے ہم بظاہر مصداق بنتے جارہے ہیں ،آپﷺ نے فرمایا کہ تم ضرور ان (یہود و نصاری)کے قدم بہ قدم چلوگے یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کی بل میں داخل ہونگے تو تم بھی ان کے پیچھے داخل ہوجائو گے ،یہ کنایہ ہےاس بات سے کہ آنکھ بند کرکے تم ان کی اتباع و پیروی کروگے ۔(صحیح مسلم رقم ۶۷۸۱)
اللہ سبحانہ نے امت مسلمہ کو خیر امت بنایا ہے ،اپنی خیر خواہی کے ساتھ دوسروں کی خیر خواہی بھی اس کا نصب العین ہے، اس کا فرض منصبی ہے کہ اللہ سبحانہ کی معرفت اور اس کی روشن تعلیمات کے فطری پیغام کی روح کو اپنے اور امت مسلمہ کے قلوب میں بسائے اور ساری انسانیت کو اس سے روشناس کرائے ،نیکی کو پروان چڑھائے فواحش و منکرات کے سیلاب پر ایک مضبوط بندباندھے ،عظمت ِانسانیت کو بحال کرنے اور دونوں جہاں کی کامیابی و کامرانی حاصل کرنے کی یہی ایک صورت ہے ۔
امت مسلمہ کی امامت و قیادت کا منصب اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ وہ سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں بھی امامت و قیادت کے منصب پر فائز رہے،علم و تحقیق اور کائنات کی پہنائیوں میںغور و خوض اس کی متاع گم گشتہ ہے،اپنے اسلاف کی طرح وہ اس کی امین ہے۔ایمان و ایقان کی راہ پر گامزن رہتے ہوئے وہ اس میدان میں نمایاں مقام حاصل کرتی ،اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جو تحقیق و جستجو ہوگی وہی ساری انسانیت کیلئے فائدہ بخش ہوگی مغربی تہذیب اس سے نا آشنا ہے عقل و خرد کی اہمیت اپنی جگہ ہے ،جیسے انسان رات کی تاریکی میں راستہ طئے کرنے کیلئے روشنی کا محتاج ہے ،کچھ اسی طرح عقل و خرد کو اسلامی تعلیمات کی روشنی ضروری ہے ۔
اسلام چاہتا ہے کہ عقل و خرد کو بے لگام نہ چھوڑا جائے بلکہ پیغام ِالہی کی روشنی سے منور رکھا جائے ،مغربی تہذیب اس وقت پوری دنیا پر چھاتی جارہی ہے ، مغربی کلچر سےفروغ پانے والے تنگ وچست لباس نسوانیت کو داغدار کررہے ہیں۔مرد و زن کے آزادانہ اختلاط نے جرائم پر جری کردیا ہے ،نتیجہ یہ ہے کہ جائز اولاد کی طلب اور نسلوں کی حفاظت کے پاکیزہ طریقہ سے انسانی معاشرہ بیگانہ ہوتا جارہا ہے ۔آہستہ آہستہ مسلم سماج بھی اسی تہذیب کا شکار ہے ،مسلم خواتین سے حیا ءو حجاب بتدریج رخصت ہیں مردوں کی غیرت و حمیت بھی دم توڑ چکی ہے ۔اس سے دل گرفتہ ہوکر اکبر الہ آبادی رحمہ اللہ بے ساختہ یہ کہہ اٹھے
بے پردہ کل جوآئیں نظر چند بیبیاں اکبرؔ زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا
بعض مسلم خواتین بھی بقول اکبر الہ آبادی رحمہ اللہ ’’ اب ہے شمع انجمن پہلے چراغ خانہ تھی ‘‘کی تصویر بن کر چراغ خانہ کے بجائے شمع انجمن بن کر ہوس پرستوں کی ہوس پرستی کا نشانہ بن رہی ہیں ۔عفت و عصمت داؤ پر لگ گئی ہے ،ناجائز تعلقِ مرد و زن کی شناعت دل و دماغ سے محوہوگئی ہے ، مرد و زن کا اختلاط اور آزادانہ میل جول باعث افتخار سمجھاجانے لگا ہے ۔عورتوں کے ساتھ مردوں نے بھی مغربی وضع قطع اختیار کرلی ہے،زندگی کے سارے شعبوں میںاسلام کے بجائے تہذیب نو کا چلن عام ہوتا جارہا ہے ،بود و باش ، رہن سہن ،بات چیت سب کے سب مغربی تہذیب کے سانچہ میں ڈھل رہے ہیں ،عبادات اور چند رسوم و رواجات تک اسلام کو محدود کردیا گیا ہے،اسلامی رنگ کے بجائے تہذیب نو کا رنگ چڑھتا جارہا ہے ۔
اس تہذیب کو مشعل راہ بنالیا جائے تو انسانیت کو تباہی و بربادی کے منجدھار میں غرق ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا ، تہذیب نو سراب کی طرح ایک حسین دھوکہ و فریب ہے ،اس کے دلدادگان کو کبھی روحانی اطمینان و سکون نصیب نہیں ہوسکتا ۔ارشاد باری ہے ،جو لوگ ایمان لائے ان کے قلوب اللہ سبحانہ کے ذکر سے مطمئن ہے ،آگاہ ہوجائواللہ سبحانہ کے ذکر ہی سے دلوں کو چین و سکون ملتا ہے ۔(الرعد؍۲۸)اللہ سبحانہ نے ساری انسانیت کو پیغام دیا ہے کہ ’’ بیشک دین اللہ سبحانہ کے نزدیک اسلام ہی ہے ۔(آل عمران ؍۱۹) چونکہ جو اسلام کے سوا کسی اور دین کو بطور نظام حیات پسند کریں گے اللہ سبحانہ ہر گز ہرگز اس کو قبول نہیں فرمائیں گے اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوںمیں رہیں گے ۔ (آل عمران ؍۸۵)
اسلام سارے انسانوں کیلئے ایک عظیم پیغام ہے کہ وہ اس کے پرچم تلے آجائیں ،اس کی راحت بھری چھائوں میں پناہ لے لیں اسی میں ان کی حقیقی عافیت و سلامتی ہے ۔اولاد آدم کو طئے کرلینا چاہئے کہ آیا وہ اسلامی نظام ِحیات ،تہذیب و ثقافت کو قبول کرکے کامیابی سے ہمکنار ہونا چاہتے ہیں یا مبنی برباطل غیر اسلامی کلچرکو سینہ سے لگائے دونوں جہاں کی دائمی رسوائیاں ،بدبختیاںاور شقاوتیںمول لینا چاہتے ہیںفیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے سونچ سمجھ کر فیصلہ لینا ہی فراست ودانشمندی ہے۔