آزادی رائے کے اظہار کا جہاں تک تعلق ہے اسلام نے حدود و قیود کی مذکورہ پابندی کے ساتھ اجازت دی ہے، تبھی تو تاریخ اسلام کے سنہرے اوراق ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں، ملک عرب میں کھجوروں کے بہت باغات ہیں آپ ﷺ کے عہد مبارک میں آپﷺ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کے غذائی اسباب میں کھجوروں کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔
عربوں کے ہاں ’‘تابیر’‘ کا رواج تھا یعنی کھجور کے درختوں میں جو نر و مادہ ہوتے ہیں ان کے درمیان ایک خاص عمل کے ذریعہ سے اتصال قائم کیا جاتا تھا ، آپﷺ نے ایک مرتبہ اس سے منع فرما دیا تھا جس کی وجہ کھجور کی فصل جیسی ہونی چاہئے تھی نہیں ہوسکی تھی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب اس کی شکایت کی تو آپﷺ نے ان کے کیے جانے والے تابیر کے عمل کی اجازت مرحمت فرمادی اور فرمایا انتم اعلم بامور دنیاکم (مسلم ۲۱۴۵رقم الحدیث ۸۴۳۴)
اسلام اور شعائر اسلام اور اس کے کتاب و سنت سے منصوص احکامات کے سوا دیگر امور میں اسلام کے دئے گئے آزادی رائے کے حق کی وجہ رعایا کے ایک عام آدمی کو بھی یہ اجازت حاصل ہے کہ وہ خلیفہ وقت کے آگے بھی پوری آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کرے،۔ چنانچہ ایک مرتبہ عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نماز جمعہ کا خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے یہ فرما رہے تھے ’‘اسمعوا واطیعوا’‘ یعنی سنو اور اطاعت کرو۔
اس وقت ایک صحابی رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ نہ ہم آپ کی بات سنیں گے، نہ عمل کریںگے جب تک کہ آپ ان دو چادروں کے بارے میں وضاحت نہ فرما دیں جو آپ نے اوڑھ رکھی ہیں کیونکہ بیت المال سے سب کو ایک ایک چادر تقسیم ہوئی ہے پھر آپ کے بدن پر دو چادریں کہاں سے آگئیں، اعتراض معقول تھا، خلیفہ وقت ہونے کے باوجود آپ نے اس کا نہ صرف برا نہیں مانا اور نہ ہی کوئی غم و غصہ کا اظہار کیا بلکہ فاروقی جلال رکھنے والی ہستی نے پوری سنجیدگی کے ساتھ حق کے آگے سر تسلیم خم کر کے بڑی نرمی کے ساتھ وضاحت کیلئے اپنے بیٹے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو طلب کیا اور ان سے خواہش کہ وہ اس کا جواب دیں جس پر ابن عمررضی اللہ عنہما نے وضاحت کی کہ خلیفة المسلمین چونکہ طویل القامت ہیں ایک چادر ان کے لئے ناکافی تھی اس لئے میں نے اپنے حصہ کی چادر ان کو بطور تحفہ دی ہے (اخرجہ البیہقی السنن الکبری ۷۳۳۲)۔
اور ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ مہرپر تحدید عائد کرنا چاہتے تھے لیکن ایک بڑھیا نے آپ کے آگے صدائے حق بلند کی اور کہا کہ اے عمر (رضی اللہ عنہ)! اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس پر کوئی تحدید عائد نہیں کی تو پھر آپ کوکیسے حق پہنچتا ہے کہ اس پر کوئی تحدید عائد کریں، اس خاتون نے قرآن پاک کی یہ آیت ’‘تم نے بیوی کو مہر کے عوض خزانہ دے رکھا ہو تو اس میں سے کچھ نہ لو (النساء۰۲)’‘ کی تلاوت کی۔ ایک عورت کی فقہی بصیرت سے متاثر ہو کر انہوں نے بے ساختہ یہ کہا ’‘کل احد افقہ من عمر’‘ یعنی یہ بات خوش آئند ہے کہ یہاں تو ہر ایک عمر سے بھی زیادہ فقیہہ ہے اور یہ جملہ بطور اظہار مسرت دو یا تین مرتبہ دہرایا (تاریخ الخلفاءالراشدین ۱۷۶۱ بحوالہ عیون الاخبار۱۵۵)
دنیا کی موجودہ تصویر امت مسلمہ کے سامنے ہے، ان جیسے حالات میں مسلمانوں کو رد عمل کے طور پر کیا کرنا چاہئے، اس پر سر جوڑ کر غور کرنے کی ضرورت ہے ، وقتی عمل کے طور پر مسلمانوں کو متحدہ طور پر اسلام دشمن واقعات کے خلاف قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پرزور احتجاج کرنا چاہئے اور موجودہ وسائل کو اختیار کر کے اپنے جذبات و احساسات کو سارے سربراہان مملکت اور خاص طور پر اقوام متحدہ کے ذمہ داروں تک پہنچانا چاہئے، دائمی طور پر ان خرابیوں اور جرائم کے سدباب کے لئے اسلام کے پیغام کو ہر ہر جہت سے دنیا بھر میں عام کرنے کی سعی کرنا چاہئے۔
اس کام کے لئے اس وقت شدید ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلک ومشرب کے جھگڑوں سے اونچے اٹھ کر تمام مکاتب فکر کے مقتدر علماءو مشائخ سب ایک ہوں اور بیک آواز سب مل کر اس کام کو انجام دیں، اس موقعہ پر یہ نکتہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ مسلک و مشرب کے اختلافات اسلام میں ہیں نہ کہ اسلام مسلک و مشرب میں، یہ امت خیر امت ہے دعوت دین اس کی ذمہ داری ہے ، اس ذمہ داری سے کماحقہ عہدہ برآ نہ ہونے کی وجہ دنیا میں اس طرح کے واقعات کا بار بار اعادہ ہے۔
اللہ نے اسلام کی فطرت میں لچک دی ہے اس کو جتنا دبایا جائے وہ اتنا ابھر کر رہے گا، اس طرح کے واقعات جہاں دل شکن اور قابل مذمت ہیں وہیں اللہ کی ذات سے یہ یقین بھی ہے کہ اس شر سے انشاءاللہ العزیز خیر ظاہر ہوگااور اسلام کے نور ہدایت سے انسانی سینوں کے روشن ہونے کا یہ ذریعہ بنے گا۔ ذرائع ابلاغ سے ملنے والی بعض اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ۹۱۱ کے واقعہ کے بعد امت مسلمہ کو جن مظالم کا شکار بنایا گیا اور جن حالات سے امت مسلمہ کو گذارا گیا وہ ایک غم ناک باب ہے لیکن اس واقعہ کے بعد مغربی ممالک کے رہنے والوں کا اسلام کی طرف رجوع بڑھ گیا ہے۔
فطری بات ہے کہ جب حق کی مخالفت کی جاتی ہے توسادہ لوح افراد کے ساتھ مخالفین کے اندر بھی یہ تجسس پیدا ہوجاتا ہے کہ آیا جس کی مخالفت کی جارہی ہے وہ کس حد تک مبنی بر صداقت ہے اور وہ کیا عوامل ہیں جو کچھ طاقتوں کو مخالفت پر اُکسا رہے ہیں۔
چنانچہ اسلام کی تعلیمات جاننے کے لئے کتاب و سنت و سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے ایک بہت بڑا طبقہ خود بخود مائل ہوا ، دشمنوں کی طرف سے پھیلائی جانے والی زہر افشانیوں کی صداقت تو کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں لگی البتہ یہ ہوا کہ ان کے سینے مبنی بر حق و صداقت ان حقائق سے ایسے معمور ہوگئے کہ جنہوں نے ان کو اسلام کی دہلیز تک پہنچا دیا اور اب وہ اسلام کے سایہ رحمت میں پناہ حاصل کر کے مطمئن بھی ہیں اور دوسروں کو اسلام کے سائبانِ رحمت میں پہنچانے کی جدو جہد میں مصروف عمل ہیں ۔