Controversy over school debate over Israel-Hamas conflict
قومی خبریں

اسرائیل۔حماس تنازع پر اسکول میں مباحثہ پر تنازع

ریاست اترپردیش میں ایک اسکول میں بچوں کے درمیان مقابلہ سے تنازع کھڑا ہوگیا کیونکہ اس مقابلے میں طلباء سے کہا گیا تھا کہ وہ فلسطینیوں کی نسل کشی پر اسرائیل کے اقدام کا دفاع کریں اور اس کا جواز پیش کریں۔

اتر پردیش کے کانپور ضلع کے ہڈارڈ ہائی اسکول نے 9 دسمبر کو ہندی میں ایک مقابلہ منعقد کیا تھا جس کا عنوان "تشدد یا عدم تشدد، کیا بہتر ہے؟” تھا۔

مکتوب میڈیا کی خبر کے مطابق مقابلے میں شریک طلباء کو اسرائیل کے اقدامات کا دفاع کرنے اور حماس کی مزاحمت کی مذمت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اور ان سے ایسے سوالات پوچھے گئے ہیں جس سے اسرائیل کا دفاع ہوتا ہو۔

مقابلہ کا ایک موضوع تھا ” حماس کے دہشت گردوں نے اسرائیل میں کتنے نو زائیدہ بچوں کو ہلاک کیا ہے، اور کیا اسرائیل کو حماس پر میزائل داغنے کا حق ہے؟”۔

مقابلہ کا ایک اور موضوع تھا، ” دیکھو اسرائیل حماس کے دہشت گرد حملوں سے کیسے نمٹ رہا ہے، جہاں حماس نے اسرائیلیوں کی نسلوں کا صفایا کر دیا ہے”۔

مقابلے میں مبینہ طور پر غیر مسلم کمیونٹی کے طلباء نے اسرائیل کی پرتشدد کارروائیوں کا دفاع کیا اور اسلامو فوبیا کو برقرار رکھنے کا جواز پیش کیا۔ اس کے علاوہ مقابلے کے دوران ایک طالب علم نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔

بعض طلبہ کو ‘انسانی ہمدردی کے اصولوں اور بین الاقوامی قانون کے خلاف موقف کا جواز پیش کرنے کے لیے مجبور کیا گیا جس پر بے چینی کا اظہار کرنے والے طلبہ کو اساتذہ اور ساتھی طلبہ نے مبینہ طور پر دہشت گرد اور پاکستانی کہا گیا۔ انہیں اسکول سے نکالنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔

ایک طالب علم نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مکتوب میڈیا کو بتایا کہ "ہمیں مقابلے کے دوران اسرائیل کا دفاع کرنے پر مجبور کیا گیا جس کی حمایت کسی کو نہیں کرنی چاہیے، اور بحث کا موضوع ہمارے اخلاقی عقائد کے خلاف تھا۔ اس طرح کی بحث کا مقصد نہ صرف آزادانہ اور کھلی گفتگو کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے بلکہ اس ماحول کو فروغ دینے میں بھی مدد کرتا ہے جو امتیاز، نفرت اور تشدد کو فروغ دیتا ہے۔”

طالب علم نے مزید کہا کہ "جب ہم طلباء نے مزاحمت کی تو ہمیں پاکستانی اور دہشت گرد کہا گیا اور اساتذہ نے کھلے عام کہا کہ وہ اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں اور اس پر بالکل افسوس نہیں کرتے”۔

اس طرح کے مباحثے کے مقابلے پر اعتراض کرنے والے ایک طالب علم کو اسکول میں ایک سال ضائع ہونے کی دھمکی دی گئی تھی کیونکہ اساتذہ نے کہا تھا کہ وہ ان تمام طلباء کو ناکام کر دیں گے جنہوں نے اس معاملے میں کسی قسم کے احتجاج یا مزاحمت کرنے کی کوشش کی۔

طلباء کے ایک گروپ نے اسکول کے پرنسپل سنی ورگیس سے رابطہ کیا اور استاد سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جس نے مقابلہ منعقد کیا اور انہیں یہ موضوع دیا تھا تاہم بغیر کسی معافی یا کارروائی کے انہیں واپس کردیا گیا۔

مشتعل طلباء مذکورہ ٹیچر کے خلاف کاروائی نہ کرنے پر اس معاملے کو سوشل میڈیا پر بھی لے گئے ہیں۔ سوشل میڈیا سائٹس پر احتجاج کی ویڈیوز سامنے آنے کے بعد معافی مانگنے کے مطالبات نے زور پکڑا ہے۔ فی الحال طلبہ نے احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہڈارڈ ہائی اسکول عیسائیوں کے زیر انتظام ہے اور زیادہ تر اساتذہ عیسائی ہیں۔ اسکول میں 80 فیصد طلباء مسلمان ہیں اور یہ سول لائنز کے علاقے میں واقع ہے، جس میں طلباء اور ان کے والدین کے مطابق مسلمانوں کی اکثریت ہے۔