ہر سال 3 دسمبر کو معذوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے – اس دن مختلف پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں ، معذوروں کے حقوق کی باتیں کی جاتی ہیں ، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے ، ہم دردی کرنے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کی تلقین کی جاتی ہے – لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جو لوگ یہ دن منانے میں پیش پیش رہتے ہیں وہ دوسری طرف بے شمار انسانوں کو معذور بنانے میں بھی پیچھے نہیں رہتے – اس کی نمایاں مثال ان دنوں فلسطین پر اسرائیل کی بے تحاشا بم باری ہے – دو مہینے ہونے کو ہیں ، 15 ہزار سے زائد افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں ، جن میں اکثریت معصوم بچوں اور عفّت مآب خواتین کی ہیں اور زخمی اور معذور ہوجانے والوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے –
دنیا کے تمام مذاہب میں معذوروں سے ہم دردی اور ان کی مدد کی تلقین کی گئی ہے اور ان کی انسانیت کا احترام کرنے کو کہا گیا ہے – اسلام اس معاملے میں سب سے آگے ہے – اس نے معذور افراد کو دوسرے صحت مند انسانوں کی طرح عزّت و احترام کا مقام دیا ہے اور ان کی معذوری کی رعایت کرتے ہوئے انہیں سہولیات فراہم کی ہیں – ذیل میں اس کی کچھ تفصیل پیش کی جاتی ہے :
اسلامی عبادات میں نماز کی بہت اہمیت ہے – اس میں قیام ، رکوع اور سجدہ ہوتا ہے – اجازت ہے کہ کوئی شخص کھڑا نہ ہو سکے تو بیٹھ کر نماز پڑھ لے ، زمین پر نہ بیٹھ سکے تو کرسی استعمال کرلے – بیٹھ بھی نہ سکے تو لیٹ کر پڑھ لے – نماز کے لیے وضو شرط ہے – وضو نہ کرسکے تو تیمم کرلے – ماہ رمضان میں روزے فرض کیے گئے ہیں – بیماری یا سفر کی وجہ سے کوئی شخص اس ماہ میں روزہ نہ رکھ سکے تو اجازت دی گئی کہ حسبِ سہولت بعد میں رکھ لے – ( البقرۃ : 128) حج میں ‘حلق’ (سر منڈوانے) کا حکم دیا گیا ہے – اگر کوئی مریض ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو تو فدیہ کی اجازت دی گئی ہے – (البقرۃ : 96) اسلام کے غلبے اور دشمنانِ دین کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاد کا حکم دیا گیا ہے ، لیکن معذوروں (اندھے ، لنگڑے ، مریض) کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے – (الفتح : 17)
اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے ہر انسان کو عزّت و احترام کا مقام عطا کیا ہے ، چاہے وہ صحت مند ہو یا معذور – (التین : 4 ، الإسراء : 70) اس نے کسی بھی انسان کی توہین اور دل آزاری کرنے سے سختی سے منع کیا ہے – ( الحجرات : 11 – 13) حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینا تھے – ایک مرتبہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے – اس وقت آپ کی مجلس میں بڑے بڑے سردار موجود تھے اور آپ ان کے سامنے دین پیش کررہے تھے ، اس لیے آپ نے ابن ام مکتوم کی طرف توجہ نہیں کی ، یہ سوچ کر کہ ان سے بعد میں بات کرلیں گے – اس پر قرآن مجید کی آیات نازل ہوئیں جن میں تنبیہ کی گئی کہ نابینا تربیت و تزکیہ کے لیے جب حاضر ہوا تھا اسی وقت اس کی طرف توجہ کی جانی چاہیے تھی –
اسلام میں معذوری کی وجہ سے کسی شخص کی قدر و منزلت میں کمی نہیں ہوتی ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم کے نابینا ہونے کے باوجود اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں مؤذن مقرر کیا تھا – آپ ان کا بہت احترام کرتے تھے ، چنانچہ جب کسی غزوہ میں یا کسی اور ضرورت سے مدینہ سے باہر جاتے تو انہیں اپنا جانشین بنا جاتے – اس عرصے میں وہ مسجد نبوی میں امامت کرتے اور تمام مسلمان ان کی اقتدا میں نماز ادا کرتے –
اسلام میں معذوروں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی تلقین کی گئی ہے – چنانچہ اہل ایمان کے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں ان میں سے ایک وصف یہ ہے کہ وہ اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان لوگوں پر جو دستِ سوال دراز کرتے ہیں اور ان پر بھی جو ضرورت مند ہونے کے باوجود کسی کے سامنے اظہار نہیں کرتے – ( المعارج : 24) معذوروں ( نابینا ، لنگڑے ، مریض) کو اجازت دی گئی کہ وہ وقتِ ضرورت بغیر کسی شرم اور جھجھک کے اپنے قریبی رشتے داروں کے گھروں میں کھانا کھاسکتے ہیں – ( النور : 61)
خلیفۂ دوم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے معذوروں کا وظیفہ بیت المال سے مقرر کردیا تھا – ایک مجلس میں انھوں نے دیکھا کہ ایک شخص بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا ہے – انھوں نے اسے ٹوکا تو اس نے جواب دیا :” ایک غزوہ میں میرا دایاں ہاتھ کٹ گیا تھا – “ یہ سن کر وہ بہت متاثر ہوئے اور اس کا بیت المال سے وظیفہ مقرر کردیا – ایک مرتبہ انھوں نے ایک بوڑھے یہودی کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا – دریافت کرنے پر اس نے جواب دیا :” غربت کی وجہ سے اور جزیہ ادا کرنے کے لیے بھیک مانگنا پڑ رہا ہے – “ آپ اسے اپنے ساتھ بیت المال لے گئے ، اسے ضروریات کی چیزیں دیں اور اس کا مستقل وظیفہ مقرر کردیا –
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ اسلام نے معذوروں کی انسانیت کا احترام کیا ہے ، دوسروں کو ان کے ساتھ ہم دردی کرنے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کی تلقین کی ہے اور ریاست کو بھی پابند کیا ہے کہ وہ معذوروں کو نظر انداز نہ کرے اور ان کے بنیادی حقوق کا تحفّظ کرے –