نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکريم أما بعد! فأعوذ باللہ من الشيطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم،اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ، صدق اللہ العظیم.
اسلام امن و سلامتی کا دین ہے جو فساد اور دہشت گردی کو مٹانے آیا ہے۔ دنیا میں اس وقت جو فساد بپا ہے، اس کا علاج اسلام کے سوا کسی اور نظریے میں نہیں۔ بدقسمتی سے مغرب نے اسلام کو نشانہ بنایا ہے اور اس کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے، اس مہم کا جواب ضروری ہے۔ یہ جواب فکری بھی ہونا چاہیے اور عملی بھی۔ ذیل کی سطور میں ہم بدلائل یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ اسلام؛ امن ہے اور کفر؛ فساد و دہشت گردی ہے!
اسلام عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ ”س ل م“ ہے۔ اس کے معنی اطاعت اور سپردگی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اسلام کے معنی امن و سلامتی کے بھی ہیں۔(مفردات القرآن: مادّہ س ل م ) لہٰذا مسلمان جہاں اطاعت ِالٰہی کا نمونہ ہے، وہاں امن و سلامتی کا پیکر بھی ہے۔ حضورِ اکرم ﷺسے مسلمان کی تعریف کے سلسلے میں جو کچھ منقول ہے، اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے :
قرآنِ مجید نے اس مادّہ سے سَلْم اور سلام کے الفاظ امن، صلح اور آشتی کے معنوں میں استعمال کیے ہیں،مثلاً فرمایا: ﴿وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَح لَهَا وَ تَوَکَّلْ عَلَی اللّٰهِ اِنَّه هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾
”اگریہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہو جائو اور اللہ پر بھروسا کرو کچھ شک نہیں کہ وہ سنتا اور جانتا ہے۔“(الانفال: ۶۱)
یہ اور اس طرح کی بہت سی آیات سے واضح ہوتا ہے کہ سلامتی و امن اسلام کا بنیادی نظریہ و عمل ہے۔ اسلام اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری اور دنیا میں امن و سلامتی کا پیغام ہے۔اسلام کے مقابلے میں کفر کو دیکھیں تو وہ اوّل تو اللہ کی معصیت ہے، جیسا کہ سورہ مزمل، سورہ احزاب اور سورہ دہر کی مختلف آیات سے واضح ہے۔
ثانیاً:کفر کو اللہ تعالیٰ دنیا میں فساد کی جڑ قرار دیتا ہے، چنانچہ بحروبر میں فساد پھیلنے کی وجہ قرآن کی نظر میں لوگوں کے برے اعمال ہیں۔( الروم: ۴۱) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایسے شخص کی مذمت بھی بیان کی جس کی ظاہری بات چیت تو ہمیں دلکش معلوم ہوتی ہے، لیکن درحقیقت اس کا مقصد دنیا میں فساد وفتنہ پھیلانا ہے۔( البقرۃ: ۲۰۴، ۲۰۵)
بنی اسرائیل کے بارے میں قرآنِ کریم فرماتا ہے : ﴿مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِيْلَ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا﴾
(المائدۃ: ۳۲) ”اس قتل کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر حکم نازل کیا کہ جو شخص کسی کو ناحق قتل کرے گا بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں فساد کرنے کی سزا دی جائے، اس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا۔ اور جو اس کی زندگی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگی کا موجب ہوا۔“
امن کو تباہ کرنا اور انسانی زندگی سے کھیلنا فساد ہے۔ قرآن نے اس کی سزا تجویز کی ہے :
﴿اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ (المائدۃ : ۳۳) ”جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں ان کی یہ سزا ہے کہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور ایک طرف کے پائوں کاٹ دیئے جائیں یا ملک سے نکال دیئے جائیں۔ یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔“
اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ اس کی ایک شہادت تو ابھی قرآن کی آیات میں پیش کی گئی۔ دوسری شہادت نبی کریمﷺ کی سیرت وارشادات میں بھی موجود ہے :
مکہ مکرمہ میں آپؐ تیرہ برس تک اپنے حسن بیان اور حسن عمل سے مشرکین مکہ کو اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم تھا : ﴿اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ﴾ (النحل: ۱۲۵) ”اے پیغمبرؐ! لوگوں کو اپنے ربّ کی راہ کی طرف حکمت سے اور اچھے طریقے پر بلائو اور نصیحت کرو اور ان سے بحث و نزاع کرو تو ایسے طریقہ پر جو حسن و خوبی کا طریقہ ہو۔“
اس دوران تشدد آمیز کارروائیاں مشرکین کی طرف سے ہوئیں۔ آپؐ نے اور آپؐ کے ساتھیوں نے ان مخالفتوں اور ایذارسانیوں کا صبر و تحمل سے مقابلہ کیا۔ ایک مرحلہ پر آپؐ نے کہا: لکم دینکم ولي دین(الکافرون:۶) ”تمہارا دین تمہارے ساتھ اور میرے لیے میرا دین“مکہ مکرمہ میں دین حق کے لیے ان کاوشوں اور مشرکین کے متشددانہ رویہ پر استقامت کو قرآن نے جہاد سے تعبیر کیا ہے۔
مکہ کے تیرہ برس پرامن جدوجہد کا دور ہے۔ تکالیف، اذیتیں، تحقیر و تذلیل حتیٰ کہ بعض ساتھیوں کا قتل بھی اس پرامن جدوجہد کو تصادم کی راہ پر نہ چلا سکا۔ تا آنکہ آپ اپنے ساتھیوں سمیت مکہ سے ہجرت کر گئے۔ ہجرت کے بعد بھی کفار نے تشدد آمیز رویوں کو ترک نہ کیا اور مسلمانوں پر مسلسل دبائو جاری رکھا۔ اس تشدد کے جواب میں مسلمانوں کو مناسب جواب دینے اور میدانِ جنگ میں مقابلے کی اجازت دی گئی لیکن اس میں بھی اعتدال و توازن کو برقرار رکھنے پر زور دیا گیا : ﴿وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰهَ لَایُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ﴾ ”جو تم سے لڑائی کر رہے ہیں، تمہیں اللہ کی راہ میں ان سے لڑنا چاہیے مگر زیادتی نہ کرنا۔ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا“۔(البقرۃ: ۱۹۰)
سورۃ الحج کی آیت ۳۹ بھی قتال کی اجازت پر مبنی ہے، اس میں واضح طور پر یہ دکھائی دیتا ہے کہ کفار کی جنگی سرگرمیوں کے مقابلے میں یہ اجازت دی گئی۔ آیت کے الفاظ ہیں :
﴿اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرٌ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللہُ وَلَوْ لَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللہِ کَثِیْرًا وَلَیَنْصُرَنَّ اللہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ﴾
(الحج: ۳۹،۴۰) ”جن مسلمانوں سے لڑائی کی جاتی ہے، ان کو اجازت ہے کہ وہ بھی لڑیں، کیونکہ ان پر ظلم ہو رہا ہے ،اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں سے اس بنا پر ناحق نکال دیئے گئے کہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے۔ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو صومعے، گرجے، عبادت خانے اور مسجدیں جن میں اللہ کا بہت سا ذکر کیا جا رہا ہے، گرائی جا چکی ہوتیں۔ جو شخص اللہ کی مدد کرتا ہے اللہ اس کی ضرور مدد کرتا ہے۔ بے شک اللہ توانا اور غالب ہے۔“
اس مسلح تصادم میں بھی صلح اور امن و آشتی کو پیش نظر رکھا۔ اگر دشمن صلح کی راہ اختیار کرے تو مسلمانوں کوبھی اسے اختیار کرنے سے گریز نہ کرنا چاہیے۔ فرمایا:
﴿وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَح ْ لَهَا وَ تَوَکَّلْ عَلَی اللّٰهِ اِنَّه هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾ ”اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہو جائو اور اللہ پر بھروسا کرو کچھ شک نہیں کہ وہ سب کچھ سنتا جانتا ہے۔“ (الانفال)
جو غیر مسلم مسلمانوں کے خلاف جارحانہ رویہ نہیں رکھتے، ان سے حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ فرمایا:﴿ لَا یَنْهٰکُمُ اللہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْھِمْ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ﴾(الممتحنہ: ۸) ”جن لوگوں نے تم سے دین کے لیے جنگ نہیں کی اور تم کو گھروں سے نہیں نکالا، اللہ اس سے نہیں روکتا کہ تم ان کے ساتھ احسان اور بھلائی کرو اور انصاف کے ساتھ پیش آئوکیونکہ اللہ عدل کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔“
حضورِاکرمؐ کی جنگی سرگرمیوں کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جنگیں کفار کے جارحانہ رویوں کا جواب تھا۔ مشرکین مکہ کی جارحیت تو واضح ہے۔ جہاں تک یہودیوں اور عیسائیوں کا تعلق ہے تویہاں بھی حضورِ اکرمؐ کے اقدامات ان کی جارحانہ کارروائیوں اور سازشوں کی وجہ سے تھے۔ شام کی سرحد پر واقع علاقوں میں عیسائیوں کے جارحانہ رویوں کے جواب میں ہی ۸ ہجری میں ایک فوج بھیجی گئی۔ حضورِ اکرمؐ نے حارث بن عمیر ؓ کو دعوتِ اسلام کا خط دے کر شرحبیل بن عمر غسَّانی کے پاس بھیجا تھا۔ اس نے حارث بن عمیر ؓ کو قتل کرا دیا۔ اس ظالمانہ قتل نے آپ کو جنگ پر مجبور کر دیا۔
اس طرح آپ نے ایک فوج موتہ بھیجی۔ اس واقعہ کو ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ شام میں فوجیں جمع ہونے لگیں اور مدینہ پر حملے کی خبریں پھیلنے لگیں۔ حضورِ اکرمؐ خود دفاع کے لیے نکلے ،یہی اقدام ہے جس کا ذکر سورۃ توبہ میں ہے۔ اور یہی غزوئہ تبوک کے نام سے مشہور ہے۔ حضور اکرمؐ کی سیرت قیامِ امن کی ضامن ہے۔ آپ نے فتنہ و فساد کو ختم کر کے امن کا شاندار اُسوہ چھوڑا ہے۔ آپ نے امن کا جو نظام متعارف کرایا تھا، اس کے بارے میں فرمایا : «إن الله ناصرکم ومعطیکم حتی تسیر الظعینة فیما بین یثرب والحیرة أو أکثر ما تخاف علی مطیتها السرق» ”اللہ تعالیٰ تمہاری ایسی مدد کرنے والا اور عطا کرنے والا ہے کہ ایک ہودج نشین عورت مدینہ اور حیرہ کے درمیان یا اس سے بھی دور سے تنہا طویل سفر کرے گی اور اسے چوروں اور ڈاکوئوں کا کوئی خطرہ نہ ہو گا۔“
آپ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا: «فان دماء کم وأموالکم وأعراضکم علیکم حرام کحرمة یومکم هذا في بلدکم هذا وفي شهرکم هذا فأعادها مراراً»
(بخاری،کتاب الحج باب الخطبہ:۲۸۰) ”بلاشبہ تمہارے خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تمہارے آپس میں اسی طرح قابل احترام ہیں، جیسے تمہارے یہ دن تمہارے اس شہر میں اس مہینے کے اندر۔ پھر آپ نے اسے بار بار دہرایا۔“
مسلم اورمؤمن کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے کسی شخص کو نقصان نہیں پہنچتا اور وہ امن کا ضامن ہوتا ہے۔ امام ترمذیؒ نے حضورِ اکرمؐ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے :
عن أبی هریرة قال: قال رسول اﷲ:«المسلم من سلم المسلمون من لسانه ویده والمؤمن من أمنه الناس علی دمائهم وأموالهم» (ترمذی،کتاب الایمان: ۶۸۶) ”ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ ہیں اور مؤمن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جانوں مالوں کو مامون جانیں۔“
آنجنابؐ کے جانشینوں نے امن و سلامتی کے اس مشن کو جاری رکھا اور دنیا کو انوکھی مثالیں پیش کیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے خلافت سنبھالنے کے بعد جو خطبہ دیا، وہ اس مشن کے فروغ کی تابندہ مثال ہے۔ آپ نے کہا : «اَیُّها النَّاسُ قَدْ وُلیْتُ عَلَیْکُمْ وَلَسَتُ بِخَیرِکُم اَنَا مُتَّبِعُ وَلَسْتُ بِمْبتَدِعٍ فَانْ اَحْسَنْتُ فَاَعِیْنُونِی وَاِنْ زُغْتُ فَقَوَّمُونِی، واِنَّ أقوٰکُم عِنْدي الضَّعِیفُ حَتَّی آخُذَ لَه بِحَقَّهِ وَاِنَّ اَضْعَفَکَم عِنْدِي القَوِیُّ حَتَیٰ آخُذَ مِنْهُ الحَقَّ إن شاء اﷲ»
(ابن سعد،۳، قسم اوّل: ۱۲۹ والبدایہ والنہایہ) ”لوگو! مجھے تمہارے معاملات کا نگران بنایا گیا ہے، حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ میں پیروی کرنے والا ہوں، جدت طراز نہیں ہوں۔ اگر میں ٹھیک طرح معاملات انجام دوں تو میری مدد کرو اور اگر میں بے راہ روی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کرو، تم میں سے جو قوی ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے جب تک میں اس سے حق وصول نہ کر لوں اور جو تم میں سب سے کمزور ہے وہ میرے یہاں قوی ہے جب تک میں اسے اس کا حق نہ دلا دوں۔“
سیدنا عمرؓ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جن اہم باتوں کی وصیت فرمائی، ان میں ایک یہ بھی تھی : «وَاُوصِیه بذِمَّة اﷲِ وَذِمَّةِ رسول اﷲ ! اَن یُوفی لَهم بِعَهْدِهم وَاَن یُقاتل من وَرَائهم وَ اَن لَا یُکَلَّفُوا فَوْقَ طاقهم» (بخاری: کتاب الجنائز، حدیث۲۲۳) ”اپنے بعد میں آنے والے خلیفہ کو میں ان غیر مسلموں کے حق میں وصیت کرتا ہوں کہ ان کے ساتھ جو معاہدہ ہے پورا کیا جائے اور ان کی جان و مال کی حفاظت کیلئے جنگ کی ضرورت پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کیا جائے اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالا جائے۔“
خلافت ِراشدہ جو حضورِ اکرمؐ کی صحیح جانشین تھی، ایسا پرامن ماحول تخلیق کرنے میں کامیاب ہوئی کہ اسے عالمی تاریخ میں مثالی حیثیت دی گئی۔ مشہور مغربی مؤرخ ڈاکٹر گستاولی بان نے خلافت ِراشدہ کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ،وہ تاریخ کی شہادت ہے۔ لکھتا ہے : ”خلفاء راشدینؓ جس ملکی خوش تدبیری کو کام میں لائے وہ ان کی سپہ گری اور اس فن حرب سے مافوق تھی جسے انہوں نے آسانی سے سیکھ لیا تھا۔ شروع ہی سے انہیں ایسی اقوام سے کام پڑا جن پر سالہا سال سے مختلف حکومتوں نے نہایت بے رحمی سے ظلم کر رکھا تھا اور اس مظلوم رعایا نے نہایت خوشی کے ساتھ ان نئے ملک گیروں کو قبول کر لیا جن کی حکومت میں اُنہیں بہت زیادہ آسائش تھی۔ مفتوح اقوام کا طریقہ عمل کیا ہونا چاہیے، نہایت اور صریح طور پر مقرر کر دیا گیا اور خلفاء اسلام نے ملکی اغراض کے مقابل میں ہرگز بزورِ شمشیر دین حق کو پھیلانے کی کوشش نہیں کی،بلکہ بعوض اس کے کہ وہ بجبر اپنے دین کی اشاعت کرتے، وہ صاف طور پر ظاہر کر دیتے تھے کہ اقوامِ مفتوحہ کے مذاہب و رسوم اور اوضاع کی پوری طرح سے حرمت کی جائے گی اور اس آزادی [وتحفظ ِجان،مال وعزت]کے معاوضے میں وہ ان سے ایک بہت خفیف سا خراج لیتے تھے جو ان مطلوبات کے مقابل میں جو ان اقوام کے پرانے حکام ان سے وصول کیا کرتے تھے، نہایت ہی کم تھا۔“ (تمدنِ عرب ،ترجمہ بلگرامی:ص ۱۳۱)
یہی مصنف سیدنا عمرؓ کے سلوک کا تذکرہ کرتا ہے جو انہوں نے اہل بیت المقدس سے کیا:
”بیت المقدس کی فتح کے وقت حضرت عمرؓ کا اخلاق ہم پر ثابت کرتا ہے کہ ملک گیرانِ اسلام، اقوامِ مفتوحہ کے ساتھ کیا نرم سلوک کرتے تھے ، اور یہ سلوک ان مدارات کے مقابل میں جو صلیبیوں نے اس شہر کے باشندوں سے کئی صدی بعد کی، نہایت حیرت انگیز معلوم ہوتا ہے۔ اس وقت حضرت عمر ؓ نے منادی کرادی کہ میں ذمہ دار ہوں کہ باشندگانِ شہر کے مال اور ان کی عبادت گاہوں کی حرمت کی جائے گی اور مسلمان عیسائی گرجوں میں نماز پڑھنے کے مجاز نہ ہوں گے۔“ (ایضاً) وہ مزید لکھتا ہے:
جو سلوک عمروبن العاصؓ نے مصریوں کے ساتھ کیا، وہ اس سے کم نہ تھا۔ اس نے باشندگانِ مصر سے وعدہ کیا کہ پوری مذہب کی آزادی ، پوراانصاف، بلارورعایت اور جائیداد کی ملکیت کے پورے حقوق دیئے جائیں گے۔ اور ان ظالمانہ اور غیر محدود مطالبوں کے عوض میں جو شہنشاہِ یونان ان سے وصول کرتے تھے، صرف ایک معمولی سالانہ جزیہ لیا جائے گا جس کی مقدار فی کس دس روپے تھی۔ (ایضاً: ص ۱۳۲)
خلفاء اسلام اپنے معاہدوں پر کس قدر مضبوطی سے قائم تھے اور عام لوگوں سے کتنا عادلانہ رویہ اختیار کیا ، اس کا اندازہ اسی مصنف کے الفاظ سے کریں وہ لکھتا ہے:
”عمالِ اسلام اپنے عہد پر اس درجہ مستحکم رہے اور انہوں نے اس رعایا کے ساتھ جو ہر روز شہنشاہِ قسطنطنیہ کے عاملوں کے ہاتھوں سے انواع و اقسام کے مظالم سہا کرتی تھی، اس طرح کا عمدہ برتائو کیا کہ سارے ملک نے بکشادہ پیشانی دین اسلام اور عربی زبان کو قبول کر لیا۔ میں باربار کہتا ہوں کہ یہ ایسا نتیجہ ہے جو ہرگز بزورِ شمشیر نہیں حاصل ہو سکتا۔“
اسلام دین امن و سلامتی ہے لیکن اسے دفاع کا حق اللہ پاک نے دیا ہے۔ اگر کفر اسلام کو مٹانے پر تل جائے تو مسلمانوں کو اجازت ہے کہ پوری قوت کے ساتھ دفاع کریں۔ اس دفاع میں وہ حق پر ہیں تو اللہ کی نصرت ان کے ساتھ شامل ہو گی۔ اس وقت مسلمان پوری دنیا میں مظلوم ہیں۔ مختلف کافر قومیں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑی ہیں۔ ان کی بستیوں کو تباہ کیا جا رہا ہے، ان کے وسائل کو لوٹاجا رہا ہے، ان کے بچوں اور عورتوں کو مارا جا رہا ہے، ان کے جوانوں اور ان کے بوڑھوں کو قتل کیا جا رہا ہے اور اُلٹا عالمی سطح پر ان کے خلاف دہشت گردی اور تشدد کا الزام لگایا جا رہا ہے تا کہ مسلمان دفاع نہ کر سکیں اور کافروں کے مظالم کا شکار رہیں۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کے اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ کافروں کی سازشوں کو بے نقاب کریں اور اسلام کے پیغامِ امن کو عام کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ کفر فساد ہے اور کافر قوموں نے ہمیشہ فسا بپا کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ قرآن نے یہود ونصاریٰ کی سرگرمیوں کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے : ﴿وَاَلْقَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَوَاةَ وَالْبَغْضَآءَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ کُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَھَا اللہُ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا وَاللہُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ﴾ (المائدۃ: ۶۴) ”اور ہم نے ان میں باہم قیامت تک عداوت اور بغض ڈال دیا۔ جب کبھی لڑائی کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کو فرو کر دیتے ہیں۔ اور یہ ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو محبوب نہیں رکھتے۔“
مسلمانوں پرجس طرح عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے، اس کے نتیجے میں نا امیدی اور مایوسی کی ایک کیفیت پیداہوئی ہے۔ مسلمانوں کے بعض نوجوانوں نے کفر کے اجتماعی تشدد کے جواب میں محدود اور انفرادی تشدد کی کارروائیاں شروع کی ہیں، اس پر سارا مغرب چیخ اٹھا ہے اور اس انفرادی جوابی تشدد کو دہشت گردی کا نام دے کر مزید اجتماعی اور منظم دہشت گردی پر اُتر آیا ہے۔ چونکہ اس کے پاس اسلحہ اور میڈیا کی طاقت ہے، اس لیے مسلمانوں کو تو مسلمہ دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے اور ان کا خون مباح سمجھا جا رہا ہے لیکن مغرب و مشرق کی طاقتور قومیں جو تخریب کاری کر رہی ہیں، اسے دہشت گردی کا نام نہیں دیا جاتا۔
چونکہ مسلمانوں کا اپنا نظامِ اقدار ہے اور وہ اس پر مطمئن ہیں تو انہیں بزور اس نظام کو ترک کرنے پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہے؟ مسلمان مغرب سے صرف یہ چاہتے ہیں کہ وہ ان کے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ اگر مسلمان اپنے دین کے مطابق زندگی گذارنا چاہتے ہیں تو مغرب کو اس سے کیا تکلیف ہے؟ مشکل یہ ہے کہ مغرب پوری دنیا کو اپنا کلچر دینے پر اصرار کر رہا ہے اور جو شخص، گروہ یا ملک ایسا کرنے میں پس و پیش کرتا ہے تو اس پر انتہا پسندی کا لیبل لگا کر اس کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہی وہ فساد ہے جسے قرآن نے خشکی اور تری کا فساد قرار دیا ہے :
﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ﴾ (الروم: ۴۱) ”خشکی اور تری میںلوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے، عجب نہیں کہ وہ باز آ جائیں۔“
اسلام اگرامن و سلامتی کا دین ہے تو کیا پرامن رہنے کا مطلب ظلم برداشت کرنا اور دہشت گردی کے مقابلے میں جاں سپرد کرنا ہے؟ ہرگز نہیں! اسلام امن و سلامتی کا دین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو ظلم نہیں کرنا چاہیے، ناحق خون نہیں بہانا چاہیے، بے گناہ انسانوں کی جان و مال کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے، کوئی ایسا اقدام نہیں کرنا چاہیے جو ناجائز تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ جہاں تک ظالم کے ہاتھ کو روکنا اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا تعلق ہے تو امن و سلامتی کا یہ دین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ظالم کا ہاتھ روک دیا جائے اور دہشت گردی کا مقابلہ کیا جائے؛ اسی کا نام جہاد ہے۔
اسلام کے جامع اور منصفانہ نظام پر عمل ہر دور کی ضرورت ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ہر قسم کے تشدد سے بچتے ہوئے اسلام کی امن وآشتی کی تعلیمات پر عمل کریں اور قرآن کے پیغام کو دنیا میں عام کرنے کی کوشش کریں، دعا ہے کہ اللہ تعالی تمام اہل ایمان کو صبر واستقامت اور اسلامی شریعت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین