ملک بھر میں کئی تعلیمی اداروں میں حجاب کے نام پر مسلم طالبات کو ہراساں کیا گیا۔ کبھی انہیں امتحان سے محروم کیا گیا تو کبھی انہیں تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا گیا۔
حیدرآباد: گوا کے ایک اسکول کے پرنسپل کو انتظامیہ کی جانب سے اس وقت معطل کردیا گیا جب ہندو تنظیموں نے الزام عائد کیا کہ اس پرنسپل نے طالبات کو مسجد جانے کی اجازت دی، جہاں انہیں مبینہ طور پر حجاب پہننے پر مجبور کیا گیا۔ ڈائرکٹر، ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن، شیلیش زنگاڈے نے کہا کہ انہوں نے ہائیر سیکنڈری اسکول کی انتظامیہ سے اس واقعہ پر وضاحت طلب کی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک مسلم تنظیم کی جانب سے مبینہ طور پر ایک تعلیمی ورکشاپ منعقد کی گئی تھی جس میں تنظیم نے اسکول سے رابطہ کیا کہ وہ اپنے طلبہ کو اس تعلیمی ورکشاپ میں بھیجے۔ اسکول کی جانب سے طلبہ کو اس تعلیمی ورکشاپ میں بھیجا گیا تھا۔
اسکول میں شکایت کرنے آئے ہوئے ایک شخص نے پرنسپل کی معطلی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ "طلباء سے بات چیت کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ چار لڑکیوں کو حجاب پہننے کے لیے کہا گیا تھا، جس پر ان لڑکیوں نے انکار کر دیا تھا۔ اس شخص نے مزید کہا کہ ”آٹھ مولانا تھے، جنہوں نے اپنے مذہب کے بارے میں طلبہ کو معلومات فراہم کی۔ انھوں نے طلبہ کا برین واش کرنے کی بھی کوشش کی”۔
کیشو اسمرتی ہائر سیکنڈری اسکول کے چیئرمین پانڈورنگ کورگانوکر نے کہا کہ اس معاملے پر پرنسپل شنکر گاونکر کو معطل کر دیا گیا ہے۔ اسکول کے چیئرمین نے مزید کہا کہ "ہم نے ابتدائی تحقیقات کی ہے، ہمیں ایک مسلم تنظیم کی جانب سے ایک تعلیمی ورکشاپ کے بارے میں ایک خط موصول ہوا تھا۔ ورکشاپ میں ہمارے 22 طلباء نے شرکت کی جن میں دو ہندو اور دو عیسائی لڑکیاں شامل تھیں۔ اس تعلیمی ورکشاپ میں گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری اسکول کی طالبات بھی تھیں۔
اسکول کے چیئرمین نے کہا کہ ” انہیں (طالبات) کو اسکارف پہننے پر مجبور نہیں کیا گیا تھا، لیکن اساتذہ اور طلباء رضاکارانہ طور پر اسے پہننا چاہتے تھے۔ تنظیم نے ‘مسجد سب کے لیے کھلی ہے’ کے نام سے ایک پروگرام منعقد کیا تھا۔ یہ صرف ایک تعلیمی ورکشاپ تھی، جس میں طلباء نے شرکت کی”۔ اسکول کے چیئرمین نے بجرنگ دل اور دیگر ہندو تنظیموں سے معافی مانگی، جن کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ کورگاؤںکر نے کہا کہ انتظامیہ جلد ہی محکمہ تعلیم کو اپنی وضاحت پیش کرے گی۔