ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف جرائم اور نفرت آمیز واقعات کے بعد اب تعلیمی اداروں میں میں مسلمانوں سے نفرت دکھائی دینے لگی ہے۔ گجرات کے مہسانہ میں ایک مسلم ٹاپر لڑکی کو ایوارڈ دینے سے انکار کردیا گیا ہے۔ جبکہ دوسری ٹاپر کو ایوارڈ دیا گیا۔
مہسانہ: امتیازی سلوک و مذہبی بنیاد پر تعصب تعلیمی اداروں میں داخل ہوچکا ہے گجرات کے ایک اسکول کی طالبہ ارناز بانو کے والد نے اسکول پر مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا الزام عائد کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسکول نے ٹاپرز کو ایوارڈ دیا لیکن ان کی بیٹی کو سب سے ٹاپر ہونے کے باوجود بھی مسلمان ہونے کی وجہ اس اعزاز سے محروم رکھا گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق گجرات کے ایک اسکول میں 77ویں یوم آزادی کے موقع پر دسویں اور بارہویں جماعت کے ٹاپرز کو اعزاز دیا جانا تھا، اسکول کی ایک طالبہ ارناز بانو اعزاز پانے کے لئے بہت پرجوش تھی کیونکہ وہ اسٹیج پر سب سے پہلے بلائے جانے والی تھیں۔ ارناز بانو نے 87 فیصد نمبروں کے ساتھ دسویں جماعت میں ٹاپ کیا ہے۔ تاہم ارناز بانو کو اسٹیج پر نہیں بلایا گیا اور نہ ہی کو ایوارڈ دیا گیا۔
یہ معاملہ مہسانہ ضلع کے لوناوا گاؤں کے کے ٹی پٹیل میموریل اسکول کا ہے۔ جہاں مسلم طالبہ کے ساتھ مبینہ طور پر مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا گیا اور ٹاپر ارناز بانو کو ٹاپ کرنے کے باوجود بھی اعزاز نہیں نوازا گیا۔
میڈیا کے مطابق ارناز بانو روتی ہوئی گھر لوٹی تو اس کے والد سنور خان نے صورتحال کا پتہ کیا "ان کاکہنا ہے کہ اس نے ہمیں بتایا کہ اسے جو انعام ملنا چاہیے تھا وہ اس بچے کو دیا گیا جس نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ میں وضاحت طلب کرنے اسکول گیا اور اساتذہ سے ملا، لیکن انہوں نے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ تاہم انہوں نے یقین دلایا کہ انعام 26 جنوری کو دیا جائے گا۔ لیکن پھر بھی میرا ایک ہی سوال ہے کہ 15 اگست کو کیوں نہیں دیا گیا؟
اسکول کی پرنسپل نے کہا کہ "ہمارے اسکول کی کسی بھی قسم کے امتیاز کے خلاف سخت پالیسی ہے۔ یہ ایوارڈ 26 جنوری کو اہل طالب علم کو دیا جائے گا۔ چونکہ وہ 15 اگست کو چھٹی پر تھیں اس لیے انہیں یہ ایوارڈ نہیں دیا جا سکا۔ سنور خان نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ پرنسپل جو بھی دعویٰ کریں لیکن میری بیٹی اس دن سکول گئی تھی۔ اسکول میں سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگائے گئے ہیں، اگر کوئی تفتیش کرنا چاہتا ہے تو کرے۔