بابری مسجد رام جنم بھومی حق ملکیت مقدمہ ختم ہوتے ہی اکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے والوں نے ہندوستان کے مختلف صوبوں میں موجود صدیوں پرانی مسجدوں، خانقاہوں، عیدگاہوں، مزارات پر اپنا دعوی ٹھوکنا شروع کردیا ہے۔ ایک جانب جہاں انہوں نے پلیس آف ورشپ قانون کو غیر آئینی قرار دینے کی سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے وہیں نچلی عدالتوں (دیوانی عدالتوں) میں سول سوٹ داخل کرکے مسلم عبادت گاہوں کو مسلمانوں کے استعمال سے روکنے کے لیے عبوری حکم نامے (انٹریم آرڈر) حاصل کیے جارہے ہیں۔ مبینہ طور پر نچلی عدالتیں قانون کی باریکیوں کو جانے بغیر ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کے حق میں فیصلے دیکر ان کا حوصلہ بڑھا رہی ہیں۔
گیان واپی مسجد کے بعد اب مہاراشٹر کے ایرونڈول شہر کی قدیم جامع مسجد کو نشانہ بنایا گیا، اس مرتبہ پانڈو واڑا سنگھرش سمیتی نامی تنظیم نے علاؤالدین خلجی کے زمانے کی اس قدیم مسجد کے خلاف ضلع کلکٹر کے روبرو یہ شکایت درج کی کہ مسجد ٹرسٹ نے ان کی زمین پر اتی کرمن ( قبضہ) کرلیا ہے اور مسجد میں مدرسہ بھی قائم کیا ہے جو غیر قانونی ہے۔ ضلع کلکٹر امن متل جنہوں نے مسلم فریق بشمول وقف بورڈ کے دلائل کی سماعت کیے بغیر کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 145 / کے تحت عبوری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے مسلمانوں کو مسجد میں پنج وقتہ نماز ادا کرنے سے روک دیا اور ان سے مسجد کی چابی ضبط کیے جانے کا حکم جاری کرتے ہوئے مسجد کے معاملات ریسیور کے سپرد کردیے حالانکہ وقف بورڈ کی دفعہ 85/ کے تحت ضلع کلکٹر کو وقف بورڈ میں رجسٹرڈ کسی بھی پراپرٹی کے تنازعہ کی سماعت کرنے کا حق ہی حاصل نہیں ہے اس کے باوجود تمام قوانین اور عدالت عظمی کے رہنمایانہ اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پانڈوواڑا سنگھرش سمیتی جو غیر رجسٹرڈ تنظیم ہے کی درخواست پر مسجد میں نماز پڑھنے پر پابندی عائد کردی۔
بھلا ہو بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ کے جسٹس آر ایم جوشی کا جنہوں نے ضلع کلکٹر کے فیصلے پر نہ صرف عبوری اسٹے لگایا دیا بلکہ اپنے حکم نامہ میں تحریر کیا کہ ضلع کلکٹر کا فیصلہ بادی النظر میں غیر قانونی لگتا ہے، کلکٹر نے مسجد ٹرسٹ اور وقف بورڈ کو اپنی بات رکھنے کا موقع ہی نہیں دیا نیز ضلع کلکٹر نے لا اینڈ آرڈر کے خراب ہونے کا جو ذکر کیا ہے اس میں کوئی صداقت نہیں ہے کیونکہ اس ضمن میں مقامی پولیس کی ایسی کوئی بھی رپورٹ موصول نہیں ہے۔
خاندیش بالخصوص ایرنڈول کے مسلمان قابل مبارکباد ہیں جنہوں نے کلکٹر کا غیر آئینی فیصلہ آنے کے باوجود صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور ہمارے مشورے پر قانونی چارہ جوئی کی۔ مسجد میں نماز کی ادائیگی روکنے والے فیصلے سے مسلمان بپھر سکتے تھے لیکن مقامی ذمہ داران کی حکمت عملی کا نتیجہ ہائی کورٹ کے فیصلے کی شکل میں ہمارے سامنے آیا۔ حالانکہ مسلما ن جمعہ کی نماز ادا نہیں کرسکے لیکن ان کے صبر و تحمل اور مسجد ٹرسٹیان کی قانونی جدوجہد نے ان کے لیے مسجد کا دروازہ دوبارہ کھول دیا اور ایرنڈول جامع مسجد کو بابری مسجد ہونے سے بچا لیا گیا۔
جلگاؤں ضلع کلکٹر کا حکم ہوتے ہوئے مسجد کے ٹرسٹیان نے جمعیۃ علما مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی اور راقم الحروف سے رابطہ قائم کیا اور قانونی مشورہ طلب کیا۔ٹرسٹیان کو ایک جانب جہاں اورنگ آباد ہائی کورٹ سے فوراً رجوع ہونے کا مشورہ دیا گیا وہیں چیئرمین وقف بورڈ وجاہت مرزا سے رابطہ قائم کرکے ان سے وقف بورڈ کی جانب سے مضبوط پیروی کیے جانے کی بھی گذارش کی گئی۔
وقف بورڈ نے ضلع کلکٹر کے سامنے وقف بورڈ کا موقف رکھا اور ضلع کلکٹر کے عبوری حکم نامہ کی سخت لفظوں میں مخالفت کی اور مسجد کو ٹرسٹیان کے حوالے کیے جانے کی گذارش کی۔ 18/ جولائی کو جس وقت ضلع کلکٹر جلگاؤں کے روبرو سماعت چل رہی تھی اسی وقت اورنگ آباد ہائی کورٹ میں بھی ضلع کلکٹر کے عبوری حکم نامہ پر اسٹے کی بحث مسجد ٹرسٹ کی پیروی کرنے والے وکلا کررہے تھے، اورنگ آباد ہائی کورٹ میں سماعت تقریباً دیڑھ گھنٹہ چلی جس کے بعد معزز جج صاحب نے ضلع کلکٹر کے عبوری حکم نامہ پر دو ہفتوں کے لیے اسٹے لگادیا اور مسجد کی چابی مسجد انتظامیہ کو سونپنے کا حکم دیا۔
اورنگ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آجانے کے باوجود ضلع کلکٹر نے سماعت جاری رکھی اور پھر اپنے فیصلے میں کوئی تبدیلی کیے بغیر شام دیر گئے سماعت 27/ جولائی تک ملتوی کردی۔ ہائی کورٹ سے مسلمانوں کو راحت تو مل گئی لیکن یہ قانونی جنگ طویل ہوسکتی ہے جس کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ عبادت گاہوں کے ٹرسٹیان کو اپنے معاملات درست کرنا ہوں گے، وقف بورڈ، حکومت ریکارڈ میں اندراج، لائٹ بل، نل بل گھر پٹی وغیرہ وقت پر ادا کرتے رہنا چاہیے، انتظامیہ کو اپنے اندرونی تنازعات کو ختم کرنا ہوگا، ٹرسٹیان کے درمیان تنازعات ہونے کی صورت میں اس کا فائدہ دوسرے لوگ اٹھاتے ہیں۔
ایرنڈول جامع مسجد مقدمہ میں پانڈووڑا سنگھرش سمیتی نے قانونی داؤ پیچ کھیلتے ہوئے مسجد ٹرسٹ کی جانب سے اتی کرمن (تجاوز) کیے جانے کا جھوٹا مدعا اٹھاتے ہوئے کلکٹر کے روبرو عرضداشت داخل کی کیونکہ مالکانہ حق کے لیے انہیں سول کورٹ سے رجوع ہونا پڑتا تھا، سنگھرش سمیتی کا منصوبہ یہ دکھائی دیا کہ پہلے بابری مسجد کی طرح مسجد میں نماز ادا کرنے پر پابندی لگائی جائے اور مسجد کی چابی تحصیل دار کے سپرد کرائی جائے اس کے بعد پھر دیگر قانونی الجھنوں میں مسلمانوں کو الجھایا جاسکے۔ سنگھرش سمیتی اپنے ناپاک منصوبے میں کامیاب بھی ہوگئی تھی لیکن اورنگ آباد ہائی کورٹ کی فوری مداخلت نے ان کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔
حالانکہ پلیس آف ورشپ قانون کے مطابق آثار قدیمہ کی عبادت گاہوں کی صورت حال کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کے باوجود نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے ملک کی مختلف عدالتوں میں یکے بعد دیگرے مقدمات داخل کیے جارہے ہیں مسلمانوں کو ہراساں کیا جارہا ہے، ایرنڈول جامع مسجد اس کی تازہ کڑی ہے۔ پلیس آف ورشپ قانون 18 / ستمبر 1991 / کو پاس کیا گیا تھا جس کے مطابق 15/ اگست 1947 / کو ملک آزاد ہونے کے وقت مذہبی مقامات کی جو صورتحال تھی اسے تبدیل نہیں کیاجاسکتا ہے، صرف بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھا کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت تھا۔
لکھنؤ کی تاریخی ٹیلے والی مسجد کے خلاف 2013 میں سول عدالت میں مقدمہ قائم کیا گیا تھا جو آج بھی زیر سماعت ہے۔لارڈ ٹیلیشور مہادیو کی جانب سے ڈاکٹر وی کے سریواستو نے مقدمہ داخل کیا ہے اور دعوی کیا ہے کہ اورنگ زیب کے زمانے میں ہندو عبادت گاہ کو منہدم کرکے ٹیلے والی مسجد کی تعمیر کی گئی تھی لہذا اب اس احاطے کو ان کے حوالے کیا جائے۔ عرض گذار کا دعوی ہے کہ ٹیلے والی مسجد حقیقت میں لکشمن ٹیلا ہے جسے مغلیہ دور سلطنت میں مسجد میں تبدیل کردیا گیا تھا۔
سال 2017 / میں سول جج سینئر ڈویژن نے ہندو فریق کی جانب سے داخل سوٹ کو آرڈر 7/ رول 11/ کے تحت قابل سماعت قرار دیا تھا جس کےخلاف مسلم فریق نے الہ آباد ہائی کورٹ سے رجو ع کیا تھا اور کہا تھا کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کے تحت نچلی عدالت کو اس مقدمہ کی سماعت کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے، الہ آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت ہے۔ٹیلے والی مسجد جیسے درجنوں مقدمات ملک کی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، سب کا تذکرہ کرنے کے لیے کئی صفحات درکار ہوں گے۔ متھرا میں واقع شاہی عیدگاہ مسجد کی تعمیر اورنگ زیب نے 1670, میں کرائی تھی، مسجد کے خلاف سول کورٹ میں 12/ مقدمات زیر سماعت ہیں، مسجد بھگوان کرشنا کی جائے پیدائش پر تعمیر کیے جانے کا ہندوؤں کا دعوی ہے۔
دنیا کے سات قدیم عجوبوں میں سے ایک بیرون ملک ہندوستان کی پہچان سمجھے جانے والے تاج محل پر بھی ہندؤں نے دعویٰ کیا ہے، تاج محل کو ”تیجو مہالے“ کہا گیا جسے شیو مندر کی جگہ بنانے کا مفروضہ چھوڑا گیا، اس ضمن میں بی جے پی ایودھیا یونٹ کے میڈیا انچارج رنجش سنگھ نے الہ آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کرکے محکمہ آثار قدیمہ کی خصوصی ٹیم تشکیل دے کر سروے کرانے کی عدالت سے گذارش کی تھی۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے نہ صرف پٹیشن مسترد کردی تھی بلکہ عرضی گذار کو پھٹکار بھی لگائی تھی۔
اسی طرح اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا نے وزیر اعظم ہند نریندر مودی سے تحریر ی درخواست کی کہ دہلی کی تاریخی جامع مسجد کے نیچے ہندوؤں کے دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں دبی ہیں لہذا مسجد کی کھدائی کرکے انہیں نکالا جائے۔
پلیس آف ورشپ ایکٹ کا موثر نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے مسلم عبادت گاہوں کو لگاتار نشانہ بنایا جارہا ہے اور ملک کی مختلف عدالتوں میں مقدمات قائم کرکے مسلمانوں کو پریشان کیا جارہا ہے جبکہ عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا ہے۔ملک کی مختلف عدالتوں میں ن صرف مقدمات قائم کیے جارہے ہیں بلکہ نچلی عدالتوں نے مختلف مقامات پر اسٹیٹس کو بھی تبدیل کردیا ہے جو پلیس آف ورشپ ایکٹ شکنی ہے، اس طرح کے مقدمات قائم کرکے دو فرقوں کے درمیان منافرت پھیلائی جارہی ہے نیز اس طرح کی بے لگام قانونی چارہ جوئی پر روک لگنا چاہیے۔
بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ مقدمہ میں جمعیۃ علماء ہند اہم فریق تھی جس میں پلیس آف ورشپ قانون کی دفعہ 4/کو قبول کیا گیا ہے اور اس قانون کی آئینی حیثیت کو بھی سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے اس کے باوجود اس قانون کو چیلنج کرکے ملک کا امن ایک با ر پھر خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
پلیس آف ورشپ قانون 1991/ نافذ کرنے کا دو مقصد تھا، پہلا مقصد یہ تھا کہ کسی بھی مذہبی مقام کی تبدیلی کو روکنا اور دوسرا مقصد یہ تھا 1947 / کے وقت عبادت گاہیں جس حال میں تھی اسی حال میں اسے رہنے دینا تھااور ان دونوں مقاصد کو بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ فیصلہ میں عدالت نے مانا ہے۔بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں پانچ ججوں کی آئینی بینچ نے پلیس آف ورشپ قانون کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے جس کے مطابق یہ قانون آئین ہند کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے نیز اس قانون کی دفعہ 4 / عبادت گاہوں کی تبدیلی کو روکتا ہے اور یہ قانون بنا کر حکومت نے آئینی ذمہ داری کو قبول کرتے ہوئے تمام مذاہب کے لوگوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اور یہ قانون بنانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ سیکولر ازم کی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے۔
پلیس آف ورشپ قانون آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرتا ہے اس بات کا ذکر بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں کیا گیا ہے (پیرگراف 99/صفحہ 250) نیز اس قانون کی حفاظت کرنا سیکولرملک کی ذمہ داری ہے اور سیکولر ملک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرے، لیکن حالیہ دنوں میں یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ سیشن عدالتیں، ضلع کلکٹر، ٹریبونل وغیرہ متذکرہ قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مقدمات کی سماعت کررہے ہیں، حال ہی میں چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ نے بھی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ متذکرہ قانون پر سپریم کورٹ کی جانب سے کسی بھی طرح کا اسٹے نہیں ہے اور فریقین کو نچلی عدالتوں کو یہ بتانا چاہیے، حالانکہ چیف جسٹس نے زبانی تبصرہ کیا لیکن انہوں نے اس تبصرہ کا اندراج عدالتی کارروائی میں کرنے سے انکار کردیا۔
ہندو پجاریوں کی تنظیم وشو بھدر پجاری پروہت مہا سنگھ، ڈاکٹر سبرامنیم سوامی و دیگر کی جانب سے سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک پٹیشن داخل کی گئی ہے جس میں انہوں نے عبادت گاہوں کے مقام کے قانون یعنی کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔
ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے اپنی عرضداشت میں کہا ہے کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کی وجہ سے وہ مغلیہ دور کی ایسی دو ہزار عبادگاہوں کو ہندو عبادت گاہوں میں تبدیل نہیں کرا پارہے ہیں لہذا اس قانون کو ختم کیا جائے۔نفرت آمیز تقریر کرنے کے لیے مشہور سریش چونکے نے مبینہ طور پر چار لاکھ مساجد کو منادر میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس کے لیے وہ پورے ملک میں تحریک چلا رہے ہیں۔
جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں پلیس آف ورشپ ایکٹ کی کی حقیقی حفاظت اور اس کے موثر نفاذ کے لیے پٹیشن داخل کی ہے جسے عدالت نے سماعت کے لیے قبول کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے، جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سپریم کورٹ میں سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون، ایڈوکیٹ ورندہ گروور اس معاملے میں پیش ہوتے رہے ہیں۔
اس معاملے میں اب تک مرکزی حکومت نے اپنا جواب داخل نہیں کیا ہے، گذشتہ تین سالوں سے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا عدالت میں یہ کہہ رہے ہیں کہ معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے حکومت کو جواب داخل کرنے کے لیے وقت چاہیے۔ گذشتہ سماعت پر تشار مہتا نے عدالت سے وقت طلب کیا جس کی جمعیۃ علماء کے وکلاء اور ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے مخالفت کی۔ یہ قانون حکومت کی گلے کی ہڈی بن گیا ہے، ایک جانب جہاں حکومت عرب دنیا اور دیگر ممالک کو یہ بتانے میں مصروف ہے کہ ہندوستان میں تمام مذاہب کے لوگوں کو مکمل آزادی ہے وہیں اگر حکومت نے سپریم کورٹ میں اس قانون کو ختم کرنے کا حلف نامہ داخل کردیا تو حکومت کی دوغلی پالیسی کا بھانڈا پھوٹ جائے گا، دوسری جانب ہندو تنظیمیں حکومت پر دباؤ بنا رہی ہیں کہ وہ اس قانون کو ختم کرے یا سپریم کورٹ میں قانون ختم کرنے کے لیے حلف نامہ داخل کرے۔