آج ہر کوئی ظاہری شان و شوکت، حصول مال و زر اور دنیاوی معاملات میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے میں اپنی تمام مساعی صرف کررہا ہے، حلال و حرام کے امتیازات کو مٹا رہا ہے، حدود الٰہیہ کو پامال کررہا ہے، ذاتی اغراض کی خاطر انسان کی عزت نفس سے کھلواڑ کررہا، مالی منفعت کے حصول کے لیے انسانیت کو داغدار کررہا ہے، حقیر مفادات کے لیے ایمان کا سودا کررہا ہے جبکہ حقیقی مسلمان وہ ہوتا ہے جو غفلت و لاپرواہی کا شکار ہوئے بغیر دنیا کے مقابلہ میں ہمیشہ آخرت کو ترجیح و فوقیت دیتا ہے اور پوری دیانتداری اور خلوص کے ساتھ شرعی احکامات کو سرانجام دیتا ہے جو درحقیقت ایمان کا تقاضہ اور قرآن مجید کے اصل الاصول ’’سابق بالخیرات‘‘پر عمل آوری کا مظہر بھی ہے۔
دین اسلام چاہتا ہے کہ مسلمانوں کی مسابقت و استباق کا مرکز خیرات و حسنات، نیکیاں اور بھلائیاں ہوں تاکہ ان کے ذریعہ مسلمان آخرت کی تمام نعائم اور رب کائنات کے قرب خاص کو حاصل کرسکیں۔ واضح باد کہ دیگر مذاہب صرف نیکیوں کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں جبکہ دین اسلام کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو نیکیوں میں استباق کی طرف بلاتا ہے یعنی ازلی ابدی نیکیوں کی تمام شرائط و آداب کے ساتھ تکمیل میں سبقت لے جانے کا جذبہ پیدا کرتا ہے تاکہ وہ آخرت میں جنت کی طرف سبقت لے جائیں۔ قرآن مجید کی آیت کے مطابق السابقون (سبقت لے جانے والے) مخلوقات میں بلند ترین درجے پر فائز ہوں گے۔
اسی طرح دنیا کے ہر مذہب میں برائیوں سے نفرت دلائی گئی ہے لیکن دین اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کو نہ صرف سیئات سے اجتناب کرنے کی تلقین و تاکید کرتا ہے بلکہ ایسے اسباب و علل سے بھی پرہیز کرنے کا حکم دیتا ہے جو انسان کے خوابیدہ جذبات کو بھڑکا کر قباحت و شناعت آمیز گناہوں کے ارتکاب پر ابھارتے ہیں۔ لیکن صد افسوس آج ہمارا ایمان اس قدر کمزور ہوچکا ہے کہ ہم نیکیوں سے زیادہ برائیوں سے شغف رکھنے لگے ہیں اور ہماری دانست میں بھلائیوں سے زیادہ خرابیوں کے ارتکاب سے انسان ترقی حاصل کرسکتا ہے جبکہ ہمارے اسلاف حسنات میں سبقت لے جانے کو حرز جان بنایا کرتے تھے اور نیکیوں پر عمل پیرائی کو اپنی زندگی کا نقطہ کمال و عروج سمجھتے تھے۔
دین سے دوری نے ہمارے اقدار اور کردار کو اس قدر مسخ کردیا ہے کہ جن اعمال کو قرآن مجید فلاح دارین کا ضامن قرار دیتا ہے ہم اس سے کافی دور ہوچکے ہیں اور جن افعال کو قرآن مجید دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی کا سبب گردانتا ہے ہم اس پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہیں۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں متعدد دفعہ مسلمانوں کو دوزخ کی آگ سے بچنے کی تلقین کی گئی اور آگ سے اللہ تعالی کی حفظ و امان میں آنے کی مختلف ادعیہ سکھائے گئے ہیں۔ الٰہی احکامات اور نبوی فرمودات کا تقاضہ یہ تھا کہ مسلمان ہر لحاظ سے آگ سے بچنے کی کوشش کرتا لیکن آج حالات یہ ہوگئے ہیں کہ نکاح جس کو نبی رحمتؐ نے سنت قرار دیا ہے کہ اس پر مسرت و بابرکت تقریب میں ہم لوگ آتش بازی کررہے ہیں۔
ہمارے اس نازیبا حرکت سے نہ صرف ہم اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال کے لیے دنیا و آخرت کی رسوائی مول لے رہے ہیں بلکہ اس سے انسانیت بالخصوص راہگیر، اطراف و اکناف میں رہنے والے مریض، ضعیف حضرات، معصوم بچوں، تعلیم حاصل کرنے والے طلباء و طالبات کو سخت تکلیف پہنچ رہی۔ علاوہ ازیں آتش بازی سے فضائی آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے چرند و پرند وغیرہ کو بھی اذیت پہنچ رہی ہے۔ مسلمانوں کو نہ صرف اسراف سے بچنے کا حکم دیا گیا بلکہ صراحتاً بتایا گیا کہ اللہ تعالی اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ صادق و مصدوق نبیؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اس نکاح میں برکت ہوتی ہے جس میں کم سے کم خرچ ہوتا ہو اس کے باوجود مسلم معاشرے میں شاید ہی کوئی ایسی تقریب ہوگی جس میں اسراف نہ ہورہا ہو۔
لوگوں کو نیچا دکھانے اور دیگر کی تقریب سے زیادہ بہترین تقریب منعقد کرنے کے فراخ میں بعض لوگ سود پر پیسہ لے رہے ہیں اور اس سود کی ادائیگی میں ان کی زندگی کٹ جاتی ہے بلکہ بعض گھرانے تو ایسے بھی ہیں جہاں سود کی ادائیگی کا سلسلہ نسلاً بعد نسل جاری رہتا ہے۔ ان میں اکثر لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کو تعلیم سے اس لیے محروم رکھتے ہیں چونکہ ان کی مالی حالت بہت کمزور ہے اور اپنے بچوں کو ملازمت پیشہ اختیار کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اسی طرح بعض مسلمان ایک دوسرے کا مذاق اڑانے، افترا پردازی کرنے، اذیت پہنچانے اور ایک دوسرے کی خصوصی و شخصی زندگی پر حملہ آور ہونے کی غرض سے سوشیل میڈیا پر نفرتوں پر مبنی کمینٹ اور ٹرالنگ کے نام پر جو نازیبا الفاظ و تبصرے، نفرت انگیز و دل آزار جملے و القابات استعمال کر رہے ہیں خصوصاً سیاسی قائدین اپنا قد اونچا کرنے اور اپنی پارٹی کے سربراہوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے ایک دوسرے کے خلاف جو مغلطات بک رہے ہیں وہ انتہائی قابل افسوس ہے چونکہ یہ انسان بالخصوص مسلمان کی عزت و آبرو کی بے حرمتی کا موجب ہے۔
ہماری اس غلط روش کے باعث نہ صرف ہمارا فاسقانہ کردار دنیا کے سامنے پیش ہورہا ہے بلکہ ہمارے قلوب ایک دوسرے بالخصوص انسان کے ادب و احترام سے خالی بھی ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے افراد کو سونچنا چاہیے کہ قرآن مجید نہ صرف کسی کی تحقیر و تذلیل، استہزا و تمسخر اڑانے سے سختی کے ساتھ منع کرتا ہے بلکہ ارشاد فرماتا ہے انسان کا ہر چھوٹا اور بڑا عمل یعنی انسان کی انفرادی و اجتماعی خواہشات، روح انسانی کے رجحانات و میلانات سب نامہ اعمال میں محفوظ ہو رہے ہیں اور بروز محشر اسی کے مطابق مجرمین کو سزا بگھتنی پڑے گی اور ان پر خداوند عالم کا ایسا عذاب مسلط ہوگا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرنے والے مسلمانوں کو اس امر سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہیے کہ قرآنی ارشادات سے انحراف کرتے ہوئے سوشیل میڈیا پر نازیبا پوسٹ ڈال کر اپنی ظاہری، باطنی، حسی، معنوی گندگی اور نجاستوں کا جو مظاہرہ کر رہے ہیں اس کا ہم سے کوئی حساب کتاب نہ لیا جائے گا بلکہ ہمیں بروز قیامت ہمارے استعمال کردہ ہر لفظ و جملے کا حساب دینا ہوگا۔ ارباب حل و عقد، اہل فہم اور سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ کشیدگی پیدا کرنے والے محرکات و عوامل کی کی بیخ کنی پر توجہ دیں جس سے خصومت و منافرت، بغض و منازعت اور عداوت و مخالفت کے شعلے بھڑک رہے ہیں، اسلامی معاشرے کا امن و سکون برباد ہورہا ہے اور مسلمان من حیث القوم تباہ ہورہے ہیں۔
انسانوں کے اسرار کی حرمت کی حفاظت کرنا نہ صرف سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں بلکہ تمام مسلمانوں پر اس لیے بھی لازم ہے کیونکہ مخالفین کے درمیان باہمی الفت و محبت، اخوت و بھائی چارگی کے جذبات پیدا کرنا، باہم صلح و صفائی اور الفت و آشتی کا جو رشتہ منفی جذبات میں مغلوب ہوگیا اسے دوبارہ زندہ کرنا مومنانہ کردار کا وصف خاص ہے جو امت مسلمہ کو وحدت کی لڑی میں منسلک کرنے کے لیے از حد ضروری ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو انسان کو جانور سے ممتاز کرتی ہے اور اسے تکامل و ارتقا بخشتی ہے۔ ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ مسلمان نیکیوں میں سبقت لے جانے والے بنیں نہ کہ برائیوں میں جیسا کہ موجودہ دور میں مسلم معاشرے کا حال ہوچکا ہے اسی باعث مسلمان پورے عالم میں ذلت و رسوائی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
جس قوم کو سامان مغفرت و بہشت کی طرف دوڑنے کے لیے کہا گیا ہے وہ طبعی رغبت، نفسانی خواہشات و لذت کا شکار ہوکر برائیوں میں ایک دوسرے کو مات دینے میں مصروف نظر آرہی ہے۔ اسلام کے فروعی مسائل میں صحابہ کرام کی زندگی کا حوالہ دینے والے کردار کے معاملے میں صحابہ کی مبارک زندگیوں کو نمونہ عمل کیوں نہیں بناتے۔ صحابہ کرامؓ نیک وسائل سے خیر میں سبقت کرنے پر بہت زیادہ حریص تھے اور وہ ہر لمحہ فکر مند رہا کرتے کہ ان سے کوئی چھوٹا سا عمل بھی ایسا سرزد نہ ہوجائے جس سے دوزخ کی ہوا بھی لگے۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی اس ماہ ِمبارک میں تمام مسلمانوں کو اپنی رحمت، مغفرت سے سرفراز فرمائے اور دوزخ سے نجات عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔