خلیفہ اول حضرت سیدنا ابو بکر صدیقؓ کا مختصر دور خلافت (تقریباً ستائیس ماہ) جھوٹے مدعیان نبوت اور مانعین زکوۃ سے مقابلہ کرنے اور مسلمانوں کے بنیادی عقائد کو مضبوط و مستحکم کرنے کی نظر ہوگیا جو اس وقت کی اہم ضرورت تھی۔ لیکن جب عزم و استقلال کے پیکر، تنظیمی صلاحیتوں کے ماہر، صالح خصلت، صاحبِ بصیرت، فاتح روم و ایران، خلیفہ ثانی حضرت سیدنا فاروق اعظمؓ (جن کے خیالات واقوال کے مطابق زائد از 20 قرآنی آیات شریفہ کا نزول ہوا) 22 جمادی الآخر سن 13 ہجری مطابق 23 اگست 634 ء بروز سہ شنبہ مسند خلافت اسلامیہ پر متمکن ہوئے تو اسلام کی شان، شوکت اور سطوت میں برق رفتاری کے ساتھ اضافہ ہونا شروع ہوگیا اور اسلام دنیا کے مختلف گوشوں میں تیزی سے پھیلتا چلا گیا۔
آپؓ ہی نے جمہوری مملکت اور شہری انتظامیہ کی بنا ڈالی۔ آپؓ کا دور خلافت ہر انسان کی فلاح و بہبود کا ضامن تھا۔ حکمرانی اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے، بہتر حکمرانی و نگہداشت کے لیے اور تمام بدعنوانیوں سے پاک معاشرہ دنیا کو فراہم کرنے کے لیے آپؓ نے مملکت اسلامیہ کو مختلف صوبہ جات میں تقسیم فرمایا۔ چنانچہ آپؓ نے عرب کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ، عراق کو بصرہ اور کوفہ، فلسطین کو الیا اور رملہ، مصر کو بالائی مصر اور زیریں مصر، ایران کو خراسان، آذربائجان اور فارس، جیسے صوبہ جات میں منقسم کردیا جبکہ شام اور دجلہ و فرات کے درمیان واقع علاقہ جزیرہ ایک مستقل صوبہ تھا۔
ان صوبہ جات کی ذیلی تقسیم اضلاع کی شکل میں کی گئی۔ صوبائی سطح پر آپؓ نے کاتب (چیف سکریٹری)، کاتب الدیوان (ملٹری سکریٹری)، صاحب الخراج (ریونیو کلکٹر)، صاحب الاحداث (پولیس کلکٹر)، صاحب بیت المال (ٹریژری آفیسر) اور قاضی (چیف جج)کا تقرر عمل میں لایا۔ صوبائی گورنروں اور ڈسٹرکٹ آفیسرزکے تقررات انتخاب کی بنیاد پر عمل میں لائے جاتے تھے۔ آپؓ کے دور خلافت میں دو مشاورتی ادارے تھے۔ ایک جنرل اسمبلی جہاں اہم موضوعات، عوامی خدمات گزاروں کی تقرری اور برطرفی اور روز مرہ کے پیش آنے والے معاملات زیر بحث لائے جاتے تھے۔
دوسرے عوام کی شراکت داری جس کے تحت ہر شہری کو ریاستی انتظامیہ کی خامیوں کو اجاگر کرنے اور ارباب اقتدار کے علم میں لانے کی پوری آزادی تھی۔ آپؓ کے عہد زریں میں ہر شخص کے حقوق محفوظ اور ہر شخص کو مکمل آزادی حاصل تھی۔ بحیثیت خلیفہ آپ کو کوئی خصوصی مراعات حاصل نہ تھے۔ آپؓ اور آپؓ ماتحت عہدیداروں کے لیے کوئی حفاظتی دستہ نہ تھا تاکہ حکمراں اور رعایا کے درمیان کوئی فرق و امتیاز نہ رہے اور عہدیداروں تک عوام کی رسائی آسانی سے ہوسکے۔
آپؓ ہی کے عہد مبارک میں سرکاری افسران کے خلاف موصول ہونے والی شکایات کی تحقیق و تفتیش کرنے کے لیے ایک علیحدہ شعبہ قائم کیا گیا تھا، عوامی خدمت کا نظام متعارف ہوا جہاں افسران اور فوجی عہدیداران سے متعلق دستاویزات کو محفوظ رکھا جاتا تھا، زمین کی پیمائش، مردم شماری، کا کام شروع کیا گیا، پولیس چوکیاں اور جیل خانہ جات تعمیر کیے گئے، غریب اور مفلوک الحال افراد بشمول یہودو نصاری کو یومیہ وظیفہ جاری کیا گیا، رفاہی کام کے لیے وقف کے طریقہ کو رواج کیا گیا۔
علاوہ ازیں حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کی ذاتی حالات کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو آپ وہاں بھی عدیم النظیر شخصیت کے حامل نظر آتے ہیں چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ کثیر الجہت شخصیت حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کی طبیعت ناساز ہوگئی تو ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ آپؓ شہد کا استعمال کریں۔ آپ کے گھر میں اس وقت شہد نہ تھا لیکن بیت المال میں شہد موجود تھا خلیفہ وقت ہونے کے باوجود حضرت عمرفاروقؓ نے مناسب نہیں سمجھا کہ بغیر اذن و اجازت کے بیت المال سے شہد لیا جائے لہذا آپؓ مسجد میں تشریف لائے اور منبر پر بیٹھ کر مسلمانوں سے درخواست کی کہ وہ انہیں بیت المال سے شخصی استعمال کے لیے شہد لینے کی اجازت دیں (طبقات ابن سعد)۔
ایک دفعہ خلیفہ راشد حضرت سیدنا فاروق اعظم کے دسترخوان پر عمدہ قسم کے آٹے سے گوندھی ہوئی روٹی رکھی گئی تو آپؓ نے دریافت فرمایا کہ کیا اسی قسم کی روٹی تمام مسلمانوں کو میسر ہے۔ خادم نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے روٹی کو استعمال کرنا پسند نہیں فرمایا (اسد الغابہ)۔ نہ صرف آپؓ محتاط زندگی گزارتے تھے بلکہ اپنے ماتحتین حکام کو باریک کپڑا پہننے، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھانے اور دروازے پر محافظ رکھنے سے سختی سے منع فرمایا کرتے تھے۔
آپؓ کے دورِ خلافت میں مسلمان معاشی طور پر اس قدر مستحکم ہوگئے تھے کہ زکوٰۃ لینے والے حضرات بھی بڑی مشکل سے ملتے تھے۔ حضرت سیدنا فاروق اعظمؓ کے مذکورہ بالا عظیم الشان کارنامے، فتوحات، اصلاحات، ذاتی کمالات اور بلا لحاظ مذہب و ملت رعایا کی خوشحالی و ترقی کے لیے رفاہی، فلاحی امور کو فوقیت و اہمیت دینے، انتظامیہ کو شفاف و جوابدہ بنانے والی عبقری و تاریخ ساز شخصیت سے کسی بھی انسانیت پسند شخص کا بغض و نفرت کرنا تو درکنار بدگمان ہونا بھی محال ہے لیکن یہ ایک ناقابل تریدید تاریخی حقیقت ہے کہ دعائے نبی کا ثمر اور مراد رسول ﷺکا رتبہ رکھنے والے، خسر سرور کونین ﷺ اور داماد مولائے کائناتؓ کا شرف پانے والے، حین حیات ہی جنت کی بشارت پانے والے، اشداء علی الکفار کی سند رکھنے والے، جسمانی جبلی، اکتسابی، روحانی، نورانی خوبیاں رکھنے والے، سب سے پہلے ’’امیر المومنین‘‘ کے لقب سے ملقب ہونے والے، اذان کا مشورہ دینے والے، نماز تراویح باجماعت کا نظام جاری کرنے والے، اپنے عظیم الشان کارنامے اور فقید المثال فتوحات سے صرف نظر کرتے ہوئے حضرت علیؓ سے مشاورت کے بعد واقعہ ہجرت کو بنیاد بناکر اسلامی کیلنڈر رائج کرنے والے حضرت عمر رضی اللہ عنہ عظیم ہستی ہیں۔
قیصر و کسریٰ کی عظیم سلطنتوں کو دھول چٹانے والے، 3,600 علاقے بشمول مصر، عراق، ایران، فلسطین، دمشق، بعلبک، قادسیہ، روم، حلب، اُردن، انطاکیہ، الجزیرہ، مدائن ، و دیگر بلاد عجم پر اسلامی پرچم لہرانے والے، بائیس لاکھ مربع میل وسیع رقبہ پر مساوات کی بنیاد پر نظام حکومت قائم کرنے والے، بلا لحاظ مذہب و ملت، قوم و وطنیت پوری انسانیت کے لیے عدل و انصاف فراہم کرنے والے ، اپنی رعایا کے حالات، واقعات، ضروریات، حاجات، مشکلات سے واقفیت کے لیے رات کی تاریکی میں گلی محلوں میں گشت کرنے والے، خلیفہ وقت ہونے کے باوجود دس دس پیوند والی قمیص پہننے والے، انسانی فلاح و بہبود کے لیے اصلاحات لانے والے، دین مبین کو تعمیر ترقی کے بام اوج پر پہنچانے والے، انسانی حقوق و اقدار کو استحکام بخشنے والے ، حکمراں طبقے کو عوام الناس کا خدمت گزار قرار دینے والے، رعایا پروری کی بے نظیر مثال قائم کرنے والے اور مومن کا مثالی کردار دنیا کے سامنے پیش کرنے والے یعنی رعب و دبدبہ کے حامل، عدل و انصاف کے امام، سادگی اور خدمت خلق کی علامت، عاجزی و انکساری کا عملی نمونہ اور عشق مصطفی ﷺ کا معیار حضرت سیدنا فاروق اعظم ؓ جیسی مایہ ناز شخصیت دہشت گردی کا شکار ہوئی۔
واقعہ یہ ہے کہ ایک دن فیروز نامی مجوسی غلام آپؓ کی خدمت میں ایک عرضی لے کر حاضر ہوا کہ سرکاری عہدیدار اس سے زیادہ ٹیکس وصول کررہا ہے۔ آپؓ نے معاملہ کی تحقیق و تفتیش کرنے کا اس شخص وعدہ کیا۔ دوسرے دن یعنی 27 ذی الحجہ سن 22 ہجری مطابق 15 نومبر 643ء بروز ہفتہ جب لوگ نماز فجر کی ادائیگی کے لیے مسجد نبویﷺ میں جمع ہوئے تو فیروز نامی مجوسی غلام بھی مصلیوں کی صف میں شامل ہوگیا اور بالکل حضرت سیدنا فاروق اعظمؓ کے عین پیچھے کھڑا ہوگیا جیسے ہی آپؓ نے دوران نماز تلاوت قرآن کا آغاز فرمایا اس نے خنجر سے حملہ کردیا حملے کے چند روز بعد یعنی یکم محرم الحرام سن 23ہجری مطابق 19 نومبر 643ء بروز چہار شنبہ شہید اعظم حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کی شہادت واقع ہوئی۔
آپ کی شہادت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دہشت گردانہ حملہ آپؓ پر اس لیے کیا گیا چونکہ باطل طاقتیں نہیں چاہتی تھیں کہ اسلام کا بول بالا اور انسانی اقدار کا تحفظ ہو، غیر انسانی طبقات و گروہوں میں بٹی ہوئی انسانیت کے دور کا خاتمہ ہو ، ہر سو اخوت و بھائی چارگی اور امن و امان کا ماحول بنے، عوام الناس توہمات و خرافات کے دلدل سے نکل کر تہذیب یافتہ قوم کی طرح زندگی بسر کریں، تمام نقائص و عیوب سے پاک انتظامیہ سے عوام الناس مستفید ہوں۔ باطل طاقتیں پچھلے ادوار میں اسلام اور مسلمانوں پر دہشت گرد حملے کیا کرتے تھے تاکہ وہ قرآن اور صاحب قرآنﷺ سے اپنی وابستگی کو ختم کرلیں۔
آج یہی طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں تاکہ مسلمانوں خوفزدہ کرکے دین اسلام سے دوری اختیار کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔ لیکن شہادت فاروق اعظمؓ کے بعد بعہد خلیفہ سوم حضرت سیدنا عثمان غنیؓ مسلمانوں نے جو اسلام کی عظیم آبیاری کی اور کامیابی و کامرانی کی جو شاندار تاریخ رقم کی ہے وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور اسلاف کی سیرت سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ مسلمان وہ قوم ہے جو نہ دہشت گرد حملوں سے ڈرنے والی ہے اور نہ ہی دہشت گرد قرار دیئے جانے والی بزدلانہ، احمقانہ، بچکانہ کارروائیوں اور سازشوں سے خائف ہونے والی ہے بلکہ وہ تو انسانی ترقی و خوشحالی کے سلسلہ کو پہلے سے زیادہ منظم انداز سے آگے بڑھانے کی قوت و طاقت رکھتی ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی ﷺ ہمیں قرآن اور صاحبِ قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔