گزشتہ 5/ جولائی 2023 سے سوشل میڈیا پر ایک خبر بہت تیزی سے دیکھی اور سنی جارہی ہے ، وہ یہ کہ پاکستان کے شہر کراچی سے 10/ مئی 2023 کو سیما رند نامی خاتون اپنا مکان وغیرہ بیچ کر اپنے چار بچوں سمیت دبئی پہنچی اور دبئی سے نیپال اور نیپال سے بذریعہ بس سفر کر کے اپنے سوشل میڈیائی بوائے فرینڈ ”سچن“ سے ملنے بھارت پہنچ گئی ، میڈیا کے مطابق پب جی کھیلتے ہوئے سچن سے دوستی ہوئی تھی اور پھر یہ دوستی تین ملکوں کی سرحدوں کو روندتے ہوئے اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی اور اب سیما اپنے نئے بوائے فرینڈ سچن کی شریک حیات بن کر یہیں بھارت میں رہنے پر بضد ہے۔
خیال رہے کہ سیما کے شوہر غلام حیدر 2019 سے کام کے سلسلے میں سعودی عرب رہتے ہیں انہوں نے دونوں ملکوں کی حکومتوں سے بیوی اور اپنے چاروں بچوں کی واپسی کا مطالبہ کیا ہؤا ہے۔ دوسری طرف بھارتی میڈیا اس واقعے کو جذباتی ہندو نوجوانوں کے لئے سامانِ تسکین کے روپ میں پیش کر رہا ہے، جبکہ اس واقعے میں کسی بھی اینگل سے بھگوا لو ٹریپ شامل نہیں اور نا ہی کوئی مذہبی عنصر داخل ہے، یہ واقعہ مکمل طور پر شوہر سے ”بے وفائی“ اور جذباتی پن کا ہے۔ خدا کے بنائے ہوئے رشتوں پر مبنی یہ زندگی بہت آسان ہے مگر ہلکی سی چھیڑ چھاڑ پورے سماج کو الٹ پلٹ کردے گی۔
ایک فلم کا مشہور افسانوی ڈائلاگ ہے جس میں دادا پوتی سے شادی کرلیتا ہے نتیجتاً رشتوں ناطوں کی ایک عجیب دنیا وجود میں آجاتی ہے جس میں بیٹا اپنے باپ کا ”سمدھی“ بن جاتا ہے، پوتا دادا کا ”سالہ“ بن جاتا ہے …….. خیر اس واقعے کا انجام باقی ہے اس کی طرف نہ میڈیا کی نگاہ ہے اور نہ اینکروں کی ، انجام نیک تو ہوہی نہیں سکتا، اس واقعے کی چار بنیادی کڑیاں ہیں سیما اس کا سابق شوہر غلام حیدر، چار بچے اور سچن، چاروں ہی کڑیاں بھیانک انجام سے دوچار ہوسکتی ہیں، چند سوالات ہیں جن پر سیما اور سچن سمیت پورے سماج کو غور کرنا چاہیے اور ”جائز حل“ تک پہنچنا چاہیے۔
کیا نیا شوہر ”سچن“ چاروں بچوں کو حقیقی باپ کا پیار دے پائے گا اور ان کو حقیقی اولاد کی طرح اپنا پائیگا ؟ سابق شوہر ”غلام حیدر“ بیوی بچوں کی روزی روٹی کے لیے ہی تو اپنے وطن سے دور سعودی عرب گیا تھا، بدلہ میں غلام حیدر کو نہ بچے ملے اور نہ وفادار بیوی؟ کیا قدرت اس ظلم و بے وفائی کا انتقام نہیں لے گی؟ ۔ سیما کو سوچنا چاہیے اگر اس کی یہ ہی حرکت ( پہلے شوہر سے بے وفائی ) سچن کے دل میں بیٹھ گئی تو شک و شبہات کا اٹھنا اور پھر ہنگاموں کا اٹھنا فطری چیز ہے، سوشل میڈیا پر تبصرے پڑھیں آدھے سے زیادہ بھارتی سیما پر جاسوسی کا شک کر رہے بعض اور کچھ کہہ رہے ہیں۔
بچوں پر اس سے بڑا ظلم کیا ہوسکتا ہے کہ ان سے حقیقی باپ چھن گیا بچوں سے تمام ددھیال اور ننھیال کے رشتے دار چھوٹ گئے، باپ ( غلام حیدر ) مرا نہیں ہے کہ صبر آجائے وہ زندہ ہے کہ اولاد اور باپ دونوں ہی ملنے کے لیے تڑپتے رہیں اور پھر مستقبل میں بچے کیا اپنی ماں کے اس ”بھیانک ظلم“ کو معاف کرپائیں گے ؟ ہرگز نہیں۔ کیا یہ بچے جوان ہوکر اپنی ماں کی زندگی کو اجیرن نہیں کردیں گے ؟ اگر بچے باپ کے پاس پہنچا بھی دیے جائیں تو یہ ہی سب سوالات گھوم کر ماں کی طرف سے اٹھتے ہیں، اگر سیما کو بھی پاکستان پہنچا دیا جائے تو غلام حیدر اپنا اعتماد بحال کرپائیں گے؟ ہرگز نہیں۔ یہ سچ ہے کہ مستقبل پردہ خفا میں ہے، نہیں معلوم کیا ہوگا، مگر انسانی تجربات سے بھی تو مستقبل میں جھانکا جاتا ہے اور انسانی تجربات مذکورہ ”بھیانک انجام“ کی چغلی کھاتے ہیں۔ کل ملا کر سیما کا انجام باقی ہے جس کو دیکھنا دلچسپ بھی ہوگا اور سبق آموز بھی۔ اس واقعے میں بھارتی مسلمانوں کے لیے کئی سبق ہیں۔
1۔ پاکستان میں کونسا بھگوا لو ٹریپ کام کررہا تھا؟ وہاں حکومت بھی مسلمانوں کی ہے اکثریت بھی مسلمانوں کی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے معاملے جذباتی پن اور عشق و محبت کے ہوتے ہیں اور عشق اندھا تو ہوتا ہی ہے پاگل بھی ہوتا ہے، یہ پاگل پن ہر سماج کے مرد وعورت میں پایا جاتا اس سے گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں، نہ اس قسم کے واقعات سے اسلام خطرے میں ہے اور نہ ہی مسلمان، ہاں اپنے بچوں کی دینی و اخلاقی تربیت کا خیال ضرور رکھیے۔
2۔ کوئی بھی انسان کسی کو زبردستی نہ محبت پر ابھار سکتا ہے اور نہ عداوت پر، یہ مکمل طور پر انسان کی اپنی چاہت عادت و اخلاق اور تربیت پر منحصر ہے کہ وہ اپنی زندگی کے بارے میں کیا فیصلہ لیتا ہے۔
3۔ مذہب اور سماج کی حدود کو پھلانگ کر شادی کرنے کا سنگین مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں ہے بلکہ دیگر اقوام کا بھی ہے اور ہم سے زیادہ ہے۔
4۔ اس قسم کے مسائل کا واحد حل بچوں اور بچیوں کی دینی و اخلاقی تربیت ہے، ان چیزوں کے علاوہ کسی بھی طرح کی مہم چلانا، تحریک برپا کرنا، اسکول و کالج کو کوسنا ، ”سازشی تھیوری“ تلاش کرنا سطحی چیزیں ہیں۔
5۔ سیما اور سچن کے مذکورہ بالا افسوس ناک واقعے میں سب سے بنیادی اور اولین کردار موبائل کا ہے، اگر موبائل نہ ہوتا تو سیما نہ پب جی کھیلتی نہ کسی اجنبی سے رابطہ ہوتا اور نہ یوں ایک خاندان اجڑتا۔ بہت ضروری ہے کہ موبائل کے صحیح استعمال پر توجہ دی جائے اور اس تعلق سے بیداری عام کی جائے۔