سرینگر: 13 جولائی سنہ 1931 کو سرینگر میں سنٹرل جیل کے باہر ڈوگرہ فوجیوں کے ہاتھوں 22 کشمیری افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بعد میں سال 1948 میں اُس وقت کے جموں و کشمیر کے وزیراعظم شیخ محمد عبداللہ نے اس دن کو ‘یوم شہداء’ قرار دیا تھا اور اس دن سرکاری تعطیل کا اعلان کیا تھا۔تاہم دسمبر 2019 میں جموں و کشمیر انتظامیہ نے سرکاری تعطیلات کی فہرست سے نہ صرف 13 جولائی کو حذف کردیا بلکہ مرحوم شیخ محمد عبداللہ کے یوم پیدائش 5 دسمبر کی تعطیل کو بھی فہرست سے نکال دیا جبکہ 27 اکتوبر کو سرکاری تعطیل رکھی گئی جس دن مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھا۔
سنہ 1931 میں کشمیری عوام کی جانب سے سرینگر میں شخصی راج کے خلاف تحریک کا آغاز کیا گیا تھا۔ شخصی راج کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی پولیس نے نہتے لوگوں پر گولیاں چلا کر 22 افراد کو ہلاک کیا تھا۔ یہ لوگ پائین شہر کے رعناواری علاقے میں سنٹرل جیل کے احاطے کے باہر جمع ہوئے تھے جہاں ایک افغان قیدی عبدالقدیر کے مقدمے کی سماعت ہونے والی تھی۔
مؤرخین کے مطابق عبدالقدیر نے سرینگر کی جامع مسجد میں ڈوگرہ حکمرانوں کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی تھی جس کے بعد شہر میں جگہ جگہ مظاہرے ہوئے تھے۔ حکام نے عبدالقدیر کو فوری طور گرفتار کیا تھا۔ وہ ایک انگریز سیاح کے ساتھ کشمیر آئے تھے اور بعض مورخین کے مطابق ایک ہاؤس بوٹ میں مقیم تھے، جہاں انہوں نے کشمیری عوام کی بے بسی کی داستان سنی تھی۔ سنٹرل جیل کے باہر قتل عام کے بعد کشمیر میں شخصی راج کے خلاف تحریک میں سرعت آگئی اور جمہوری نظام اور خودمختار حکومت کے لیے تحریک نے زور پکڑ لیا۔ مئورخین کا کہنا ہے کہ 13 جولائی کا واقعہ جموں و کشمیر کی تحریک کا اہم گوشہ ہے جس روز کشمیری عوام نے حکومتی مظالم کے خلاف اٹھائی تھی۔
13جولائی کو جموں و کشمیر میں شہداء کو خراج پیش کرنے کے تئیں سرکاری تعطیل بھی ہوتی تھی اور اس روز سیاسی رہنما مزار شہداء پر حاضر ہوکر شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے تھے۔ سرکاری تقریب میں پولیس کا ایک دستہ شہداء کو گارڈ آف آنر پیش کرتا تھا۔ تاہم دسمبر 2019 میں جموں و کشمیر انتظامیہ نے سرکاری تعطیلات کی فہرست سے نہ صرف 13 جولائی کو حذف کردیا۔ اور اب اس روز جموں و کشمیر میں سرکاری تقریب منعقد نہیں ہوتی۔
13 جولائی کے روز مزار شہداء پر سماج کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا تاہم انتظامیہ اس روز مزار شہداء پر بندشیں عائد کرتی ہے جس کی وجہ سے لوگ ان شہداء کو خراج عقیدت پیش نہیں کر پاتے ہیں۔مقامی سیاسی جماعتیں اس روز بند کمروں میں ان شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے تقاریب کا انعقاد کرتی ہے۔