نئی دہلی۔(پریس ریلیز)۔ سنودھان سرکشا آندولن (SSA) نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کے اقدام سے مرکزی حکومت باز رہے۔جیسا کہ 22ویں لاء کمیشن نے یکساں سول کوڈ کے بارے میں اسٹیک ہولڈرس سے رائے اور خیالات طلب کی ہے۔
اس سے قبل 21 ویں لاء کمیشن نے اس معاملے کی جانچ 2016اور2018 میں کی تھی اور ‘عائلی قانون میں اصلاحات ‘پر ایک مشاورتی مقالہ جاری کیا تھا۔ یونیفارم سول کوڈ کا مسئلہ ایک بار پھر ملک کے سماجی و سیاسی پلیٹ فارم پرنمودار ہوا ہے۔
ہندوستان ایک تنوع کا ملک ہے جس میں دنیا کے بڑے مذاہب کے پیروکاروں کے علاوہ لاتعداد ذاتیں اور قبائل شامل ہیں جو بالترتیب اپنے اپنے مذہبی یا قبائلی عقائد کی ثقافت اور رسم و رواج کی پیروی کرتے ہیں۔ رسم و رواج ایک ذیلی ذات یا ذیلی قبائل اور یہاں تک کہ ایک ہی ذات یا قبیلے میں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان تمام رسم و رواج یا ثقافت کو ایک قانون کے تحت لانا یا ان کو یکجا کرنے کی کوشش کرنا مردہ گھوڑے کو کوڑے مارنے کے مترادف ہے۔
لوگوں کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ یکساں سول کوڈ مسلمانوں کو سبق سکھانے کا ایک اور ذریعہ ہے، اور ایسے بیانات سے موجودہ ہندوستانی منظرنامے میں حمایت حاصل کرنا آسان ہے۔میڈیا بھی اسے صرف مسلمانوں کو متاثر کرنے والے اقدام کے طور پر اجاگر کررہی ہے۔
لیکن حقیقت یہ نہیں ہے، یونیفارم سول کوڈ ملک کے ہر شہری کو متاثر کرتا ہے۔ چاہے وہ کسی بھی مذہب کا پیرو کار ہو، کسی خاص قبیلے یا ذات سے تعلق رکھتا ہو، عاقل ہو یا ملحد ہو۔ سول قوانین کو یکساں کرنے سے افراتفری پھیل جائے گی، کیونکہ اس سے ملک میں سینکڑوں قبائلی فرقوں کے ثقافتی میدان میں خلل پڑے گا۔
بہت سارے سوالات اٹھتے ہیں کہ جب یونیفارم سول کوڈ لاگو کیا جائے گا تو کن قوانین پر عمل کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر، پنجاب کے ہندو اب بھی وراثت کا حق صرف بڑے بیٹے کو دیتے ہیں۔کیا یہ قانون ملک کے تمام ہندوؤں کیلئے عام کیا جائے گا؟۔
شمال میں ہندو (Saptapadi) کے رواج کی پیروی کرتے ہیں، جبکہ جنوب میں شادی کی رسم میں تھالی (منگل سوتر) باندھا جاتا ہے۔ یونیفارم سول کو ڈ کے تحت کس رواج کی پیروی کی جائے گی یا کس رواج کو نافذ کیا جائے گا؟۔کیا سکھ برادری اپنے (Anand Marriage Act) آنند میریج ایکٹ کو ترک کرنے اور اپنی شادیوں میں کیلئے مجوزہ ضابطہ اخلاق پر عمل کرنے پر مجبور ہوجائے گی؟۔
یونیفارم سول کوڈ کے حامیوں کے طرف سے پیش کی جانے والی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ آئین اس مطالبہ کرتا ہے۔ آئین نے شہریوں کے اپنی پسند کے کسی بھی مذہب کو ماننے، اس کی پیروی کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کے حق کو بنیادی حق کے طور پر واضح طور پر بیان کیا ہے۔ لہذا، کسی بھی برادری یا قبائل یا ذاتوں کے مذہبی حقوق کی پامالی کی کوئی بھی کوشش آئین کی طرف سے ضمانت دی گئی مذہبی آزادی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے، اور اسی طرح خلاف آئین بھی ہے۔
ریاستی پالیسی کے ہدایتی اصول ریاست کیلئے 16ہدایات(آرٹیکل 36تا51) پر مشتمل ہیں۔حکومت کا یکساں سول کوڈ پر توجہ مرکوز کرنے اور اسے فروغ دینے کا ارادہ، دیگر ہدایات کو چھوڑ کر، جن میں سے زیادہ تر کا مقصد شہریوں کی فلاح و بہبود کیلئے ہے جیسے ،”آمدنی میں عدم مساوات کو کم کرنا، حیثیت کا عدم توازن اور دیگر سماجی مسائل اس اصول کا مرکز ہیں۔(آرٹیکل 38)”
۔ "ہر ایک کو مساوی مادی وسائل فراہم کرکے شہریوں کیلئے روزی روٹی کے مناسب ذرائع کا حصول، اور مرد اور عورت دونوں کیلئے یکساں کام کی اجرت کیلئے کوشش کرنا،۔(آرٹیکل 39)”
"بے روزگاری، بڑھاپے اور بیماری کی صورتوں میں کام کرنے کا حق، کام کرنے کا حق، تعلیم کا حق اور عوامی مدد کا حق فراہم کرنے کے لیے۔ (آرٹیکل41)”
۔آرٹیکل46جو سماج کے کمزور طبقوں یا ان کمیونٹیز کیلئے وقف ہے جو مختلف جبر سے گذررہی ہیں اور ایس سی، ایس ٹی اور دیگر کمزور طبقات کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو یقینی بنانے اور بہتر بنانے کی ہدایت کرتی ہے اور جو ریاست کو اس بات کو یقینی بنانے کیلئے رہنمائی کرتی ہے کہ کمزور طبقات کے خلاف سماجی ناانصافی اور استحصال نہ ہو۔
آرٹیکل 47جو ریاست کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ نشہ آور مشروبات اور منشیات جو کہ صحت کیلئے نقصان دہ ہیں کے استعمال پر پابندی لگانے کیلئے کام کرے۔
لاء کمیشن یا حکومت ابھی تک واضح نہیں ہے کہ مجوزہ یونیفارم سول کوڈ میں کن ضابطوں پر عمل کیا جائے گا۔ بلاشبہ یہ قانون ملک میں پہلے سے بگڑ ے ہوئے سماجی ماحول کو مزید بگاڑ دے گا۔اس تناظر میں سنودھان سرکشا آندولن (SSA) مرکزی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ یونیفارم سول کوڈ کو نافذ کرنے کی کوششوں سے پیچھے ہٹ جائے اور ملک کے شہریوں کے دیگر اہم مسائل پر توجہ مرکوز کرے۔
ہم زیر دستخط میمورینڈم میں مذکورحقائق کی بنیاد پر، یونیفارم سول کوڈ کو نفاذ کرنے کی کوششوں سے باز رہنے کیلئے حکومت سے سنودھان سرکشا آندولن کے مطالبے کی مکمل تائید کرتے ہیں۔ دستخط کنندگان۔
1)۔جسٹس بی جی کولسے پاٹل۔سابق جج، ممبئی ہائی کورٹ، صدر لوک شاسن آندولن،2)۔مولانا سجاد نعمانی۔ اسلامی اسکالر،3)۔اتندر پال سنگھ۔ سابق ایم پی،4)۔سمرن جیت سنگھ۔ سابق ایم پی،5)۔مولانا عبید اللہ خان اعظمی۔ سابق ایم پی،6)۔ جسٹس ونے وردیا،7)۔ایم کے فیضی۔ قومی صدر ایس ڈی پی آئی،8)۔راج رتن امبیڈکر۔ صدر بدھسٹ سوسائٹی آف انڈیا،9)۔ بھارت آنند۔ صد ر اکھل بھارتیہ بھیکھو مہا سنگھ،10)۔سید سرور چشتی۔ خادم خواجہ اجمیر شریف،11)۔پریم کمار کالے۔ صدر BAMCEF،12)۔ظہیر عباس۔نائب صدر آل انڈیا شیعہ پرسنل لاء بورڈ،13)۔ فادرسوسائی سیباسٹن۔سابق وئسر جنرل، دہلی آرکڈیوسس،14)۔ڈاکٹر اسماء زہرہ۔ بانی مسلم ویمن اسوسی ایشن،15)۔اندرجیت سنگھ،16)۔مجتبی فاروق۔ ممبر مرکزی مشاورتی کوسنل، جماعت اسلامی ہند،17)۔شاہ نواز قادری۔ مصنف و مولف،18)۔فیروز احمد، اڈوکیٹ سپریم کورٹ۔