حالات حاضرہ

بین مذہبی شادی: اسباب وتدارک

*اسلام میں شادی کی تعریف:*
عام طورپر نکاح یاشادی قانونی اورشرعی طورپرمسلمان مردو عورت کے درمیان کئے گئے ایسے معاہدہ کو کہاجاتاہے جو شریعت کے ضابطہ کے مطابق انجام پایاہو، جس کے تحت دونوں ایک دوسرے سے شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے جنسی لطف اندوزی کرسکتے ہوں۔

اس تعریف سے یہ بات بخوبی معلوم ہوگئی کہ اگر مرد یا عورت کوئی ایک مسلمان نہ ہو تو شرعا وہ نکاح نہیں ہے،البتہ اگر عورت کتابیہ یعنی اللہ کو مانتی ہو، کسی نبی پر ایمان ہو ، کسی آسمانی کتاب کے مطابق واقعۃ عمل بھی کرتی ہو،اور روزجزاءوسزا پربھی اس کاایمان ہو تو اس سے نکاح کرنے کی گنجائش ہے، مگر کراہت سے بہرحال خالی نہیں، اسی طرح نکاح اگر شرعی ضابطہ کے تحت انجام نہ پایا ہو تواس کو بھی شرعا نکاحِ صحیح نہیں کہاجائے گا۔

بین مذہبی شادی کی تعریف:
بین مذہبی شادی کامطلب یہ ہے کہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کا مذہب الگ الگ ہو۔ جیسے مسلم اورغیرمسلم کے درمیان نکاح، ہندو یا عیسائی کے درمیان نکاح۔ اسی کو مخلوط شادی بھی کہاجاتاہے۔ نیزایسی شادیوں کو سوِل معاہدہ بھی کہاتاجاہے۔

اسلام میں بین مذہبی شادی کی حیثیت:

بین مذہبی شادی کو قرآن نے باطل قراردیاہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشادہے: وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتّـٰى يُؤْمِنَّ ۚ وَلَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْـرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّّلَوْ اَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّـٰى يُؤْمِنُـوْا ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْـرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكُمْ ۗ اُولٰٓئِكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ ۖ وَاللّـٰهُ يَدْعُوٓا اِلَى الْجَنَّـةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِاِذْنِهٖ ۖ وَيُبَيِّنُ اٰيَاتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُـمْ يَتَذَكَّرُوْنَ (سورۃ البقرۃ:221)
ترجمہ:
اورمشرک عورتیں جب تک مسلمان نہ ہو جائیں ، ان سے نکاح نہ کرو اور ایک مسلمان باندی بھی (آزاد ) مشرک خاتون سے بہتر ہے ، گو وہ تم کو پسند ہو ،اور(مسلمان عورتوں کا ) مشرک مردوں سے جب تک وہ مسلمان نہ ہوجائیں ، نکاح نہ کرو گو وہ تم کو پسند ہوں ؛ (۳)کیوں کہ یہ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اوراﷲ اپنی توفیق دے کر جنت اور مغفرت کی طرف بلاتے ہیں اور اﷲ لوگوں کے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتے ہیں ؛ تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں ۔

تشریح:
اس پر اُمت کا اجماع و اتفاق ہے کہ مشرک قوموں کے نہ مردوں سے نکاح ہوسکتا ہے اور نہ عورتوں سے ، البتہ اہل کتاب کی عورتوں سے مسلمان مردوں کا نکاح درست ہے ، جس کا ذکر ( المائدۃ : ۵ ) میں ہے — اس طرح کا حکم اسلام کی تنگ نظری نہیں ؛ بلکہ ایک مسلمان خاندان کے ایمان اور ان کی تہذیب کی حفاظت مقصود ہے ؛ کیوں کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اکثر عورتوں ہی کی راہ سے بے دینی کے فتنے سماج میں لائے گئے ہیں.

اسلام سے پہلے بھی دوسرے مذاہب میں اس طرح کے احکام موجود تھے ، یہودی شریعت میں اسرائیلی کا غیر اسرائیلی سے نکاح جائز نہیں ،( خروج : ۳۴؍۳۱ ) عیسائی مذہب میں غیر عیسائی سے نکاح درست نہیں ( کرنتھیوں : ۶؍۱۴-۱۵ ) اور ہندو مذہب میں تو ایک ذات کے لوگوں کے لئے دوسری ذات میں بھی نکاح کی اجازت نہیں ؛ چہ جائے کہ دوسرے مذہب والوں سے ۔(آسان تفسیر، از مولاناخالد سیف اللہ رحمانی)

اس آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک مسلمان کانکاح کسی مشرک یاکافر سے نہیں ہوسکتاہے۔ایسانکاح شرعا باطل ہے۔
مشرک یا کافر کون؟
مشرک وہ شخص ہے جو اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ رکھتاہو، کسی نبی کی رسالت اورنبوت پر ایمان نہ رکھتاہو، آسمانی کتابوں پربھی اس کاایمان نہ ہو، آخرت پر اس کایقین نہ ہو، اس کے بجائے کئی خداؤں پر اس کا ایمان ہو، یا خداکی صفات میں کسی دوسری مخلوق کو شریک سمجھتاہو، مثلا وہ بتوں کی پوجاکرتاہو، یاکسی بڑی شخصیت کو اپنا خدا سمجھتا ہو، تو اس کو مشرک کہتے ہیں۔
اگر کوئی آدمی کسی بھی خدا پر ایمان نہیں رکھتا ہے، یا کسی بھی پیغمبر کو نہیں مانتاہے، یا بعض پیغمبر کو مانتے اور بعض کو نہیں،تو اس کو کافر کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہندو، جین، سکھ، بدھسٹ، پارسی، یہ لوگ مشرک بھی ہیں اور کافر بھی ۔
چنانچہ درج ذیل فرقے از روئے شرع کافر ہیں، چاہے وہ اپنے آپ کو مسلمان کہیں یا پھر سرکاری دستاویزات پر مسلمان کہلائیں:
قادیانی: یعنی ایسے لوگ جو مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں اور ان کی اتباع کرتےہیں۔

غالی شیعہ : یعنی ایسے لوگ جن کے بارے میں یقینی طورپرمعلوم ہو کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خدامانتے ہیں،یا نبی مانتے ہیں، یا پھر وہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم ان ہی پر نازل ہوناتھا، لیکن حضرت جبرئیل علیہ السلام سے غلطی ہوگئی اور وہ وحی لیکر حضرت محمدﷺ کے پاس چلے گئے۔ یا ان کایہ عقیدہ ہو کہ حضرت محمد ﷺ کی وفات کے بعد آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم مرتد ہوگئے تھے۔
بہائی: وہ لوگ جن کاایمان ہو کہ مرزاحسین علی نوری بہاء اللہ بھی اللہ کے نبی یارسول ہیں۔
بابی: وہ لوگ جن کا ایمان ہو کہ سید علی محمد باب اللہ کے نبی یارسول ہیں۔
شکیلی: وہ لوگ جن کاایمان ہو کہ شکیل بن حنیف عیسیٰ علیہ السلام ہیں، یا امام مہدی ہیں، یا وہ خود رسول یا نبی ہیں۔
(اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا، دفعہ نمبر٤-٥)

یہ سارے فرقے حکومت کی نظرمیں مسلمان ہیں، لیکن خداکی نظر میں مسلمان نہیں ہیں، کیوں کہ یہ لوگ حضرت محمد ﷺ کی رسالت یا آپ کی پیغمبری پر ایمان نہیں رکھتے ہیں، یا آپ کو اللہ کاآخری نبی نہیں مانتے ہیں، تو ان لوگوں سے کسی مسلمان مرد وعورت کا نکاح نہیں ہوسکتا ہے۔ جب شرعا نکاح ہی منعقد ہوگا تو پھر لوجہاد کاشوشہ چھوڑنا اوراس پر ہنگامہ برپا کرنا نہایت نامعقول بات ہے۔ اسلام میں نہ ایسا کوئی جہاد ہے اور نہ اس کی ترغیب دی گئی، بلکہ اسلام میں تو کسی اجنبی عورت سے بلاوجہ بات چیت کرنے حتیٰ کہ دیکھنے کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔

بین مذہبی شادی کی قانونی حیثیت:

ہندوستان میں پرسنل لا لاگو ہے،یعنی عائلی مسائل میں اس فرقہ کامذہبی یاروایتی قانون ہی ملک کاقانون ہے، چنانچہ اس کے لئےشریعت ایپلی کیشن ایکٹ ١۹٣۷ءمسلمانوں پر لاگوہے۔ہندومیرج ایکٹ ١۹٥٥ء ہندوؤں پر لاگو ہے،یہی ایکٹ بودھسٹ،جین،سکھ کے لئے بھی ہے۔دَآنند میریج ایکٹ ١۹۰۹ء بھی سکھوں پر لاگوہے، دَانڈین کرسچن میریج ایکٹ ١۸۷٢ء عیسائیوں کے لئے ہے،اسی طرح پارسی میرج اینڈ ڈائیورس ایکٹ ١۹٣۶ء بھی ہے، ان لوگوں کانکاح ان ہی ایکٹ کے تحت ہوتاہے،اور ان کے مذہبی اورروایتی طوروطریقے کے مطابق انجام پاتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک اسپیشل میریج ایکٹ ١٩٥٤ء بھی پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس کیا گیاہے، اس میں ہر ہندوستانی کو کسی بھی ہندوستانی سے اس کے مذہب اوراس کے عقیدے کا لحاظ کئے بغیرشادی کرنے کاحق ہے، اس اسپیشل میریج ایکٹ کے مطابق کئے گئے نکاح پر پرسنل لاز لاگو نہیں ہوتے ہیں۔

اسپیشل میریج ایکٹ ١٩۵۴کیاہے؟
دراصل اس ایکٹ کو بنانے کامقصد پرسنل لا کو کمزورکرناہے، اس ایکٹ کے مطابق مذہب اورعقیدہ کے برخلاف کوئی بھی کسی بھی مذہب کے ماننے والے سے نکاح کرسکتاہے؛ خواہ وہ مسلم ہو، یا ہندو ہو، یا بدھسٹ ہو، یا جین ہو، یا سکھ ہو، عیسائی ہو، پارسی ہو۔اس ایکٹ کے تحت بین المذاہب نکاح منعقد کئے جاتے ہیں۔یہ ایکٹ پورے انڈیا میں لاگو ہے،اوران لوگوں پر بھی لاگوہیں جو ہندوستانی ہیں؛لیکن باہر ممالک میں رہتے ہیں۔
(Interfaith Marriages and Negotiated Spaces. By: Shweta Verma1 Neelam Sukhramani1: 23)
ہندوستان میں بین مذہبی نکاح عروج پر ہے، کیوں کہ اسپیشل میریج ایکٹ ایسے جوڑوں کو تحفظ فراہم کرتاہے۔ ایک قومی سروے کے مطابق ١۹۸١ء سے ٢۰۰٥ء تک بین مذہبی نکاح کی شرح دوگناہوگئی ہے۔ (Goli et al. 2013).چنانچہ ١٩۸١ء میں 1.6فیصد تھا، اور٢۰۰٥ء 2.7فیصد بڑھ گیا۔
(Interfaith Marriages and Negotiated Spaces. By: Shweta Verma1 Neelam Sukhramani1: 23)

مشہورانگریزی اخبارٹائمس آف انڈیا کے مطابق اسٹیپ اور میریج رجسٹریشن کے اداروں میں ٢۰١٣-٢۰١٤ء میں ٢۶٢٤ نکاح رجسٹر کئے گئے،صرف شہر بنگلورو میں اگلے سال یعنی ٢۰١٥-٢۰١۶ء میں یہ عدد بڑھ کر١۰۶٥٥ہوگئی۔ ٢۰١٥ء سے جنوری ٢۰١۶ء تک ۸٣۹١نکاح رجسٹرڈ ہوچکے تھے، جو٢۰١٣-٢۰١٤ء کے مقابلہ میں ٣۰۶فیصد بڑھاہواہے۔(Times of India: 20 June 2016)
Kumudin Das of Pillai’s College of Arts, Commerce and Science, Navi Mumbai,
P. K. Tripathy of Utkal University,
K. C. Das, and T. K. Roy )International Institute for Population Sciences (IIPS) [Mumbai]
پیلائی کے کالج آف آرٹس ، کامرس اینڈ سائنس نئی ممبئی کے کموڈن داس کے مطالعے کے مطابق ، اتکل یونیورسٹی کے پی کے تریپتی ، کے سی داس ، اور ٹی کے رائے ، دونوں بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ برائے پاپولیشن سائنسز (IIP) ممبئی سے متعلق ہیں، نے ہندوستان میں بین المذاہب اور بین ذات پات سے متعلق شادیوں کی تعداد کو بڑھنے اورگھٹنے والاقراردیا۔جس میں ٢۹/صوبوں کے٤٢١۸٣لوگوں کے قومی خاندانی صحت سروے National Family Health Survey ٢۰۰٥-٢۰۰۶ء کو سامنے رکھتے ہوئے کہاگیاہے کہ ہندوستان میں 2.1فیصد شادیاں بین مذہبی تھیں۔
(Das et al. [2011], 4, Table 4).
جغرافیائی لحاظ سے بین مذہبی شادیوں کی شرح اس طرح ہے:
مرکزی انڈیا: 1.2 شمالی انڈیا: 2.2 مشرقی انڈیا: 1.3 شمال مشرقی انڈیا: 3.2
مغربی انڈیا: 3.4 جنوبی انڈیا: 3.2
صوبوں کے لحاظ سے بین مذہبی شادیوں کی شرح اس طرح ہے:
بین مذہبی شادی کی سب سے زیادہ فیصد رکھنے والا صوبہ اروناچل پردیش ہے،جس میں 9.2فیصد بین مذہبی شادیاں انجام پاتی ہیں۔ اس کے بعد سکم: 8.1 فیصد، منی پور: 7.6، پنجاب: 7.3، میگھالیہ: 6.7، جھارکھنڈ: 5.6، آندھراپردیش: 4.7، مہاراشٹرا: 3.7 ، کرناٹکا: 2.8، تریپورہ: 2.7، دہلی: 2.2 بالترتیب ہیں۔
سب سے کم شرح رکھنے والا صوبہ مغربی بنگال ہے، یعنی صرف 0.3 فیصد ہے۔ دوسرےصوبے ان دونوں کے بیچ میں ہیں۔
(Dynamics of inter-religious and inter-caste marriages in India by: Kumudin Das, K. C. Das, T. K. Roy and P. K. Tripathy: Table: 4)
بین مذہبی شادیوں میں میاں بیوی کو مختلف قسم کی دشواریوں کاسامناکرناپڑتاہے۔
ذاتی مسائل:
بین المذاہب شادیاں میاں بیوی اور رشتہ داروں کےدرمیان بحث ومباحثہ اوراختلافات کا باعث بنتی ہیں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ اس طرح کے جوڑے اکثر اپنی ازدواجی زندگی میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ اس طرح کی شادیاں عام طور پر زیادہ عرصہ تک نہیں رہتیں اور تھوڑے ہی عرصے میں طلاق یاخلع کے ذریعہ علیحدگی ہوجاتی ہے۔ میں (قاضی محمد فیاض عالم قاسمی)نے ذاتی طور پر دارالقضاء (تصفیہ سینٹر) میں مشاہدہ کیا ہے کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے 95 فیصد جوڑے طلاق یا خلع کے ذریعہ الگ ہوجاتے ہیں، یاپھر یونہی ایک دوسرے کو چھوڑدیتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہاں "بین المذاہب شادی” سے مرادمسلم اورغیر مسلم کی شادی ہے۔
سماجی مسائل:
انہیں اپنے اہل خانہ کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے والدین ان کی شادی کی تقریبات میں شرکت نہیں کرتے ہیں، دونوں میاں بیوی کوان کے سسرال والے افراد خانہ نہیں سمجھتے،اس وجہ سے اس طرح کے جوڑے ہمیشہ معاشرتی زندگی کے مسائل کاسامناکرتے رہتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ایسے لوگ اپنے رشتے داروں اور معاشرے میں اپنا وقار کھو دیتے ہیں۔ ان کے بچوں کو معاشرے میں بھی اسی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،بلکہ وہ اپنے والدین سے کہیں زیادہ سخت چیلنجوں کاسامناکرتے ہیں۔

بین المذاہب شادی کی وجوہات:
مسلمانوں میں بین المذاہب شادیوں کی وجوہات یہ ہیں:
١۔ ایمان کی کمزوری:
بین المذاہب شادیوں کی سب سے بڑی وجہ ایمان کی کمزوری ہے۔ ایک مومن ، یعنی حقیقی ایمان کاحامل، محبت یا دنیاوی مال ودولت کے بدلے کبھی بھی اپنے ایمان کاسودا نہیں کرے گا۔
٢۔ مخلوط تعلیم:
بین المذاہب شادیوں کی وجوہات میں سے مخلوط تعلیم بھی ایک بنیادی وجہ ہے۔ جب کوئی نو عمر لڑکا یا لڑکی مخلوط تعلیم گاہ جیسے کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لیتا ہے تو ان کی ملاقات مخالف جنس والے بہت سے دوستوں سے ہوتی ہے ، آہستہ آہستہ اس کا سادہ لوح دل و دماغ محبت کی جال میں پھنس جاتاہے، اور اس طرح محبت میں اندھے ہوکر انھیں اپنی خواہشات کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتاہے،ان کی خواہش ہوتی ہے کہ جلد ہی نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں تاکہ ظالم معاشرہ ان کے درمیان روڑے نہ اٹکائے، بالآخروہ تمام تر دینی تعلیمات نظر انداز کرکے نکاح کرلیتے ہیں۔
٣۔ مخالف جنس کے ساتھ دوستی:
نوجوانوں میں آج کل خاص طور پر پیشہ ورانہ ملازمتوں میں مخالف جنس سے دوستی بہت عام ہوگئی ہے۔ ایک تاجر کے کچھ مخالف جنس دوست بھی ہوتے ہیں،توڈاکٹروں کے بھی ہوتے ہیں۔ ایک استاد مخالف جنس سے بھی ہاتھ ملاتا ہے۔ یہ آزادانہ تعلقات بھی اکثر و بیشتر بین المذاہب شادیوں کا باعث بنتے ہیں۔
٤۔ غربت:
بین المذاہب شادیوں میں غربت بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بہت سے والدین اپنی بیٹیوں کو دوسرے مذہب کے لڑکوں سے شادی کرادینے پر مجبورہوتے ہیں؛ کیونکہ انہیں شاید اپنی ہی برادری میں اپنی بیٹیوں کے لئےمناسب دولہا نہیں ملتاہے، یا پھر ان کے پاس اتنا بجٹ ہی نہیں ہوتاہے کہ سسرال والوں کو جہیزفراہم کریں، کیونکہ جہیز مہنگا ہوگیاہے، اور آج کل شادی کا لازمی حصہ بن چکاہے۔ معاملہ اور زیادہ شرمناک اس وقت بن جاتا ہے ، جب داماد یا اس کے رشتہ دار نقد رقم ، موٹر سائیکل ، فور وہیلر ، مکان ، یا تجارت یا جائیداد کے حصوں میں رقم طلب کرتے ہیں اور یہاں تک کہ بعض اوقات اگر وہ ان کے مطالبات پورے کرپاتےہیں تو شادی منسوخ کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ اوربعض دفعہ بات چیت ہوجانے کے باوجود عین وقت منسوخ کردیاجاتاہے۔
٥۔ لالچ:
لالچ مرد کی جانب سے بین المذاہب شادیوں کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ وہ شادی کرکے دولت مند بننا چاہتا ہے۔ اسے سسرال سے جہیز کا ڈھیر ملنے کی توقع ہوتی ہے؛ لہذا لالچ بعض اوقات ایمان کی قیمت پر بھی بین المذاہب شادی کا انتخاب کرنے پر اکساتا ہے۔
۶۔ جہالت:
زیادہ تر لوگوں کومعلوم ہی نہیں کہ ان کا مذہب ان لوگوں سے شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے یانہیں جو اس کے مذہب کو نہیں مانتاہے، ہمارے علم میں کچھ ایسے معاملات آئے ہیں جہاں انہوں نے انجانے میں شادی کرلی۔ پھربعدمیں جب کبھی انہیں پتہ چل گیا کہ ان کا مذہب ایسی شادی کی اجازت نہیں دیتا ہے تو وہ فورا الگ ہوگئے، اور اپنے رب سے توبہ واستغفارکی۔
۷۔ آزادانہ خیال:
کچھ لوگ غیر معمولی طورپر وسیع ظرف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ دماغ کی وسعت اور فکر ہی تمام مسائل کا واحد حل ہے۔ وہ مذہبی حدود کو رکاوٹیں اور پسماندگی کی علامت سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے مذہب عید اور بقرعید منانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ان کے خیال میں شادی ان کا ذاتی معاملہ ہے اور اس کو مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ لہذا وہ بین المذاہب شادیوں میں کچھ بھی غلط نہیں دیکھتے اور اپنے بچوں کو اپنے لئے جو بھی انتخاب کرتے ہیں ،کرنے دیتے ہیں۔ اس طرح بہت حد تک "آزادانہ خیال” بھی بین المذاہب شادیوں کا باعث بنتی ہے۔
۸۔ تعلیم کی کمی:
موجودہ صورتحال میں مسلمان لڑکیاں لڑکوں کی بنسبت تعلیم میں اعلی فیصد حاصل کررہی ہیں۔ جس کانتیجہ یہ ہوتاہے مسلمان لڑکے ان اعلی تعلیم یافتہ لڑکیوں کے لئے مناسب نہیں ہوتے ہیں۔ اس سے متعدد لڑکیوں کو بھی دوسرے مذاہب میں سے اپنے شریک حیات کا انتخاب کرناپڑتاہے، جو تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے کم سے کم ان کے لئے مناسب ہوتےہیں۔
۹۔ سوشل میڈیا کی لت:
سوشل میڈیا نوجوانوں کے لئے بہت خطرناک ہے۔ انٹرنیٹ سب کے لئے دستیاب ہے۔ پوری دنیا ایک چھوٹے سے گاؤں کی طرح ہوگئی ہے، گفتگو اور بات چیت کرنا، یہاں تک کہ موبائل کے ذریعہ دوسرے کو دیکھنا بھی بہت آسان ہوگیا ہے۔ اس مقصد کے لئے واٹس ایپ ، ٹیلیگرام ، فیس بک اور کچھ دوسرے سماجی پلیٹ فارم اس کام کے لئے بہت آسان ہیں۔ اس میڈیا کے ذریعہ ایک مرد اور عورت چیٹنگ ، بات چیت اور پھر ایک دوسرے سے گہری محبت کرنا شروع کردیتے ہیں، جوبین المذاہب شادیوں کا ذریعہ بنتی ہے۔
١۰۔ پروپیگنڈا:
یہ ثابت ہوگیا ہے کہ آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) ہندوستان میں ہندوؤں کی ایک غیرسرکاری تنظیم ہے، اور اسی طرح کے دائیں بازو کی تنظیمیں اپنے ہندوتوا ایجنڈے کے تحت مسلم لڑکیوں کو ہندو بنانا چاہتی ہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے وہ پہلے اپنے ہی لڑکوں اورلڑکیوں کا انتخاب کرتے ہیں انہیں اچھی تنخواہوں ، ایوارڈز اور اسی طرح کی کئی پیش کش کی جاتی ہے ، اور پھر وہ فیس بک اکاؤنٹ ، ٹرو کالر ، انسٹاگرام ، ٹیلیگرام ، واٹس ایپ ، اور دیگر سماجی ایپس سے مسلم بچوں اوربچیوں کے موبائل نمبر حاصل کرتے ہیں۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ وہ موبائل ری چارجنگ کے مراکز ، زیروکس سنٹرز ، شاپنگ مالز ، ٹیوشن کلاسز ، اور دوستوں سے بھی نمبرات حاصل کرتے ہیں، جب ان کو نمبرات مل جاتے ہیں تو وہ ان سے چیٹنگ شروع کردیتے ہیں، آڈیو اور ویڈیو کالنگ کے ذریعہ گفتگو کی جاتی ہے، یہاں تک کہ نوجوان مسلمان لڑکیوں یا لڑکوں کو ان سے پیار ہوجاتاہے۔ اس طرح مخصوص لڑکے یا لڑکیاں مسلم نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کواپنی طرف راغب کرتے ہیں۔
بین المذاہب شادی کاتدارک:
١۔ دینی تعلیم:
اس کا تدارک یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو نہ صرف قرآن کریم کی تلاوت کرنا سکھائیں؛ بلکہ کم از کم تمام اعلیٰ اورضروری مذہبی تعلیمات جیسے ایمانیات، اخلاقیات بھی سکھائیں، ایک بچہ کو پڑوسی ، دوست ، شریک حیات ، اور والدین کے حقوق اور ذمہ داریاں بھی بتائیں۔ تاکہ بچے جان سکیں کہ اسے اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں کیا کرنا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں اوربچیوں کے ذہنوں اور دلوں میں ایمان کی اہمیت پیدا کراناہے۔ صحابہ کرام کی کہانیاں گھر پر سنائی جائیں، یہ یقینا گھر کے تمام افراد کے لئے مفید ہوگا۔
٢۔ مذہب اور تقویٰ:
والدین کو مذہبی اور پرہیزگار ہونا چاہئے۔ ان پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کو پورا کریں۔ انہیں شریعت کے قوانین پر عمل کرنا چاہئے۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاطریقہ زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اس سےغیر شعوری طورپر بچوں کے اخلاق اچھے ہوں گے، اس طریقہ سے پرورش کئے گئے بچوں میں یقینی طور پراللہ کے سامنے جوابدہی کا احساس پیداہوگا، اوروہ اخلاق حسنہ سے مزین ہوں گے۔
٣۔ اسکول میں اسلامی ماحول:
مسلمانوں کے زیر انتظام اسکولوں میں اساتذہ کوطلبہ کے ساتھ اس طرح پیش آناچاہئے کہ گویا وہ ان کے اپنے بچے ہیں، انتظامیہ بچوں کے ایمان کو مضبوط کرنے اوران کی روشن زندگی کی ذمہ دارہے، انہیں اپنے طلباء کو اسلامی اخلاقیات سے مزین کراناہوگا، ہرجماعت میں کم از کم ایک دینی مضمون بھی ہونا چاہئے؛تاکہ ان کے ایمان کو مضبوط کیاجا سکے اور انھیں شرعی حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں روشناس کرایاجاسکے۔ انہیں باریکی سے بچوں کے طرز عمل کا مشاہدہ کرنا چاہئے، اگر وہ حد سے تجاوز کرتے ہیں تو ان کی اصلاح کرنی چاہئے۔ انہیں مخالف جنس سے دوستی کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے الگ الگ کلاس روم اور ہاسٹل ہونا چاہئے۔
٤۔ گھر میں اسلامی ماحول:
گھر میں بھی ایسا ہی نظام لاگوکرنا چاہئے، کیوں کہ اساتذہ سے زیادہ والدین ذمہ دار ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو اچھے اخلاق کی تربیت دیں۔ انہیں اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر ہمیشہ نگاہ رکھنی چاہئے۔ انہیں کبھی بھی بچیوں کو سفر ، ٹیوشن ، پکنک ، کھیل یا دوست کے گھر اکیلے نہیں چھوڑ ناچاہئے، بچوں کو مشورہ دیا جانا چاہئے کہ وہ کسی بھی اجنبی یا مخالف جنس سے کسی بھی قسم کی دوستی نہ کریں چاہے وہ اس کا ہم جماعت ہی کیوں نہ ہو۔ انہیں کسی غیرمحرم(غیرخونی رشتہ داروں) سے آزادانہ طور پر بات چیت کرنے کاموقعہ نہیں دیاجاناچاہئے۔ اگر کسی غیر متوقع طرز عمل کا پتہ چل جائے تو انہیں ان کو نصیحت کرنی چاہئے،ڈانٹ ڈپٹ سے بھی اورہلکی پھلکی پٹائی کے ذریعہ بھی اصلاح کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح ان کی جیب خرچ کے روکنے جیسی سزابھی دی جاسکتی ہے۔بہرحال والدین کو جو سزامناسب لگے وہ ضرور کرناچاہئے۔ والدین کو اپنے بچوں کو واضح طور پر متنبہ کرنا چاہئے کہ وہ ہر طرح کے گناہ اور نافرمانی کو معاف کردیں گے؛ لیکن وہ کبھی بھی کسی بھی اجنبی شخص کے ساتھ دوستی ، محبت ، یا شادی کرنے کےجرم کو معاف نہیں کریں گے۔
٥۔ غیر ضروری طور پر سوشل میڈیا کی لت سے بچنا:
بچوں کوبلاوجہ سوشل میڈیا کو استعمال نہیں کرناچاہئے، معقول وجہ کے بغیر کسی بھی اجنبی یا غیرمحرم سے بات چیت نہ کریں،اگر کوئی بات چیت کرنے کی کوشش کرتاہے، تو اسے فوری طور پر بلاک کردیا جانا چاہئے۔
۶۔ ایمان کو مضبوط بنانا:
مسلمانوں میں بین المذاہب شادیوں کو روکنے کے لئے ایمان کو مضبوط کرنانہایت ہی ضروری ہے، یہ صرف ایمان ہی ہے،جوایک مسلمان کو شریعت کے مقرر کردہ حدود کی خلاف ورزی سے روک سکتا ہے۔ ایمان کو مضبوط کرنے کے کچھ طریقے یہ ہیں:
(الف)نماز کی پاپندی:
نماز کی پابندی انسان کو ہر قسم کی برائی سےاور برے کام کرنے سے روکتی ہے؛جیساکہ ایک قرآن کریم میں اس وضاحت آئی ہے۔إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ(سورۃ العنکبوت:٤٥)
(ب)قرآن کی تلاوت:
قرآن کی تلاوت بھی ایمان کو مضبوط کرنےمیں مددگار ہوتاہے، بالخصوص جب کہ پڑھنے والا اس کو سمجھتابھی ہو۔
(ج)کسی مذہبی آدمی سے بیعت:
کسی بزرگ اور اللہ والے سے بیعت کرنا بھی انسان کے ایمان اور اخلاق کو سنوارتاہے۔خود بھی بیعت ہوجاناچاہئے اور اپنے بچوں کوبھی بزرگان دین کی مجلس میں بٹھاناچاہئے۔
(د)آخرت کادھیان:
ہر قول وفعل میں آخرت کادھیان ہو، جنت وجہنم کے بارے میں پڑھنا بھی انسان کو اللہ کے سامنے جوابدہی کے احساس کو بڑھاتاہے۔
(ہ)قبرکی زیارت:
قبرکی زیارت کرنا بھی اس فانی دنیاوی زندگی کی حقیقت کویاددلاتی ہے۔
(و)اللہ کاذکر:
اللہ کے نام کاذکر کرنا مثلا اللہ اللہ، لاالہ الااللہ کا ورد بھی کمزورایمان کے لئے بہترین علاج ہے، یقینا اللہ کاذکر کرنا چنددنوں میں ایمان کو روشن کردیتاہے۔
یہ کچھ طریقے ہیں جن سے انسان اپنے ایمان اورتقویٰ کو مضبوط کرسکتاہے۔ جو بین مذہبی شادیوں کی روک تھام کے لئے معین ومددگار ہوں گے۔ ان شاء اللہ!