گجرات حکومت نے گزشتہ سال 15 اگست کو بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی عصمت ریزی اور خاندان کے 11 افراد کے قتل کرنے والے 11 قصورواروں کو سزا میں کمی کرتے ہوئے جیل سے رہا کیا تھا۔ جس پر اپوزیشن اور مختلف گوشوں سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکنوں کی جانب سے مودی حکومت پر سخت نکتہ چینی کی گئی۔
دہلی: سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کے ساتھ ہوئی اجتماعی عصمت دری اور خاندان کے افراد کے قتل کے تمام 11 قصورواروں کو دی گئی معافی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کو 11 جولائی تک ملتوی کردیا ہے۔ جسٹس کے. ایم جوزف، جسٹس بی آر جسٹس وی ناگارتنا اور جسٹس احسن الدین امان اللہ کی بنچ نے ان مجرموں کو دوبارہ نوٹس جاری کرنے کی ہدایت دی ہے جنہیں نوٹس جاری نہیں ہوئے ہیں۔
بنچ نے مقامی اخبارات بشمول گجراتی اور انگریزی میں ان مجرموں کے لیے نوٹس شائع کرنے کی بھی ہدایت دی جن کو نوٹس نہیں دیے گئے ہیں۔عدالت نے کہا کہ اخبارات میں شائع ہونے والے نوٹس میں سماعت کی اگلی تاریخ (11 جولائی) کا بھی ذکر کیا جائے۔ بنچ نے کہا کہ ہم یہ طریقہ کار اپنا رہے ہیں تاکہ سماعت کی اگلی تاریخ پر وقت ضائع نہ ہو اور سماعت آگے بڑھ سکے۔
سپریم کورٹ میں اس کیس کی اگلی سماعت کی تاریخ کے دن یعنی 11 جولائی کو ایک نیا بنچ تشکیل دیئے جانے کا امکان ہے۔ کیونکہ بینچ کی سربراہی کرنے والے جسٹس جوزف 16 جون کو ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔ جسٹس جوزف کا آخری ورک ڈے 19 مئی کو ہوگا۔ سپریم کورٹ میں 20 مئی سے 2 جولائی تک گرمیوں کی چھٹیاں ہیں۔عدالت عظمیٰ نے اس معاملے کی سماعت بھی 2 مئی کو ملتوی کر دی تھی جب کچھ مجرموں کے وکلاء نے نوٹس کی عدم پیشی پر اعتراضات اٹھائے تھے۔
گجرات حکومت نے گزشتہ سال 15 اگست کو اس کیس کے 11 قصورواروں کو سزا سے استثنیٰ دیتے ہوئے جیل سے رہا کیا تھا۔ واضح رہے کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ (سی پی آئی-ایم) لیڈر سبھاشنی علی، آزاد صحافی ریوتی لال، روپ ریکھا ورما، لکھنؤ یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر اور ترنمول کانگریس کی رکن اسمبلی مہوا موئترا نے مجرموں کی رہائی کے خلاف درخواستیں دائر کی ہیں۔
غور طلب ہے کہ بلقیس کی عمر واردات کے وقت 21 سال تھی، اس دوران بلقیس بانو پانچ ماہ کی حاملہ تھی جب اس کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی اور گجرات میں گودھرا کے بعد ہونے والے فسادات میں اس کی تین سالہ بیٹی سمیت خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا تھا۔