قومی ذرائع ابلاغ اور مسلم دشمن، فرقہ پرست عناصر نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی قبر کی ایک تصویر کے ساتھ بے بنیاد من گھڑت کہانیاں گڑھ کر نہ صرف پڑوسی ملک پاکستان بلکہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی تاہم اس وائرل تصویر کی سچائی اجاگر ہوئی ہے کہ یہ قبر پڑوسی ملک یا ہندوستان کی کسی ریاست کی نہیں بلکہ شہر حیدرآباد کے پرانے شہر کے ایک قبرستان کی ہے جہاں مرحوم کے لواحقین نے اس قبر میں کسی اور کی تدفین نہ ہو اس کے لئے جگہ کو محفوظ کرنے کے لئے لوہے کی گرل لگاکر تالہ لگوایا ہے۔
گزشتہ دو دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک تالے بند قبر کی تصاویر وائرل رہی ہے اور دعوی کیا جارہا ہے کہ یہ قبر پاکستان کی ہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ مذکورہ تالے والی قبر بھارتی شہر حیدرآباد کی ہیں نہ کہ پاکستان کی، جیسا کہ ایک مقامی شخص نے قبرستان میں جاکر مذکورہ قبر کی ویڈیو گرافی کرکے اس کا انکشاف کیا ہے۔ چند قومی میڈیا اداروں نے ہفتے کے روز یہ خبر چلائی کہ پاکستان میں والدین اپنی بیٹیوں کی قبروں میں تالے لگارہے ہیں تاکہ انہیں عصمت دری سے بچایا جا سکے۔
تاہم اتوار کو سچائی اس وقت سامنے آئی جب گزشتہ دنوں حیدرآباد کے پرانے شہر کے مادنا پیٹ علاقے میں واقع قبرستان میں تالے لگی قبر کو دیکھنے والے ایک شخص نے سوشل میڈیا پر تصاویر اور ویڈیو پوسٹ کرنے کے لیے اسی جگہ کا دورہ کیا۔ ویڈیو میں موجود شخص نے انکشاف کیا کہ یہ اس کے دوست کی ماں کی قبر ہے۔ بوڑھی خاتون کا گزشتہ سال انتقال ہو گیا تھا اور اسے وہیں دفنانے کے بعد ان کے اہل خانہ نے تالہ لگا دیا تھا تاکہ کسی اور میت کی تدفین اسی جگہ پر نہ ہو سکے۔
ذرائع کے مطابق جالی لگانے پر ابتداء میں ہی اعتراض کیا گیا تھا لیکن مرحومہ کے ورثاء نے اس جگہ کے تحفظ اور مٹی کی قبر ہونے کے سبب اسے مٹائے جانے سے محفوظ رکھنے اور اس کی جگہ کسی اور تدفین نہ ہونے دینے کا استدلال پیش کرتے ہوئے لوہے کی جالی لگوائی ہے۔
مسجد سالار الملک کے مؤذن نے بتایا کہ انہوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ اپنے مُردوں کو پرانی قبروں میں دفن کر رہے ہیں۔ ایسی حرکت کو روکنے کے لیے متوفی کے لواحقین نے لوہے کی گرل قبر پر لگا کر تالا لگا دیا۔ انہوں نے کہا کہ قبر کے اوپر گرل بھی لگائی گئی ہے کیونکہ یہ داخلی دروازے کے بالکل قریب ہے اور متوفی کے اہل خانہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ زائرین اس پر قدم نہ رکھیں۔
بتادیں کہ مسجد سالار الملک مذکورہ قبرستان کے قریب واقع ہے اور جس مؤذن نے اس حقیقت کا انکشاف کیا وہ اسی مسجد میں گذشتہ کئی برسوں سے اذان دینے کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔