روزہ کے بعد خاص طور پر دعا قبول ہوتی ہے، یہ قبولیت کی خاص گھڑی ہوتی ہے۔ اس لیے روزہ افطار کے وقت اور اس کے بعد دعا کا خاص اہتمام کرنا چاہیے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: للصائم عند فطرہ دعوة مستجابة/ ابو داود یعنی روزہ افطار کرنے کے وقت روزہ دار کی دعا مقبول ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ افطار کے وقت سب گھر 🏡 والوں کو جمع کرکے دعا کیا کرتے تھے۔
سورہ بقرہ میں پہلے تین آیتوں میں روزہ اور رمضان کے فضائل کو بیان کیا گیا ہے اور اس کے بعد ایک طویل آیت میں روزہ اور اعتکاف کے احکام کی تفصیل ہے، لیکن درمیان میں ایک مختصر آیت و اذا سالک عبادی عنی فانی قریب الخ ہے۔ درمیان کی اس مختصر آیت میں بندوں کے حال پر حق تعالیٰ کی خاص عنایت، ان کی دعائیں سننے اور قبول کرنے کا ذکر فرما کر اطاعت احکام کی ترغیب دی گئی ہے، کیونکہ روزہ کی عبادتوں میں رخصتوں اور سہولتوں کے باوجود کسی قدر مشقت ہے، اس کو سہل کرنے کے لیے اپنی مخصوص عنایت کا ذکر فرمایا کہ میں اپنے بندوں سے قریب ہی ہوں جب بھی وہ دعا مانگتے ہیں میں ان کی دعائیں قبول کرتا ہوں اور ان کی حاجت کو پورا کر دیتا ہوں۔ ان حالات میں بندوں کو بھی چاہیے کہ میرے احکام کی تعمیل میں کچھ مشقت بھی ہو تو برداشت کریں۔ امام ابن کثیر رح نے اس درمیانی جملہ ترغیب دعا کی یہ حکمت بتلائی ہے کہ اس آیت نے اشارہ کردیا کہ روزہ کے بعد دعا قبول ہوتی ہے۔
اس لیے ہر روزہ دار کو چاہیے کہ اس ماہ مبارک میں روزہ کا خصوصی اہتمام کرے خاص طور پر افطار کے وقت۔ دعا کب، اور کیسے قبول ہوتی ہے، دعا کی اہمیت اور حقیقت کیا ہے، اس کے آداب و اصول کیا ہیں؟ اس سلسلہ میں علماء کرام لکھتے ہیں :
،،مؤمن کا ہتھیار اور تمام عبادتوں کی روح اور مغز ہے، دعا میں چونکہ انسان اپنی کمزوری و ناتوانی، عجز و انکساری، عاجزی و لاچاری، بے بسی و بے کسی، مسکینی و محکومی اور بے یاری و مددگاری کا اظہار اللہ تعالیٰ کے سامنے کرتا ہے، لہٰذا تمام اوقات میں عموماً اور ماہ رمضان المبارک میں خصوصاً اس کی زبردست اہمیت و فضیلت اور عظیم الشان ثمرات و فوائد ہیں، جو درج ذیل ہیں:
1- دعا اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہے، فرمان باری تعالیٰ ہے:( و قال ربكم: ادعوني أستجب لكم، إن الذين يستكبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين).( 40/ غافر: 60)-( تمہارا رب کہتا ہے کہ مجھے پکارو، میں تمہاری پکار سنوں گا، جو لوگ میری بندگی سے اکڑتے ہیں اور تکبر کرتے ہیں، آئندہ جھکے ہوئے ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے)-
اس آیت سے چند چیزیں معلوم ہوئیں:
(الف) دعا کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، لہٰذا دعا کرنے میں اس کے حکم کی تعمیل ہے-
(ب) دعا کرنے والا تکبر سے محفوظ رہتا ہے؛ کیونکہ وہ خود کو عاجز و بے بس اور ناتواں و کمزور سمجھتا ہے، اور یہ خیال کرتا ہے کہ ساری کبریائی و بڑائی اللہ تعالیٰ کے لیے ہے-
(ج) دعا بھی عبادت ہے، ایک حدیث میں بھی اسے عبادت قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت نعمان بن بشیر – رضی اللہ تعالیٰ عنہ- سے روایت ہے کہ نبی کریم- صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین وسلم- نے فرمایا: ” دعا عبادت ہی ہے” – ( الأدب المفرد للبخاری، حدیث نمبر 714، الزھد لابن المبارك، حدیث نمبر 1298، سنن ترمذی، حدیث نمبر 2969، اور یہ صحیح درجہ کی حدیث ہے)-
2- دعا اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے، جیساکہ حضرت عبداللہ بن مسعود- رضی اللہ تعالیٰ عنہ- سے روایت ہے کہ رسول اکرم- صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین وسلم- نے فرمایا: ” اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے کہ اس سے مانگا جائے”- ( سنن ترمذی، حدیث نمبر 3571، شعب الإيمان للبيهقى، حدیث نمبر 1124، المعجم الأوسط للطبرانی، حدیث نمبر 5168، والمعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 10088، اور اس کا مرسل ہونا زیادہ صحیح ہے، لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی- رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ- نے اس کی سند کو حسن درجہ کی قراردیا ہے)-
3- دعا سے دل اطمئنان و مسرت کی کیفیت سے لبریز ہوجاتا ہے؛ کیونکہ بندہ مومن کو دعا کرنے کے بعد امید ہوتی ہے کہ اس کا پروردگار اس کی شکستہ حالی، احتیاج و مصیبت اور بے قراری و بے چینی پر ضرور رحم فرما کر اس کے رنج و الم، درد و تکلیف اور کلفت و پریشانی کو دور فرمائے گا، جیساکہ ارشاد الٰہی ہے:( أمن يجيب المضطر إذا دعاه و يكشف السوء).( 27/ النمل: 62)-( بتاؤ کون ہے جو مجبور و مضطر کی صدا سنتا ہے؟ اور اس کی مصیبت دور کرتا ہے)-
4- دعا سے بلند ہمتی پیدا ہوتی ہے؛ کیونکہ دعا کرنے والا بندہ سمجھتا ہے کہ خواہ حالات کتنے ہی کٹھن کیوں نہ ہوں اور وہ مصائب و شدائد میں کتنا ہی گرفتار کیوں نہ ہو، جو اللہ اس کا سہارا ہے وہ انتہائی قوت و طاقت کا مالک ہے، آب و ہوا اور چرند و پرند سب اس کے لشکری ہیں، لہٰذا وہ اسے بے یار و مددگار نہیں چھوڑے گا، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم- صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین وسلم- نے فرمایا: ” لوگوں میں سب سے زیادہ عاجز و بے بس وہ شخص ہے جو دعا سے عاجز رہ جائے”-( صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 4498، الدعاء للطبرانی، حدیث نمبر 60، المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 5591، بہ روایت: ابو ہریرہ – رضی اللہ تعالیٰ عنہ-، اور یہ صحیح درجہ کی حدیث ہے)-
5- دعا کرنے والا ” متوکلین” کے زمرہ میں شامل ہوجاتا ہے؛ کیونکہ ” توکل” کی یہی حقیقت ہے کہ اسباب و ذرائع اختیار کرنے کے بعد آدمی نتیجہ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردے، اور دعا کرنے والا بھی یہی کرتا ہے کہ نتیجہ کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیتا ہے، اور جو اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے محبت فرماتا ہے، جیساکہ فرمان باری تعالیٰ ہے:( إن الله يحب المتوكلين).( 3/ آل عمران: 159)-( اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے)-
6- دعا سے مصیبت دور ہوتی ہے، چنانچہ بعض مصیبتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر دعا نہیں کی جاتی تو وہ پیش آکر رہتیں، لیکن دعا کی وجہ سے ان کو آنے سے روک دیا گیا، اسی کو ” تقدیر معلق” کہتے ہیں، ایک حدیث میں ہے کہ رسول اکرم- صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین وسلم- نے فرمایا: ” دعا ہی تقدیر ( معلق) کو روک سکتی ہے”-( سنن ترمذی، حدیث نمبر 2139، مستخرج الطوسی، حدیث نمبر 7/ 1654، بہ روایت: سلمان فارسی – رضی اللہ تعالیٰ عنہ-، اور یہ حسن درجہ کی حدیث ہے)-
اور کبھی مصیبت پیش آجاتی ہے، لیکن دعا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے دور فرما دیتا ہے، جیساکہ ابن عمر – رضی اللہ تعالیٰ عنہ- سے روایت ہے کہ رسول کریم- صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین وسلم- نے ارشاد فرمایا: ” تم میں سے جس کے لیے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا، اس کے لیے رحمت کے دروازے وا کردیئے گئے، اور عافیت کی درخواست سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے کوئی پسندیدہ درخواست نہیں کی گئی، اور دعا پیش آنے والی مصیبت اور ایسی مصیبت جو پیش نہ آئی ہو، دونوں کے حق میں مفید ہے، لہٰذا اے اللہ کے بندو! دعا کو لازم پکڑو” – ( سنن ترمذی، حدیث نمبر 3548، المستدرک علی الصحیحین للحاکم، حدیث نمبر 1815، المجالسة و جواهر العلم للدينوري، حدیث نمبر 1686، اور اس کی سند پر کلام ہے)-
7- دعا اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب کے ازالہ کا ذریعہ ہے، چنانچہ انسان مانگنے کی صورت میں غصہ ہوتا ہے، لیکن اللہ تعالٰی اس وقت غصہ ہوتا ہے، جبکہ کوئی اس کا دروازہ نہ کھٹکھٹائے، اس سے نہ مانگے اور اس کے سامنے اپنی درخواست پیش نہ کرے، جیساکہ حضرت ابو ہریرہ- رضی اللہ تعالیٰ عنہ- سے روایت ہے کہ نبی کریم- صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین وسلم- نے فرمایا: ” جو اللہ تعالیٰ سے نہیں مانگتا، اللہ تعالیٰ اس سے غصہ ہوتا ہے”-( الادب المفرد للبخاری، حدیث نمبر 658، سنن ترمذی، حدیث نمبر 3373، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3827، اور یہ حسن درجہ کی حدیث ہے)-
8- دعا کسی نہ کسی شکل میں ضرور قبول ہوتی ہے: اگر جلد بازی نہ کی جائے، اطمینان وسکون، دلجمعی اور حلال و حرام کی تمیز کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر لو لگا کر دعا کی جائے تو دعا ضرور قبول ہوتی ہے، جیساکہ حضرت ابو سعید خدری – رضی اللہ تعالیٰ عنہ- سے روایت ہے کہ نبی کریم – صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین وسلم- نے ارشاد فرمایا:” جو مسلمان ایسی چیز کی دعا کرے جو گناہ نہ ہو، اور نہ ہی اس میں قطع رحمی ہو، تو اللہ تعالیٰ اسے تین چیزوں میں سے کوئی ضرور عطا فرمائے گا: 1- یا تو بعینہ اس کی وہ دعا قبول کر لے گا-
2- یا اس کے لیے اسے ذخیرہ آخرت بنادے گا-
3- یا دعا میں مانگی ہوئی چیز کے بدلہ اس سے کوئی مصیبت دور فرمادے گا-
کسی صحابی نے یہ سن کر کہا کہ تب تو ہم بکثرت دعا کریں گے، اس کی بات سن کر آپ- صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین وسلم- نے فرمایا: اللہ کا خزانہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے”-( الادب المفرد للبخاری، حدیث نمبر 710، مسند احمد، حدیث نمبر 11133، مسند ابی یعلیٰ، حدیث نمبر 1019، اور یہ صحیح درجہ کی حدیث ہے)-
دعا کے ان فوائد و ثمرات اور اہمیت ق فضیلت کے پیش نظر کتاب وسنت میں اس کی بڑی ترغیب آئی ہے، ایک حدیث میں نبی کریم- صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ اجمعین وسلم- نے ارشاد فرمایا: ” دعا سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی چیز معزز نہیں ہے”-( الادب المفرد للبخاری، حدیث نمبر 712، المستدرک علی الصحیحین للحاکم، حدیث نمبر 1801، سنن ترمذی، حدیث نمبر 3370، الدعاء للطبرانی، حدیث نمبر 28، مسند احمد، حدیث نمبر 8748، اور یہ حسن درجہ کی حدیث ہے)-
لہٰذا ماہ رمضان المبارک کی مقدس ساعات و اوقات میں دعا کا خصوصی اہتمام کیجیے، رات کی آخری تہائی میں جب آپ سحری کے لیے اٹھتے ہیں، اس وقت خاص طور سے اپنے رب سے مانگیے کہ اس وقت دعا قبول ہوتی ہے، اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :” ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے عطا کروں، ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا کہ اسے بخش دوں؟ ( السنن الکبری للنسائی، حدیث نمبر 10321، سنن دارمی، حدیث نمبر 1480، بہ روایت: جبیر بن مطعم- رضی اللہ تعالیٰ عنہ-، اور یہ صحیح درجہ کی حدیث ہے)-
نیز افطار کے وقت دعا کا اہتمام کیجیے کہ اس وقت بھی دعا قبول ہوتی ہے-( سنن ترمذی، حدیث نمبر 2526، مسند احمد، حدیث نمبر 8043، اور یہ صحیح درجہ کی حدیث ہے)- لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ بہت سے لوگ افطاری کے دسترخوان پر بھی گپ شپ ہانکتے رہتے ہیں، بکواس اور لغویات میں مبتلا رہتے ہیں، اور دعا کی قبولیت کے اس قیمتی وقت کو ضائع کردیتے ہیں-
تو آئیے عہد کرتے ہیں کہ اس ماہِ مبارک کے مختلف اوقات میں دعا کا اہتمام کریں گے، اور خاص طور پر افطار و سحر کے وقت آہ و بکا، گریہ و زاری اور ابتہال و تضرع کے ساتھ دعا کا اہتمام کریں گے، اور اپنے اس رب کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے، جس کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا، کسی عربی کے شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
لا تسألن من ابن آدم حاجة*
و سل الذي أبوابه لا تحجب=
الله يغضب إن تركت سؤاله*
وابن آدم حين يسأل يغضب=( کسی انسان سے کوئی حاجت مت طلب کرو، اور اس ذات سے مانگو جس کے دروازے بند نہیں ہوتے- اللہ تعالیٰ نہ مانگنے کی وجہ سے غصہ ہوتا ہے، جبکہ انسان سے جب مانگا جاتا ہے تو وہ غصہ ہوتا ہے،،-
(نوٹ اخیر کا حصہ یعنی واوین کی تحریر مولانا مفتی شاہجہاں ندوی کے مضمون سے ماخوذ و مستفاد ہے)