گذشتہ دو دن سے نماز تراویح کا ایک آڈیو سوشل میڈیا پر گردش میں تھا، کہا جارہا ہےکہ یہ کرلا ، ( ساکی ناکہ) ممبئی کی ایک مسجد میں نماز تراویح کا آڈیو ہے۔ اس میں امام تراویح جو کچھ پڑھ رہے ہیں وہ قرآن پاک تو ہرگز نہیں ہے، بلکہ قرآن کے نام پر اس کی کھلی بے حرمتی، بھدا مذاق اور آیات قرآنی و نماز تراویح کے ساتھ عمدا کھلواڑ ہے۔ اس کو سن کر روح تک بے چینی سرایت کرگئی اور پورا وجود لرزہ براندام ہوگیا ۔
دل یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیا ایسی حرکت واقعی کوئی مسلمان کرسکتا ہے؟کتنا بدبخت اور شقی ہوگا وہ شخص جو امام بن کر پوری قوم مسلم کا سر شرم سے جھکا رہا ہے، اور قرآن و نماز کی حرمتوں کو عمدا پامال کررہا ہے۔ کیا اس پوری بھیڑ میں کوئی ایک بھی غیرت مند اور صاحب حمیت ایمان والا نہیں تھا جو اس بے غیرت حافظ کو کالر پکڑ کر پیچھے کردیتا؟ سچ ہے کہ جب ایسے علماء و حفاظ نما بھیڑیے ہماری صفوں میں موجود ہوں تو ہم کو کسی باہری دشمن کی کیا ضرورت ہے؟
یہ کوئی ایک امام یا کسی ایک مسجد کا قصہ نہیں ہے، واقعہ یہ ہے کہ یہ کہانی ہر مسجد کی ہے، جہاں قرآن پاک کے ساتھ خوب دھڑلے سے کھلواڑ کیا جارہا ہے ۔ تین دن، پانچ دن اور دس دن میں ختم قرآن اب ایک فیشن بن گیا ہے۔ ہر مسجد میں اس کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہاں کم سے کم دنوں میں تراویح پڑھانے والے سپرفاسٹ امام صاحب رکھے جائیں۔ جو بلٹ ٹرین سے بھی تیز رفتار ی کے ساتھ تراویح مکمل کردیں۔ایسی جگہوں پر جس طرح کا قرآن پڑھا اور سنا جارہا ہے اس پر اللہ تعالی کی جانب سے ہم شدید عتاب و غضب کے مستحق بن رہے ہیں۔
خوب جان لینا چاہیے کہ اس طرح کے حفاظ کی نہ تو اپنی نماز ہورہی ہے، اور نہ ہی ان کے پیچھے پڑھنے والے نمازیوں کی، بل کہ وہ حافظ خود بھی لعنت کا مستحق بن رہا ہے اور اپنے ساتھ پوری جماعت کو بھی اللہ کے غضب میں شامل کررہا ہے۔
اس پر فوری روک لگانے کی ضرورت ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایسے ناعاقبت اندیش حافظوں کو اپنی مساجد سے نکال باہر کریں۔ مسلک و مشرب کی پابندیوں سے بالاہوکر ہم قرآن اور نماز تراویح کے تقدس کو پامال کرنے والے رمضانی و کاروباری علماء و حفاظ کو سبق سکھائیں، جنھوں نے پوری قوم مسلم کو مستحق لعنت بنانے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔حیرت تو اس پر ہے کہ اس طرح کے واقعات روز افزوں ترقی پر ہیں ، لوگوں کو اپنی مساجد کا حال بھی معلوم ہے، پھر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، وہ مزے لے لے کر اس کو بیان کرتے ہیں لیکن اس کی روک تھام اور اصلاح کی کوئی عملی کوشش نہیں کرتے۔
ہم اجتماعی طور پر اس جرم کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اور شاید ہماری زبوں حالی ، بدبختی اور تنزلی کا اصل سبب بھی کلام اللہ کے ساتھ ہماری بے اعتنائی ہے۔ اس اہم ترین مسئلہ سے نمٹنے کے لیے ہم کو اجتماعی طور پر کوششوں کا آغاز کرنا ہوگا۔ جلسے، جمعہ کے خطابات اور کانفرنسوں کے ذریعہ قرآن کی عظمت، اس کو پڑھانے اور سنانے کے آداب، اور بے ادبی پر اللہ تعالی کا غضب بتلانا ہوگا۔ اس کے پیغام کو عوام الناس کے سامنے رکھنا ہوگا۔ اس کے لیے کرنے کے کام یہ ہیں:
۱۔ تمام مسالک کے ذمہ داران سب سے پہلے اپنی اپنی مساجد کے لیے علماء و حفاظ پر مشتمل کم از کم تین افراد کی ایک کمیٹی بنائیں، جو تراویح پڑھانے کے خواہش مند حفاظ کا باضابطہ انٹرویو لیں۔وہ قرآن پاک کو کئی مقامات سے سن کر پہلے خود اطمینان کریں کہ وہ حافظ صاحب تراویح میں پورا قرآن پاک سنانے کے اہل ہیں یا نہیں۔ اگر وہ واقعی اہل ہوں تو ہی ان کو نماز تراویح کے لیے امام بنایا جائے۔ بصورت دیگر ان سے معذرت کرلی جائے۔
۲۔ ہر امام کے ساتھ ایک جید، خوش الحان اور مضبوط یاد داشت کے حامل قرآن کو سامع بنایا جائے۔ تاکہ وہ بھولنے پر لقمہ دے سکے۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ اگر کوئی سامع نہ ہو تو امام صاحب جہاں بھولتے ہیں اس کو چھوڑ کر آگے سے پڑھتے ہیں، اور بعد میں ذہن سے نکل جاتا ہے کہ کیا چھوٹا تھا، اور نتیجتا قرآن کا ایک حصہ تلاوت کے بغیر رہ جاتا ہے۔
۳۔ ہر مسجد میں پورے ایک ماہ میں ایک قرآن پاک سنانے کا اہتمام کرایا جائے۔اسی کے ساتھ ساتھ تمام نمازیوں کو بتلایا جائے کہ جس طرح پورا قرآن پاک ایک بار تراویح میں سننا سنت نبوی ہے، اسی طرح پورے ماہ پابندی کے ساتھ تراویح پڑھنا بھی سنت نبوی ہے۔ لہذا سب کو پورے ماہ تراویح پڑھنے کا پابند بنانے کی کوشش کی جائے۔
۴۔ جو لوگ کسی مجبوری کی وجہ سے کم ایام میں قرآن پاک سننے کے خواہش مند ہوں ، اور ان کی ضرورت کے پیش نظر ذمہ داران کو کم ایام میں قرآن پاک سنانے کا نظم کرنا ہو تو دس دنوں سے کم میں ختم قرآن کی اجازت ہرگز نہ دی جائے۔ ان لوگوں کے نام نوٹ کیے جائیں، ان کو نماز تراویح شروع کرنے سے پہلے قرآن کریم کی عظمت، نماز تراویح کی اہمیت اور اس کے آداب وغیرہ بتلاکر ان سے حلفیہ وعدہ لیا جائے کہ وہ قرآن پاک کو نماز تراویح میں مکمل سنیں گے، امام کے ساتھ ہی نماز میں شامل ہوں گے اور ہر طرح کی بے اصولیوں، وقت کے ضیاع اور بے ادبیوں سے باز رہیں گے۔ اگر دوران تراویح کسی دن بھی کوئی بے اصولی دیکھی جائے تو فورا اس کا سد باب کیا جائے۔ اور ضرورت پڑنے پر تادیبی کارروائی بھی کی جائے۔
۵۔ نماز تراویح میں ہوسکے تو ہر چار رکعت کے بعد یا ایک دن کی مکمل تراویح کے بعد تراویح میں پڑھے گئے قرآن پاک کا خلاصہ بیان کیا جائے۔ تاکہ صرف قرآن کو سنا ہی نہ جائے، بل کہ اللہ کا وہ پاک کلام جو اس انسان کے لیے نازل ہوا ہےاس کو سمجھنے کی بھی فکر کی جائے۔ اس کے لیے مارکیٹ میں خلاصہ قرآن کے نام سے بہت سی کتابیں دستیاب ہیں۔ ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
یاد رکھیں کہ اگر اب بھی اصلاح کی کوشش نہ کی گئی اور ان باتوں کو عمل میں لانے کی فکر نہ کی گئی تو کوئی بعید نہیں کہ اللہ ہم سے اس کلام پاک کو ہی چھین لے۔ اللہ ہم کو اپنے غضب سے محفوظ فرمائے۔ آمین
امید ہے کہ ارباب حل و عقد ان معروضات پر توجہ فرمائیں گے۔
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّۙ-وَ لَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْؕ-وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ(۱۶)
ترجمہ: کیا ایمان والوں کیلئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد اور اس حق کے لیے جھک جائیں جو نازل ہوا ہے اور مسلمان ان جیسے نہ ہوں جنہیں پہلے کتاب دی گئی پھر ان پر مدت دراز ہوگئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت سے فاسق ہیں۔▪️