نئی دہلی: دہلی پولیس نے بدھ کے روز دہلی ہائی کورٹ کو بتایا کہ اس نے 23 سالہ فیضان کی موت کے سلسلے میں اپنا اصل ریکارڈ جیسے کہ روزانہ کی ڈائری، گرفتاری کے میمو اور ڈیوٹی روسٹر کو محفوظ کر لیا ہے جسے مبینہ طور پر 2020 شمال مشرقی دہلی فسادات کے دوران قومی ترانہ گانے پر مجبور کیا گیا تھا۔
دہلی پولیس کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے جسٹس انوپ جے رام بھمبھانی کو بتایا کہ اس معاملے کی تحقیقات جاری ہے اور دستاویزات ایک ذمہ دار پولیس افسر کی تحویل میں محفوظ ہیں اور اگر عدالت میں پیش کرنے کے لئے کہا جائے تو یہاں پیش کیا جا سکتا ہے۔
عدالت متوفی فیضان کی والدہ، کسمتون کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی، فیضان کی والدہ نے اپنے بیٹے کی موت کی عدالت کی نگرانی میں ایس آئی ٹی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا، جو اس واقعے کے بعد آن لائن منظر عام پر آنے والے ایک ویڈیو میں چار دیگر مسلم افراد کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں فیضان کو کچھ پولیس اہلکار مبینہ طور پر مارتے پیٹتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ فیضان کو اور دیگر افراد کو قومی ترانہ اور وندے ماترم گانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ خاتون نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے اس کے بیٹے کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا اور انتہائی نازک صحت ہونے کے باوجود علاج فراہم کرنے انکار کیا جس کی وجہ سے وہ 26 فروری 2020 کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
درخواست گزار کی طرف سے پیش ہونے والی ایڈوکیٹ ورندا گروور نے دہلی پولیس سے تحقیقات کو منتقل کرنے کے حق میں دلیل دی اور الزام لگایا کہ ثبوت دستیاب ہونے کے باوجود اس معاملے میں مناسب تحقیقات کرنے میں لاپرواہی سے کام لیا گیا جو جانچ اعتماد کو متاثر نہیں کرتی ہے۔
اس نے مزید کہا کہ ایک ماہر معائنہ کار نے ویڈیو میں دکھائے گئے دو پولیس اہلکاروں کی شناخت کرنے کے باوجود، ایجنسی کی طرف سے کوئی حراستی پوچھ تاچھ نہیں کی گئی اور یہ خدشہ ظاہر کیا کہ اس معاملے میں دستاویزی ریکارڈ کو اصل میں محفوظ نہیں کیا گیا ہے۔
اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر امت پرساد نے کہا کہ زیر بحث کچھ دستاویزات پر دوسرے کیسوں میں بھی بھروسہ کیا جا رہا ہے اور انہیں صحیح طور پر محفوظ تحویل میں رکھا گیا ہے۔ ایس پی پی امت پرساد نے کہا ہے کہ ڈائریاں/رجسٹرز وغیرہ اصل حالت میں دستیاب ہیں اور ذمہ دار افسر کی حفاظت میں محفوظ ہیں اور عدالت جب بھی کہے اس کو پیش کیا جاسکتا ہے۔