افغانستان میں ایک سابق خاتون جج نے برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست رد کیے جانے کے بعد خلاصہ کیا ہے کہ وہ چھ ماہ سے اپنے گھر میں بند ہیں۔اس دوران انہوں نے جان کو خطرہ ہونے کی وجہ سے اپنا گھر نہیں چھوڑا۔
غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کے دوران سکیورٹی کی وجوہات کی بناء پر اس کی شناخت مخفی رکھی گئی ہے اور اسے’قدیسہ‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ افغانستان کے کسی نامعلوم مقام سے قدیسہ کی جانب سے دیے گئے انٹرویو میں اس نے کہا کہ وہ پڑوسیوں کے دیکھے جانے کے خوف سے صرف رات کے اوقات میں ہی باغ میں جانے کی ہمت کرتی ہے۔
خواتین کے خلاف تشدد کے مقدمات کی سماعت کرنے والی 46 سالہ جج نے انکشاف کیا کہ انہیں ڈر تھا کہ اگر طالبان انہیں دیکھ لے تو وہ انہیں قتل کر دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ سیاسی پناہ کے تحت برطانیہ آنا چاہتی تھیں لیکن حکام نے ان کی درخواست مسترد کردی تھی۔
قدیسہ نے بتایا "میں چھ ماہ سے گھر میں قید ہوں اور پڑوسیوں کے دیکھے جانے کے ڈر سے دن کے وقت کہیں نہیں جا سکتی اس لیے میں صرف رات کو نکلتی ہوں میں چھ ماہ سے سورج کی روشنی نہیں دیکھی۔”
میڈیا رپورٹ کے مطابق 200 سے زائد خواتین جج اس خوف سے افغانستان میں روپوش ہوگئیں کہ طالبان انہیں ان کے کام کی وجہ سے قتل کر دیں گے۔ طالبان پہلے ہی ہزاروں قیدیوں کو رہا کر چکے ہیں، جن میں شدت پسند اور القاعدہ کے سینیر کارندے بھی شامل ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ ان قیدیوں کی بڑی تعداد کو قید کرنے کے ذمہ دار جج ان قیدیوں کے آزاد ہونے کے بعد اپنی حفاظت کے لیے خوفزدہ ہیں۔