رمضان المبارک جلد ہی ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ یقینا ہمارے دل میں اس ماہ کی بڑی قدر ہے لیکن کیا ہم اس کے لیے تیاری کرتے ہیں؟ کیا ہم اپنے اہل خانہ کو توجہ دلاتے ہیں کہ وہ بھی اس سلسلے میں تیاری کریں اورغفلت سے کام نہ لیں؟
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں صحابہ کرام کو اکٹھا کرتے اورخطبہ دیتے جس میں انھیں رمضان کی آمد کی خوش خبری سناتے تھے۔ رمضان کی فضیلت اور اہمیت کے پیش نظر اس کی تیاری کے سلسلے میں توجہ دلاتے ۔ایسے ہی خطبہ میں آپ نے ارشاد فرمایا:
’’اے لوگو! عنقریب تم پر ایک عظیم الشان ماہ مبارک سایہ فگن ہونے والا ہے ۔اس ماہ مبارک میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزارراتوں سے بہترہے۔اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے فرض کیے، اس کے قیام کو اپنی خوشنودی کا ذریعہ قراردیا، توجس شخص نے اس ماہ میں ایک چھوٹا سا کار خیر انجام دیا اس نے دیگر ماہ کے فرائض کے برابر نیکی حاصل کرلی، یہ صبر اور ہمدردی کا مہینہ ہے۔ ساتھ ہی یہ وہ ماہ مبارک ہے، جس میں اللہ اپنے بندوں کے رزق میں اضافہ فرماتا ہے۔
اس ماہ مبارک میں جس نے کسی روزے دار کو افطار کرایا۔ روزے دار کے روزے میں کمی کے بغیر اس نے روزے دار کے برابرثواب حاصل کیا۔ اور خود کو جہنم سے بچالیا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ ہم میں سے ہرشخص تو روزے دارکو افطار کرانے کی استطاعت نہیں رکھتاہے؟ آپ نے فرمایا: جس نے روزے دار کو پانی کا گھونٹ پلایا، یا دودھ کا گھونٹ پلایا، یا ایک کھجورکے ذریعے افطار کرایا اس کا اجر اسی کے برابر ہے اور اس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے۔ اس سے روزے دار کے اجر میں کمی نہیں ہوگی۔ جس نے اپنے ماتحتوںسے ہلکا کام لیا اس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے۔ ﴿مشکوۃ﴾
اگرہم استقبال رمضان کے لیے تیار ہیں تو ہمیں چند باتوں کا لحاظ کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے یہ کہ ہم اپنے نفس کو آمادہ کریں اور اس ماہ مبارک میں امور خیر انجام دینے کے لیے عملی اقدام کریں۔ اس ذیل میں چندچیزیں آتی ہیں جن کا ہمیں خیال رکھنا چاہیے:
الف: کوئی بھی کام بغیر مشیت الٰہی کے ممکن نہیں تو ہمیں اس کے لیے خدا سے توبہ واستغفار کے ساتھ دعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول دعاؤں کا اہتمام کیا جائے۔
ب: توبہ کا اہتمام کیاجائے توبہ میں انسان اپنے رب کی طرف پوری طرح متوجہ ہوتا ہے ۔گناہوں کا جو فاصلہ انسان اور اس کے رب کے درمیان ہوتا ہے وہ ختم ہوجاتا ہے۔ نیک کاموں کی طرف رغبت بڑھتی ہے جو رمضان کے دیگر عبادات میں بھی معین ثابت ہوگی۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اے مؤمنو! تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ تم فلاح پا جاؤگے(النور:۳۱) توبہ سے متعلق نبی کریم کا ارشادہے : اے لوگو! اللہ سے توبہ کرو، میں دن میں سو بار توبہ کرتا ہوں۔ ﴿مسلم﴾ آپ ﷺ دعا کا بھی اہتمام کرتے تھے۔ آپ سے یہ دعا منقول ہے:
الھم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان ’اے اللہ ہمیں رجب وشعبان میں برکت دے اور رمضان تک صحیح سلامت پہنچا‘
📌 ج: گزشتہ رمضان کے روزے رہ گئے ہوں تو اُنھیں فوراً شعبان کے مہینے میں ہی ادا کرلینا چاہیے۔ابوسلمی کہتی ہیں کہ میں نے عائشہ ؓ کو کہتے ہوئے سنا: میرے ذمہ رمضان کا کوئی روزہ ہوتا تھا تو میں اسے شعبان میں ہی پورا کرلیتی تھی۔﴿متفق علیہ﴾
د: رمضان المبارک کی سب سے اہم عبادت روزہ رکھنا ہے، اس لیے اس کی عادت ڈالنے کے لیے شعبان کے مہینے میں وقفے وقفے سے روزے رکھنے چاہیے تاکہ پوری طرح نشاط رہے اور اس بات کا احساس رہے کہ آئندہ ماہ کے تمام روزے رکھنے ہیں ۔نبی کریم ﷺ کا معمول تھا کہ آپ شعبان کے مہینے میں بکثرت روزے رکھا کرتے تھے۔ مگر پورے ماہ کے روزے صرف رمضان کے ہی رکھتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ رمضان ہی میں پورے ماہ کے روزے رکھتے اور ماہ شعبان میں زیادہ تر روزے رکھتے تھے۔ (متفق علیہ)
ھ: ایک مشہور حدیث ہے کہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے ۔جیسی نیت ہوتی ہے ، معاملہ اسی اعتبار سے ہوتا ہے۔ اسی طرح ابوہریرہؓ سے مروی ایک حدیث ہے کہ انسان کسی نیک کام کی نیت کرتا ہے تو اس کا عمل اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیاجاتاہے۔ ( مسلم )
اس لیے ہم رمضان المبارک کے تئیں آغاز ہی میں اپنی نیت کو درست کریں اور بہت سے نیک اعمال کرنے کی نیت کرلیں۔ مثلا ً تلاوت قرآن کی کثرت، گناہوں سے توبہ کا اہتمام، دعاواذکار کی پابندی، عبادات کا التزام، لوگوں سے معاملات درست کرنے کی نیت، شعبان کے کچھ روزے رکھنا تاکہ آئندہ ماہ کے لیے مشق ہوجائے، دینی وتربیتی کتابوں کا مطالعہ، رمضان سے متعلق دینی بیانات جو سی ڈی وغیرہ کی شکل میں ہوں تو ان کا سننا تاکہ رمضان کا احساسدل میں رہے اور اس کی تیاری پرتوجہ ہوسکے۔
و: رمضان المبارک کی خصوصیت ہے کہ اس ماہ مبارک میں نزول قرآن ہوا۔اس مناسبت سے عام دنوں کے مقابلے میں لوگ قرآن کو زیادہ پڑھتے ہیں تلاوت ایک عبادت ہے اس لیے بھی اس ماہ مبارک میں اس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مگر یہ عمل بھی تیاری چاہتا ہے چنانچہ ہم شعبان کے مہینے سے ہی اپنی یومیہ مسلسل تلاوت شروع کردیں اور اس بات کی نیت کرلیں کہ رمضان میں ایک بار پورے قرآن کا ترجمے کے ساتھ اعادہ کرناہے۔اللہ کا فرمان ہے :
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ ترجمہ: ’ماہ رمضان جس میں قرآن کریم کا نزول ہوا جو تمام انسانوں کے لیے ہدایت ہے‘۔
ز: ایک کسان جب تک کھیت میں بیج نہیں ڈالے گا ، موقع بہ موقع سیراب نہیں کرے گا تو کھیت کے لہلہانے کی توقع فضول ہے۔ ٹھیک یہی حال رمضان اور اس کی تیاری کا ہے۔
شیخ ابوبکرالبلخیؒ کہتے ہیں:
’ماہ رجب کا شتکاری کا مہینہ ہے، ماہ شعبان اس کی سیرابی کا مہینہ ہے اورشہر رمضان کھیت کٹائی کا مہینہ ہے۔ اسی طرح ماہ رجب کو ہوا، شعبان کو غیم اور رمضان کو بارش سے تعبیر کرتے ہیں۔ جس نے اعمال کی کھیتی کے موسم بہارمیں کاشتکاری نہیں کی اور ماہ رجب میں اس کا پودا نہیں لگایا اور شعبان میں اسے سیراب نہیں کیا تو وہ ماہ رمضان اعمال میں کے کھیتی کی کٹائی کیسے کرسکتا ہے۔ اگرماہ رجب گزر گیا ہے تو کم ازکم شعبان کے مہینے سے اس کی کوشش کی جائے۔یہی ہمارے نبی اور اسلاف کا طریقہ رہا ہے ۔‘
ح: آج کل مسلمان دین کے معاملے میں غفلت کا شکار ہیں اور اپنے کاموں میں اس قدر محو ہیں کہ اس کی تیاری کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا، حالانکہ گھرکے ذمہ دار فرد کو اتنا وقت نکالناچاہیے کہ وہ اپنے اہل خانہ کے درمیان رمضان اور اس کے احکام کی تعلیم دے سکے۔اگر وہ نہیں جانتا تو علما سے معلوم کرے اور مساجد کے ائمہ کے خطبات سے فائدہ اٹھائے۔
ماہ رمضان کا یومیہ پروگرام
یہ ذہن بنائیں کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ وقت عبادات میں صرف کرنا ہے ،فرض کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی بکثرت اہتمام کرنا ہے۔اس کے لیے یومیہ پروگرام ترتیب دیں جس میں درج ذیل باتوںکا خیال رکھیں:
﴿الف﴾ فجر سے پہلے کے کام : تہجدکا اہتمام: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّ قَآىٕمًا یَّحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَ یَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهٖؕ- ﴿الزمر:۹﴾
ترجمہ: ’ یا وہ جو مطیع وفرماں بردار ہے رات کے پہر میں سجدہ اورقیام کی حالت میں ہوتا ہے اور اپنے رب سے رحمت کی امید لگاتا ہے۔‘
﴿ب﴾ سحرگاہی کا اہتمام:
نبی کریم کا ارشادہے:تسحروا فان السحور برکۃ ﴿متفق علیہ﴾ سحری کا اہتمام کیا کرو کہ اس میں برکت ہے۔فجرکی سنت کا اہتمام : نبیﷺ نے فرمایا:
رکعتا الفجرخیرمن الدنیا ومافیہا
’ فجرکی دورکعت دنیا اوراس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ ‘﴿ مسلم ﴾
﴿ج﴾دعا اور اذکار میں اپنا وقت لگائیں خاص طورسے اذان اور نماز کے درمیان ِ اوقات میں اس لیے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
الدعاءلایردبین الاذان والاقامۃ﴿متفق علیہ﴾
’اذان اور نماز کے درمیان کے وقت دعائیں ردنہیں کی جاتیں۔‘
﴿د﴾فجر کے بعد سے طلوع شمس تک ذکر اور تلاوت قرآن کے لیے مسجد میں قیام کو لازم پکڑلیں :
کان النبی ِاذا صلی الفجرجلس فی مصلاہ حتی تطلع الشمس حسنا﴿مسلم﴾
نبی کریم ﷺ فجرکی نمازکے بعدطلوع شمس تک اپنے مصلے پر بیٹھے رہتے تھے۔ایک جگہ ارشادہے:
من صلی الفجرفی جماعۃ ثم قعد یذکراللہ حتی تطلع الشمس ثم صلی رکعتین کانت لہ کاجرحجۃ وعمرۃ تامۃ تامۃ تامۃ ﴿ترمذی﴾
فجرکی نماز کے بعد طلوع شمس تک اللہ کا ذکر کرتا رہا پھر دو رکعت نماز ادا کی اس کا اجر ایک مکمل حج اور عمرے کے مانند ہے۔
﴿ھ﴾اس دعا کا اہتمام کہ اللہ ہمارے دن میں برکت دے۔
﴿الہم انی اسالک خیرمافی ہذا الیوم فتحہ ونصرہ ونورہ وبرکتہ وہداہ واعوذبک من شرمافیہ وشرمابعدہ﴾ ابوداؤد
﴿و﴾ظہرکی نماز کی تیاری کرے، فراغت کے بعد بدن کو تھوڑی راحت دے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
استعینوا بطعام السحرعلی الصیام، وبالقیلولۃ علی قیام اللیل ﴿ابن ماجہ﴾
’سحری کھا کر روزے پر اور قیلولہ ﴿دوپہرکے وقت سونے﴾ کے ذریعے رات کی نماز پر مدد حاصل کرو۔‘
﴿ز﴾ غربا پر مال تقسیم کریں: اگر صاحب حیثیت ہیں اور خدا نے مال ودولت سے نوازا ہے توغربا پر مال خرچ کریں اور انھیں افطار کرانے کا نظم کریں۔ کیوں کہ یہ عمل اللہ کو بے حد پسند ہے۔