نئی دہلی: 23 فروری 2020 کو سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے بعد دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں فسادات ہوئے تھے۔ آج 2020 فسادات کو پورے تین سال گزر چکے ہیں۔ ان فسادات میں دہلی کے مختلف علاقوں میں کئی افراد ہلاک جبکےہ سینکڑوں افراد زخمی ہوئے تھے۔ مبینہ طور پر مسلمانوں کی دکانیں جلا دی گئیں اور گھروں کو آگ لگا دی گئی اور یہ سلسلہ تقریبا تین دن تک جاری رہا۔ صورتحال پر قابو پانے کے لیے پولیس کی متعدد ٹیمیں تعینات کی گئیں۔
پولیس نے فسادات سے متعلق کل 758 ایف آئی آر درج کی تھیں، جن کے لیے دہلی کی مختلف عدالتوں میں ان مقدمات کی سماعت جاری ہے۔ جن میں سے 695 ایف آئی آر صرف شمال مشرقی ضلع میں درج کی گئیں۔ اس کے علاوہ اسپیشل سیل اور کرائم برانچ پولیس نے بھی جامعہ ملیہ اور شاہین باغ میں ہوئے فسادات سے متعلق مقدمات درج کیے ہیں۔ ان معاملات میں دہلی پولیس نے کل 2456 ملزمین کو گرفتار کیا تھا۔ ان میں سے ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد کی مختلف مقدمات میں عدالتوں سے ضمانتیں ہو چکی ہیں، حالانکہ دہلی فسادات کے معاملے میں اب بھی بڑی تعداد میں لوگ جیلوں میں قید ہیں۔ دہلی پولیس حکام کے مطابق فسادات کی تحقیقات کے لیے جو ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں ان میں سے بیشتر نے اپنی تحقیقات مکمل کر لی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس کیس سے متعلق چارج شیٹ بھی مقامی عدالت میں داخل کی گئی ہے۔
ان فسادات پر قابو پانے کے لیے پولیس کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ فسادات کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں تقریباً ایک ماہ تک پولیس فورس تعینات رہی۔ دہلی پولیس کی طرف سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق تین سال قبل ہونے والے فسادات سے متعلق 62 مقدمات کی تفتیش دہلی پولیس کی کرائم برانچ کو سونپی گئی تھی، جب کہ اس کی سازش سے متعلق ایک کیس اسپیشل سیل کو سونپا گیا تھا۔
اسپیشل سیل نے کئی ایسے افراد کو گرفتار کیا ہے جو اس کیس کی سازش میں ملوث تھے۔ اس کے ساتھ ہی دہلی پولیس نے تقریباً 400 معاملوں میں اپنی جانچ مکمل کر لی ہے۔ کئی معاملات میں چارج شیٹ عدالت میں داخل کی گئی ہیں اور 338 مقدمات میں عدالت نے چارج شیٹ کا بھی نوٹس لیا ہے۔ اب تک 150 سے زائد مقدمات میں فرد جرم عائد کی جا چکی ہے اور ملزمین کا ٹرائل جاری ہے۔
ان معاملات میں دہلی پولیس کی تفتیش پر ٹرائل کورٹ اور دہلی ہائی کورٹ نے کئی بار سوال اٹھائے تھے۔ حال ہی میں جامعہ تشدد کیس میں سرجیل امام کو بری کرتے ہوئے ساکیت عدالت نے ریمارک کیا کہ دہلی پولیس نے صحیح طریقے سے تفتیش نہیں کی۔ اس کو لے کر دہلی پولیس نے ٹرائل کورٹ کے حکم کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ تاہم دہلی ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے مشاہدے کو خالی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
دوسری طرف کئی دیگر معاملات میں ککڑڈوما عدالت نے بھی دہلی پولیس کی تحقیقات پر کئی بار سوال اٹھائے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پولیس کی چارج شیٹ پر سماعت کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ نے زیادہ تر ملزمان کو بری کر دیا ہے۔ فسادات سے متعلق کیس میں صرف چند لوگوں پر ہی فرد جرم عائد کیا گیا ہے، جب کہ سزا پانے والے ملزمان کی تعداد بہت کم ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق دہلی فسادات کے بعد کئی ایسے افراد کو جیل میں بند کیا گیا اور ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے جن کا فسادات میں دور دور تک کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ عدالت کی جانب سے متعدد ایسے افراد کو بری کیا گیا۔ دہلی فسادات کے الزام میں جن بے قصور مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا تھا جمعیت علماء ہند کی جانب سے ان کو قانونی امداد فراہم کی گئی اور ان کے مقدمات کو عدالت میں چیلنچ کیا گیا اور جمعیت علماء کی پیروی کے باعث عدالت کی جانب سے باعزت بری کیے گئے۔