اسلامی مضامین

واقعۂ معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم

نبوت کے بارہویں سال 27 رجب المرجب کو 51 سال 5 مہینہ کی عمر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کی شکل میں ایک عظیم معجزہ عطا کیا گیا جس کا ذکر قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں مختلف مقامات پر کیا گیا۔ مسجد حرام (مکہ مکرمہ) سے مسجد اقصیٰ کا سفر جس کا تذکرہ سورۂ بنی اسرائیل میں کیا گیا ہے، اس کو اسراء کہتے ہیں۔ اور یہاں سے جو سفر آسمانوں کی طرف ہوا اس کا نام معراج ہے، اس مقدس واقعہ کو اسراء اور معراج دونوں ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔

انسانی تاریخ کا سب سے لمبا سفر

قرآن مجید اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے کہ اسراء ومعراج کا تمام سفر صرف روحانی نہیں بلکہ جسمانی تھا، یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر کوئی خواب نہیں تھا بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا۔ یہ ایک معجزہ تھا کہ مختلف مراحل سے گزرکر اتنا بڑا سفر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے صرف رات کے ایک حصہ میں مکمل فرمادیا۔ اللہ تعالیٰ جو اس پوری کائنات کا خالق و مالک ہے، اس کے لئے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے،کیونکہ وہ تو قادر مطلق ہے،جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کے تو ارادہ کرنے پر چیز کا وجود ہوجاتا ہے۔

معراج کا واقعہ پوری انسانی تاریخ کا ایک ایسا عظیم، مبارک اور بے نظیر معجزہ ہے جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ خالق و ربِ کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دے کر اپنا مہمان بنانے کا وہ شرف عظیم عطا فرمایا جو نہ کسی انسان کو کبھی حاصل ہوا ہے اور نہ کسی مقرب ترین فرشتے کو حاصل ہوا۔

واقعۂ معراج کا مقصد

معراج النبی ﷺ کے مقاصد میں جو سب سے مختصر اور عظیم بات قرآن مجید کے سورہ بنی اسرائیل میں ذکر کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائیں۔۔۔ اس کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ عظیم الشان مقام ومرتبہ عطا کرنا ہے جو کسی بھی بشر حتی کہ کسی مقرب ترین فرشتہ کو نہ حاصل ہے اور نہ حاصل ہوگا۔ ۔۔

اور معراج النبی کے مقاصد میں امت مسلمہ کو یہ پیغام دینا بھی شامل ہے کہ نماز ایسا مہتم بالشان عمل اور عظیم عبادت ہے کہ اس کی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلیٰ مقام پر معراج کی رات میں کیا گیا۔ اس کا حکم حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچایا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرضیتِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔ نماز اللہ جلّ شانہ سے تعلق قائم کرنے اور اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کو مانگنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ نماز میں اللہ تبارک وتعالیٰ سے مناجات ہوتی ہے اور بندہ نماز کی حالت میں ہی اللہ تعالی کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔

واقعۂ معراج کی مختصر تفصیل

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سونے کا طشت لایا گیا جو حکمت اور ایمان سے پُر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ چاک کیا گیا، پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا گیا، پھر اسے حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا اور پھر بجلی کی رفتار سے زیادہ تیز چلنے والی ایک سواری یعنی براق لایا گیا جو لمبا سفید رنگ کا چوپایہ تھا، اس کا قد گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں تک اس کی نظر پڑتی تھی۔ اس پر سوار کرکے حضور خاتم النبیین ﷺ کو بیت المقدس لے جایا گیا اور وہاں تمام انبیاء کرام نے حضور اکرم ﷺ کی اقتداء میں نماز ادا کی۔ پھر آپ ﷺ کو آسمانوں کی طرف لے جایا گیا۔

پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام ، دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحیےٰ علیہ السلام، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے حضور ﷺ کی ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد البیت المعمور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کردیا گیا جہاں روزانہ ستر ہزار فرشتے اللہ کی عبادت کے لئے داخل ہوتے ہیں جو دوبارہ اس میں لوٹ کر نہیں آتے۔

پھر آپ ﷺ کو سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا۔ آپ ﷺ نے دیکھا کہ اس کے پتے اتنے بڑے ہیں جیسے ہاتھی کے کان ہوں اور اس کے پھل اتنے بڑے بڑے ہیں جیسے مٹکے ہوں۔ جب سدرۃ المنتہی کو اللہ کے حکم سے ڈھانکنے والی چیزوں نے ڈھانک لیا تو اس کا حال بدل گیا، اللہ کی کسی بھی مخلوق میں اتنی طاقت نہیں کہ اس کے حسن کو بیان کرسکے۔ سدرۃ المنتہی کی جڑ میں چار نہریں نظر آئیں، دو باطنی نہریں اور دو ظاہری نہریں۔ حضور اکرم ﷺ کے دریافت کرنے پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ باطنی دو نہریں جنت کی نہریں ہیں اور ظاہری دو نہریں فرات اور نیل ہیں (فرات عراق اور نیل مصر میں ہے)۔

نماز کی فرضیت

اس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان چیزوں کی وحی فرمائی جن کی وحی اس وقت فرمانا تھا اور آپ ﷺ کی امت پر پچاس نمازیں فرض کی گئی۔ واپسی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چند مرتبہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوئے اور نمازیں کم کرنے کی درخواست کی۔ ہر مرتبہ پانچ نمازیں کم کردی گئیں یہاں تک کہ صرف پانچ نمازیں باقی رہ گئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پر بھی مزید کم کرنے کی بات کہی، لیکن اس کے بعد حضور اکرم ﷺنے کہا کہ مجھے اس سے زیادہ کم کرنے کا سوال کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور میں اللہ کے اس حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ندا دی گئی: میرے پاس بات بدلی نہیں جاتی ہے یعنی میں نے اپنے فریضہ کا حکم باقی رکھا اور اپنے بندوں سے کمی کردی اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس بناکر دیتا ہوں۔ غرضیکہ ادا کرنے میں پانچ نمازیں ہیں اور ثواب میں پچاس نمازیں ہی ہیں گویا جس شخص نے پانچ نمازیں ادا کی اس کو پچاس نمازوں کا ثواب دیا جائے گا۔

نماز کی فرضیت کے علاوہ دیگر دو انعام

اس موقع پر حضور اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ سے انسان کا رشتہ جوڑنے کا سب سے اہم ذریعہ یعنی نماز کی فرضیت کا تحفہ ملا اور حضور اکرم ﷺ کا اپنی امت کی فکر اور اللہ کے فضل وکرم کی وجہ سے پانچ نماز کی ادائیگی پر پچاس نمازوں کا ثواب دیا جائے گا۔ سورۃ البقرہ کی آخری آیت (آمَنَ الرَّسُولُ سے لے کر آخر تک) عنایت فرمائی گئی۔

اس قانون کا اعلان کیا گیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امیتوں کے شرک کے علاوہ تمام گناہوں کی معافی ممکن ہے یعنی کبیرہ گناہوں کی وجہ سے ہمیشہ عذاب میں نہیں رہیں گے بلکہ توبہ سے معاف ہوجائیں گے یا عذاب بھگت کر چھٹکارا مل جائے گا، البتہ کافر اور مشرک ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔

معراج میں دیدار الہی

زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج میں دیدار الہی سے مشرف ہوئے یا نہیں اور اگر رؤیت ہوئی تو وہ رؤیت بصری تھی یا رؤیت قلبی تھی، البتہ ہمارے لئے اتنا مان لینا انشاء اللہ کافی ہے کہ یہ واقعہ برحق ہے، یہ واقعہ رات کے صرف ایک حصہ میں ہوا، نیز بیداری کی حالت میں ہوا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہے۔