پاکستان میں قرآن مجید کی بے حرمتی کے الزام میں برہم ہجوم کے ہاتھوں ایک شخص کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا۔
پاکستان کی ریاست پنجاب کے ننکانہ صاحب علاقے میں ہفتے کے روز برہم ہجوم نے پولیس اسٹیشن میں داخل ہوکر ایک شخص کو باہر نکال کر ہجومی تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کردیا، متاثرہ شخص پر قرآن مجید کی بے حرمتی کرنے کا الزام عائد تھا۔
سوشل میڈیا پر شیئر کردہ ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ سینکڑوں نوجوان پولیس کمپاؤنڈ کا گھیراؤ کر رہے ہیں، جن میں ایک شخص سیڑھی کا استعمال کرتے ہوئے گیٹ کو عبور کرکے تالا کھول رہا ہے۔ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ایک شخص کے کپڑے اتار کر برہنہ حالت میں سرعام سڑکوں پر گھسیٹا جارہا ہے۔ اس دوران ہجوم اس کو لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے مارا جا رہا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق جب ہجوم اس شخص کو مار رہا تھا جسے مبینہ طور پر قرآن مجید کی بے حرمتی کے الزام میں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا تھا، پولیس سٹیشن ہاؤس آفیسر واربرٹن فیروز بھٹی اور دیگر پولیس اہلکار اپنی جان بچانے کے لیے موقع سے فرار ہو گئے۔
مقامی عوام نے دعویٰ کیا کہ ملزم شخص، جو دو سال جیل میں گزارنے کے بعد واپس آیا تھا، مقدس کاغذات پر اپنی سابقہ بیوی کی تصویر چسپاں کر کے جادوگری کرتا تھا۔ پولیس حکام نے بتایا کہ مقتول کی شناخت محمد وارث کے نام سے ہوئی ہے، جسے مبینہ طور پر قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔
وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق مقامی عوام کا کہنا تھا کہ مبینہ جرم کی خبروں نے مقامی عوام کو برہم کردیا اور بعد ازاں سینکڑوں افراد نے پولیس سٹیشن کا گھیراؤ کر کے ملزمان کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ بڑے پیمانے پر برہم ہجوم کو دیکھ کر پولیس اہلکار موقع سے فرار ہوگئے۔ مظاہرین نے ملزم شخص کو پکڑ کر باہر سڑک پر لے گئے جہاں انہوں نے اسے مار مار کر ہلاک کر دیا۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کے گروپس طویل عرصے سے پاکستانی حکام پر نکتہ چینی کررہے ہیں کہ وہ توہین مذہب کے الزامات پر لنچنگ کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہے ہیں، جو مسلم اکثریتی ملک میں اکثر ہوتے رہے ہیں۔ پاکستانی قانون کے تحت توہین رسالت بھی ایک جرم ہے جس کی سزا موت ہو سکتی ہے۔