جمہوریت انگریزی لفظ ڈیموکریسی (Democracy)کا اردو ترجمہ ہے، جو یونانی زبان کے لفظ
ڈیمو(Demo) اور کریٹوس (Kratos)سے مرکب ہے۔ ڈیمو(Demo)کے معنی ہیں عوام اور کریٹوس(Kratos)کے معنی ہیں حکومت، اس طرح جمہوریت کا مطلب ہوا عوام کی حکومت، لیکن عملاً اس پھیلی ہوئی دنیا اور بڑھتی ہوئی آبادی میں عوام کا براہِ راست اجتماعی طور پر حکومت میں حصہ لینا دشوار تھا، اس لیے(Democracy) کے ساتھ ایک دوسرا لفظ ری پبلک (Republic) بھی جوڑ دیاگیا، یہ اطالوی زبان کے رس پبلیکا (Respublica)سے ماخوذ ہے ،جس کے معنی ہیں”ایسی طرز حکومت جس میں عوام براہِ راست حصہ نہ لیتے ہوں، بلکہ عوام کے منتخب نمائندے اس بار گراں کو اٹھا کر سماجی، ثقافتی، اور سیاسی استحکام کے لیے کوشاں ہوں۔ اس لیے اب اگر ہم جمہوریت کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے مراد ڈیموکریسی (Democracy)کے ساتھ ساتھ ری پبلک(Republic)نظام حکومت بھی ہوتا ہے۔
تاریخی پس منظر:
جمہوری نظام حکومت کی بنیاد کب سے پڑی، یہ ایک تحقیق طلب مسئلہ ہے تاہم اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ تاریخ کے ابتدائی دور میں جب انسان پتھر اور تانبے کے دور سے نکل کر ایک منظم سماج کی تشکیل کررہا تھا، تو سربراہ، قائد اور قبیلوں کے سرخیل کے انتخاب میں لاشعوری طور پر جمہوری طرز اختیار کرتا تھا۔ چنانچہ یونان کے علاقہ ایتھنس میں پانچویں صدی قبل مسیح میں ایسی جمہوریت کا پتہ چلتا ہے جس سے دس ہزار کی آبادی میں سےایک تہائی یعنی تقریباً ساڑھے تین ہزار آدمی حکومت کے کاموں میں براہِ راست حصہ لیتے تھے۔ ویشالی جو جمہوریت کی جائے پیدائش ہے وہاں کے ایوان میں سات ہزار سات سو ستہتر ارکان ہوا کرتے تھے۔
حکومت کی ارسطا طالیسی تقسیم :زمانہ قدیم میں قبل مسیح ہی سے عملاً شعوری طور جمہوریت قائم ہوگئی تھی، لیکن اسے کسی سیاسی نظریے کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکا تھا، کیونکہ اس وقت معاشرہ اس قدر ترقی نہیں کرسکا تھا جو سیاسی اور سماجی طور پر کسی نظریے کی داغ بیل ڈالتا، بعد میں جب انسانی معاشرے نے کچھ ترقی کی اور سماج میں تہذیب وتمدن نے اپنا مقام حاصل کرلیا تو مشہور فلسفی ارسطو نے اپنی کتاب ”سیاسیات “ میں (1)بادشاہت (Royalty) (2)شخصی حاکمیت(Autocracy) (3)طبقاتی حکومت (Oligarchy) اور (4)پالیٹی (Polity) کا سیاسی نظریہ پیش کیا، جو اب تک کی سب سے قدیم اور شاید سب سے سادہ تقسیم ہے،اس سے قبل جمہوریت کا کوئی فکری تصور نہیں تھا۔
جمہوریت ایک سیاسی نظریہ:
زمانے نے کچھ اور ترقی کی، یہاں تک کہ سترھویں صدی کا انقلاب آفریں دور آگیا، عیسائی مذہب کی دیواریں منہدم ہونی شروع ہوگئیں، پاپائیت اور شخصی آمریت کی اہمیت باقی نہ رہی، ظلم وتشدد کے خلاف سماجی وسیاسی شورشیں زور پکڑنے لگیں، اور اس آگ کے شعلے مذہب کے دامن سے نکل کر سیاست کے دامن کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے لگے، میکاویلی(Macavelli)اور طامس ڈیکن(Thomas Decean)نے شخصی حکومت کی تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے لیے جمہوریت کو سیاسی نظریے کے طورپرپیش کیا، خوش قسمتی سے اس نظریے کو اپنے ابتدائی دور میں ہی سرطامس مور(Sir Thomesmore) جیسے مفکر کی حمایت حاصل ہوگئی، جس نے اپنے مشہور ومعروف کتاب ”لی ٹوپیا“(Litopia) میں مثالی اشتراکیت (Idealsocialion) اور جمہوری حکومت (Democraticstate) کے نظریے پرعقلی اور منطقی دلائل کے انبار لگادیے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ انگلستان کے بادشاہ چارلس اوّل کے زمانے میں کرامویل کی قیادت میں 1688میں انقلاب برپا ہوا اور پھر عوام نے فرانس اور جرمن حکومت کا تختہ الٹ کر اسے بھی جمہوریت کی آغوش میں دے دیا، مرور ایام کے ساتھ اس نظریے نے اتنا فروغ پایاکہ کہیں تو شاہوں نے برضا ورغبت گدی خالی کردی اور کہیں عوام نے جبراً تخت نشیں کو خاک نشیں بناکر اپنا تسلط قائم کرلیا۔
جمہوریت کی تعریف:
ابراہیم لنکن(Abraham Lincoln) نے جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”عوام کی حکومت جو عوام کے ہاتھوں اور عوام کے لیے ہو“(Government of the People for the People and by the people) کو جمہوریت کہتے ہیں۔ صاحبِ فیروز اللغات نے جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”جمہوریت وہ نظام حکومت ہے جس میں عوام کے انتخاب کی بنائ پر کسی کو حاکم مقررکرلیاگیا ہو اوروہی شخص عوام کے سامنے جوابدہ ہو“۔
جمہوریت کے اجزاء ترکیبی:
مختلف ماہرین سیاسیات نے جمہوریت کے مختلف اجزاء ترکیبی بیان کیے ہیں، لیکن ان تمام میں دواجزاءمشترک ہیں،ایک سیکولرزم اور دوسرا نیشنلزم، سیکولرزم کے معنی لادینی، غیر مذہبی، خدا بیزاری کے ہیں، اور اصطلاح میں سیکولرزم ایسے رجحان کو کہا جاتا ہے جس کا تعلق سیاسی اورسماجی اداروں میں ، مذہبی معتقدات اور مابعدالطبعی تصورات پر مبنی نہ ہوں، اس کا دوسرا جزء نیشنلزم ہے جو مساوات، انقلابی اور قومی نظریہ کے مترادف ہے۔ ان کے علاوہ آج کے ترقی پذیر دور میں مغربی جمہوریت کے کچھ اور اجزاءترکیبی امیدواری (Candidating) ورغلانا(Canvencing)پروپیگنڈہ، رائے دہندگی(Voting)اور کثرت رائے (Majortty) نکل آئے ہیں جو جمہوریت کے بازار میں سکہ رائج الوقت کی طرح چلتے ہیں۔
جمہوریت نے کیا دیا؟ ابتداء میں جمہوریت کا نظریہ شخصی حاکمیت کے مقابلے میں پیش کیا گیا تھا، جس کے معنی یہ تھے کہ خاندان کے کسی ایک فرد کو لاکھوں اورکروڑوں انسانوں پرحکومت کرنے کا کوئی حق نہیں، تمام انسان برابر ہیں، ان میں سے ہرایک کی اپنی انفرادی اہمیت ہے، جب کہ شخصی حکومت میں انفرادی حیثیت غلامی میں تبدیل ہوجاتی ہے، اس لیے انسانیت اور انفرادی اہمیت کی ازسرنو بحالی کے لیے ایک ہی راستہ تھا کہ جمہوریت کو فروع دیا جائے تاکہ انسان کی حیثیت صرف ایک خارجی شئے کی نہ رہ جائے بلکہ اسے سماجی، سیاسی اور شہری حقوق بدرجہ اتم حاصل ہوں، وحشی مادی قوتوں اور بہیمانہ خاصیتوں کا زوال ہو، اور انسان انسانیت کی ڈگر پر آگے بڑھ سکے، اقتصادیات میں قومی دولت کو اتنا فروغ مل جائے کہ ملک کی ساری آبادی کو ایک معقول زندگی بسر کرنے کا موقع ہاتھ آسکے اور دولت کی تقسیم کا ایسا معقول انتظام ہو کہ سرمایہ دار اور مزدور کی طبقاتی کشمکش ختم ہواور ہر ایک کو معیاری زندگی گزارنے کے اسباب مہیا کرائے جاسکیں۔
لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا،جمہوریت کے تانے بانے بھی ان مسائل کو حل کرنے میں تارعنکبوت ثابت ہوئے، آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ جن خطرات سے بچنے کے لیے اتنے پاپڑ بیلے گئے تھے وہ سب خواب وخیال بن کر آرزوؤں کی چتا پربے گور وکفن پڑے ہوئے ہیں، اس کے برعکس قومیت ووطنیت کے جھگڑے نے آج سارے عالم کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہے،اورآمریت خم ٹھونک کر میدان میں آگئی ہے، استعماریت نے اپنے خونی پنجے انسانیت کی شہ رگ میں اتارنا شروع کردیا ہے، طبقاتی کشمکش اور غریبی امیری کی خلیجیں اتنی گہری ہوگئی ہیں کہ شاید مدتوں تک انہیں پاٹا نہ جاسکے۔ اور اس طرح دنیا دوعالمگیر جنگوں کی تباہ کاریوں کے بعد تیسری جنگ کے دہانے پر کھڑی ہوئی ہے،نیوکلیائی ہتھیاروں اورایٹمی توانائی کے اس دور میں جس کا روکنا شاید ممکن نہ ہو۔
غلطی کہاں ہوئی؟ جمہوریت میں جہاں تک شخصی حاکمیت کے ختم کرنے کا تصور ہے وہ اپنی جگہ نہ صرف درست بلکہ لائق ستائش ہے،ہمیں اس سے بھی انکار نہیں کہ جمہوریت کی دعوت ایک ایسی دعوت ہے، جوعام انسانی سوسائٹی کی عالمی انسانی تنظیم کے لیے کوشش کرتی ہے، ہمیں یہ بھی علم ہے کہ جمہوریت افراد اور قوموں کے درمیان بلاتفریق تمام نوع انسا ن کی بھلائی اور خوش حالی کے لیے کوشاں ہے۔
اگر بات اتنی ہی ہوتی تو اس سے انسانیت کودرپیش چیلنج کا حل بآسانی ہوسکتا، لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے، بلکہ شخصی حکومت کے عدم سے ایک وجود اور نہیں سے”ہے“ نے جنم لے لیاہے۔ جوبنیادی طورپرغلط ہے ، عوام کی حکومت اور قانون سازی کا حق (Right to Rule) عوام کو دیدینا یہ جمہوریت کی اتنی بڑی خرابی ہے جس نے اس کے تمام اصلاحی اقدامات اور انقلابی افکار کو منجمد کردیا ہے، جب سنگ بنیاد ہی ٹیڑھی ہو تو دیوار کے سیدھے ہونے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں جمہوریت کے بانیوں اور داعیوں نے شدید ٹھوکریں کھائی ہے وہ یہ بھول گئے کہ یہ نظر یہ انسان پر انسان کی برتری کو تسلیم کرتا ہے اور یہی ملوکیت کی دوسری شکل ہے، انھیں یہ بھی خیال نہیں رہاکہ جب قانون سازی کا حق عوام کو دے دیا جائے گا تو ہر قوم اپنے مفادات اور حالات کے اعتبار سے قوانین بنائے گی اور اگر یہ کام مجلس قانون ساز کے ذمہ بھی کردیا جائے گا تو بھی اس کے ارکان اپنے کو ذات پات کے حدود، قبائلی، علاقائی، لسانی، اور جغرافیائی حصار سے الگ نہیں کرسکیں گے۔
نتیجتاً ایسا قانو ن کبھی بن ہی نہیں سکے گا جو تمام طبقے کے لیے موزوں اور مناسب ہو،کہیں ایک جمہوریت دوسری جمہوریت سے ٹکراجائے گی،اور کہیں فرد کی بے لگام آزادی افکار وعمل کی ہم آہنگی کو پارہ پارہ کردے گی اوراگر بالفرض ایسا نہ بھی ہوسکا تو بھی مغربی جمہوریت میں قومیت کا عنصر اتنا غالب ہے کہ وہ پوری عالم انسانیت کو ایک رشتے میں کبھی بھی منسلک نہیں ہونے دے گی۔ اورانسان کبھی بھی جاہلیت کے قومی تعصب اورنسلی امتیاز کے ریشمی قباکو چاک نہیں کرسکے گا اور جب تک تعصب کی یہ چادر باقی رہے گی امن وشانتی کی تمام تدبیریں ریت کی دیواروں کی طرح ہباء منثورہ ہوتی رہیں گی۔
شخصی حاکمیت کا نعم البدل:
ان حالات میں آج دنیا کو ایک ایسے نظام حکومت کی ضرور ت ہے، جو مندرجہ بالا خرابیوں سے پاک وصاف ہو، اور وہ صرف اسلامی نظام حکومت ہے، اسلام بنیادی طورپر قانون سازی کا حق (Right to Rule)ایک ایسے قادر مطلق کے لیے ثابت کرتا ہے، جس کے نزدیک امیر، غریب، عورت ،مرد ، کالے،گورے، شیعہ ، سنّی ، عرب وعجم، یونانی تورانی سب کے سب برابر ہیں، اس کے نزدیک نہ تو طبقاتی کشمکش ہے اور نہ اپنے حقوق محفوظ رکھنے کا کوئی سوال، وہ جمہوریت کا قائل ہے، لیکن ایسی جمہوریت کا نہیں جو تمام دنیا کو خونی آماجگاہ بنادے، بلکہ وہ اپنی حکومت انسانوں کی فلاح وبہبود کے لیے انسانوں کے ہاتھوں سے چلواتا ہے۔
گویاکہ اسلام کے نظریہ سیاسی میں عوامی حکومت (Government of The People) کے بجائے خدائی حکومت(Government of The God) کا تصور غالب ہے اور اسی لیے اس نے انسانوں کو روئے زمین پر اپنا خلیفہ بنایا ہے، خدائی قانون کے علاوہ کسی بھی انسانی قوانین کو وہ جھوٹ، کذب، اور بہتان طرازی سے تعبیر کرتا ہے۔ وہ تمام دنیاکے لوگوں کو ایک قانون اور اٹل دستور کا پابند کرنا چاہتا ہے اور تمام غیر خدائی قوانین سے گریز کا حکم دیتا ہے: وہ کہتا ہے کہ حکمرانی خدا ہی کی ہے، وہ جس کو چاہتا ہے، اپنی حکومت بطور خلافت اس کے ذمہ کردیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتاہے۔ وہ اپنی حکومت سے تمام شرکاء کی نفی کرتا ہے ولم یکن لہ شریک فی الملک ، وہ بار بار آگاہ کرتا ہے کہ حکومت اسی کی ہے اور خلق بھی اسی کا ہے، الالہ الخلق والامر اور پھر بھی اگر لو گ نہ مانیں اور اپنی حکمرانی ہی پر مصر ہوں تو اسلام آخری اور حتمی فیصلہ سنا دیتا ہے:کہ جولوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ کافر ہیں۔