بھارت میں تعلیمِ نسواں کی علم بردار اور جدید بھارت میں لڑکیوں کے سب سے پہلے اسکول کی بانی ساوتری بائی پُھلے کو سب جانتے ہیں لیکن ساوتری بائی پُھلے کے ساتھ قدم سے قدم اور کاندھے سے کاندھا ملا کر اور ہر موقع پر ان کی مدد کرنے والی، علم کی شمع روشن کرنے والی اولین ٹرینڈ مسلم ٹیچر فاطمہ شیخ کو کم ہی لوگ جانتے ہیں، آج ان کا یوم پیدائش ہے۔
اٹھارہویں صدی عیسوی میں ہمارے ملک بھارت میں لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا تو درکنار اس کا تصور بھی محال تھا، لڑکیوں کی تعلیم کو گناہ تصور کیا جاتا تھا، ایسے حالات میں قوم کے مصلح و سماجی جہد کار جیوتی راؤ پُھلے نے ان کی اہلیہ ساوتری بائی کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے ان قدیم روایات کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ اس مخالفت کو عملی جامہ بھی پہنایا۔ اور پھر ایک چراغ سے دوسرا چراغ اور اس طرح کئی چراغ روشن ہوتے چلے گئے، لیکن فرسودہ روایات کے اس دور میں یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں تھا۔
ساوتری بائی کا سماجی بائیکاٹ اور نان ونفقہ بند ہوگیا۔ ان حالات میں عثمان شیخ اور ان کی بہن فاطمہ شیخ نے پُھلے خاندان کی ہر اعتبار سے مدد کی۔ فاطمہ شیخ نے ساوتری بائی سے تعلیم حاصل کی اور پھر زندگی بھر شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ اس جہد مسلسل میں شامل رہیں۔ فاطمہ شیخ کی پیدائش مہاراشٹر کے پونے ضلع میں 9 جنوری 1831 کو ہوئی۔
فاطمہ شیخ اور ساوتری بائی نے عورتوں کے ساتھ ساتھ نچلے اور دبے ہوئے طبقے کے لوگوں کو تعلیم دینا شروع کیا تو ان کو مقامی افراد کی جانب سے دھمکیاں ملیں، ان دونوں کے خاندانوں کو نشانہ بنایا گیا اور ان سے کہا گیا کہ وہ لوگوں کو پڑھانا چھوڑ دیں یا پھر گاؤں چھوڑ کر گھر بدر ہو جائیں، انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور گھر ہی چھوڑ دیا۔
تاریخ کے جانکاروں کا کہنا ہے کہ ایک جنوری سنہ اٹھارہ سو اڑتالیس میں مہاراشٹر کے پونے شہر میں لڑکیوں کے سب سے پہلے اسکول کی جب بنیاد رکھی گئی تو اس وقت اسکول کی بانی ساوتری بائی پُھلے کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرنے والی خاتون ٹیچر کی حیثیت سے فاطمہ شیخ ان کے ہمراہ موجود تھیں۔
اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اور معاشرہ کی اصلاح کی خاطر فاطمہ شیخ نے لڑکیوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بیواؤں کے نکاح، ان کی باز آباد کاری اور خواتین کے حقوق کے علاوہ عدم مساوات کے خلاف بھی نہ صرف جدوجہد کی بلکہ عملی اقدامات کیے۔