حیدرآباد: مرکز میں جاری حکومت کے گزشتہ 8 سال میں اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم لگاتار دیکھنے میں آئے ہیں۔ اس کے تسلسل میں 2022ء کچھ مختلف سال نہ رہا۔
خاص طور پر آخری ماہ ڈسمبر میں مسلمانوں سے نفرت پر مبنی جرائم اور اسلام سے خوف کے نتیجہ میں رونما ہونے والے واقعات زیادہ رونما ہوئے ہیں۔
نومبر میں کرناٹک میں ایک ٹیچر نے ایک نوجوان مسلم انجینئرنگ اسٹوڈنٹ کو دہشت گرد سے مخاطب کیا تھا۔ اسی ماہ ایک گورنمنٹ اسکول کے پرنسپل کی گرفتاری اس لیے ہوئی کہ انہوں نے اسکول اسمبلی میں ’’لب پے آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ نظم پڑھنے کی اجازت دے رکھی تھی۔
اس کے بعد ڈسمبر میں تو لگاتار کئی واقعات پیش آئے جن میں زیادہ تر کا تعلق ریاست کرناٹک سے ہے جہاں 2023ء میں اسمبلی الیکشن ہونے والا ہے۔ 3 ڈسمبر کو راجستھان کے ایک ٹاون میں ایم بی آر کالج کی طالبہ حسینہ بانو نے ہسٹری ٹیچر پر الزام عائد کیا کہ وہ اسلاموفوبیا سے متاثر ہوکر ریمارکس کرتا ہے۔
5 ڈسمبر کو کرناٹک کے مانڈیا میں سری رنگا پٹنا کی جامع مسجد میں ہنومان بھکتوں نے گھس کر پوجا کی کوشش کی۔ 13 ڈسمبر کو کرناٹک کے کلبرگی ریلوے اسٹیشن کو ہندو تنظیم کے دباو پر سبز رنگ مٹاکر سفید کردیا گیا۔
14 ڈسمبر کو مہاراشٹرا کے کولہاپور میں بہادرشاہ ظفر کا پورٹریٹ بعض شرپسندوں نے توڑ ڈالا۔ /15 ڈسمبر کو کرناٹک میں بجرنگ دل نے مسلم شخص کو مارا پیٹا۔
اسی طرح کرناٹک کے دیگر مقامات اور مہاراشٹر میں بھی واقعات پیش آئے۔ اسی طرح ملک کے دیگر علاقوں میں بھی مسلمانوں سے نفرت آمیز واقعات پیش آچکے ہیں۔