اسمبلی سے پارلیامنٹ تک ان دنوں چھپرہ اور سیوان کے مشرَق عیسوا پور، مرہوڑہ اور امنور تھانہ کے متعدد گاؤں میں زہریلی شراب سے اموات کا تذکرہ ہے، گرما گرم بحثیں ہو رہی ہیں، الزام تراشی اور دفاع میں تقریروں کا بول بالا ہے ، حزب اختلاف اس مسئلہ پر حکومت کو گھیرنا چاہتا ہے ، اس نے اسمبلی سے گورنر ہاؤس تک نتیش کمار کے خلاف مورچہ کھول رکھا ہے ، اسمبلی میں جو تکرار ہو رہی ہے وہ کسی سبزی منڈی اور مچھلی ہاٹ کا منظر پیش کر رہا ہے ، منتخب نمائندے کرسی اٹھا رہے ہیں، خود وزیر اعلیٰ بھی اپنا آپا کھو رہے ہیں، دوسری بار لوگوں نے انہیں ودھان سبھا میں گرجتے اور غصہ میں ابلتے دیکھا ہے ، اس گرمی اور غصہ نے آگ میں گھی کا کام کیا اور بحث میں مزید تلخیاں پیدا ہوئیں۔
انفعالیت ، جذباتیت ، اپنی جگہ؛ لیکن موقف وزیر اعلیٰ کا درست ہے، انہوں نے اسمبلی میں اعلان کیا کہ جن لوگوں نے شراب بندی قانون کی مخالفت کی اور زہریلی شراب پیااور مرے، ان سے کوئی ہمدردی نہیں اور معاوضہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس اعلان میں معقولیت ہے کیوں کہ شراب نوشی بہار میں غیر قانونی ہے اور جرم کے درجہ میں آتا ہے ، اس کو تمام پارٹیوں کی حمایت سے نافذ کیا گیا تھا، بی جے پی نے بھی اس کی حمایت کی تھی اور اسی کے کہنے پر شراب بندی قانون کے بعض دفعات میں نرمی پیدا کی گئی تھی۔
اس لیے بی جے پی کی یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آتی کہ مہلوکین کے ورثاءکو معاوضہ دیا جائے، قانون شکنی پر سزا ملے گی یا معاوضہ دیا جائے گا، قانون شکنی کی سزا میں وہ موت کی نیند خود ہی سو گیے،ا س لیے دوسری سزا کا کوئی جواز نہیں ہے ، یہ بات ٹھیک ہے کہ ان کی موت سے ان کا خاندان بے سہارا ہو گیا اور ان کو پوری زندگی بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ کسی قانون میں ا ن بے سہاروں کو سہارا دینے کی شکل نہیں ہے ، ورنہ عدالت جنہیں پھانسی پر قانون کے تقاضوں سے چڑھا دیتی ہے ، کوئی حکومت ان کے بچوں کی پریشانی کا معاوضہ نہیں دیتی ، فطری موت مرنے والوں کے بچے بھی یتیم ہوتے ہیں، لیکن ان کی فکر بھی کون کرتا ہے، اسی طرح شراب پی کر مرنے والوں کا بھی معاملہ ہے ، وزیر اعلیٰ نے یہ کہہ کر اپنا موقف صاف کر دیا ہے کہ شراب پیوگے تو مروگے۔
اس حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن شراب کی فروخت اور دوسرے صوبوں سے بہار منتقلی بھی جرم ہے ، ان مجرمین کو سزا کب ملے گی اور کون دے گا، جانچ کا موضوع یہ بھی ہے کہ کس نے ان کو شراب پہونچانے میں مدد کی ، بے تحاشہ زہریلی شراب بیچی گئی اور پولیس کو پتہ نہیں چلا، یا ان لوگوں نے پولیس سے تعلقات بنا رکھا تھا، چنانچہ شراب اپنی جگہ پہونچی ، اور اس کی خرید وفروخت میں مجرمین نے اس تعلقات کا فائدہ اٹھایا ایسے میں ضرورت ان تمام کو سزا دلانے کی ہے؛ تاکہ آئندہ اس قسم کے واقعات کو روکا جا سکے ، ورنہ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے اور دلیر ہوجائیں گے اور اس قانون کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا۔
وزیر اعلیٰ نے صحیح کہا ہے کہ اگر معاوضہ دینے کا فیصلہ ہوگا تو اس قانون کو ختم ہی کر دینا ہوگا۔ ریاستی حکومت نے یہ اچھا کیا کہ اکتیس(31) افسران پر مشتمل ایس آئی ٹی جانچ کمیٹی بنانا ہے ، مشرَق تھانہ انچارج رتیش مشرا اور چوکیدار وکیش تیواری کو معطل کر دیا گیا ہے۔ حکومت کو شراب مافیا کے خلاف سخت قدم اٹھانی چاہیے، ہو سکتا ہے حزب مخالف اس پر بھی ہنگامہ کرے، لیکن عوام سمجھتی ہے کہ حزب مخالف کا کام صرف مخالفت ہی کرنا ہوتا ہے ۔
اسلام میں شراب ام الخبائث ہے، اور اس کا نقصان بہت زیادہ ہے، اس لیے اس کا بنانا ، بنوانا، اس کا پینا ، خرید وفروخت کرنا ، نقل حمل کرنا، اس کی قیمت کھانا سب حرام ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سب پر لعنت ہے، ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں کی نئی نسل بھی شراب کے ساتھ دیگر منشیات کی عادی ہوتی جا رہی ہے ، دین سے دوری نے ہمارے بچوں کو اس طرف راغب کر دیا ہے ، ہمیں خود بھی اس کے خلاف مہم چلانی چاہیے، جلسوں میں اسے تقریر کا موضوع بنانا چاہیے اور سماج کو اس لعنت سے پاک کرنے میں اپنی حصہ داری نبھانی چاہیے ۔