اگرچہ دنیا بھرمیں عیسائی اقوام حضرت عیسیٰ کا یومِ پیدائش یعنی کرسمس کا دن ۲۵ دسمبر کو انتہائی جوش وخروش سے مناتی ہیں۔ لیکن عیسائیوں میں کچھ حقیقت پسند مکاتبِ فکر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ 25 دسمبر حضرت مسیحؑ کی ولادت کا دن نہیں بلکہ یہ دیگر بت پرست اقوام سے لی گئی ایک بدعت ہے۔ فقط یہی نہیں بلکہ تاریخِ کلیسا میں کرسمس کی تاریخ کبھی ایک جیسی نہیں رہی، کیونکہ جنابِ عیسیٰ علیہ السلام کا یومِ پیدائش کسی بھی ذریعے سے قطعیت سے معلوم نہیں ہے۔
حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش موسم ِگرما میں ہوئی
قرآن حکیم اور بائیبل سے حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش موسم گرما میں ہونا عین ثابت ہے اور دسمبر گرمی کا نہیں بلکہ سردی کا مہینہ ہوتا ہے۔ اس کا مصدقہ ثبوت یہ ہے کہ قصص القرآن کے مطابق جب حضرت مریم علیہا السلام جناب عیسی کی پیدائش کے بعد کھجور کے درخت کے نیچے جا بیٹھیں تو اﷲ تعالی نے انھیں درخت پر لگی پکی ہوئی کھجوریں کھانے کا حکم دیا۔ یاد رہے کہ کھجوریں موسم سرما میں نہیں بلکہ موسم گرما میں ہی پکتی ہیں۔
۲۵/دسمبر کو ولادتِ مسیحؑ کے طور پر مقرر کرنے کا باقاعدہ آغاز بالکل غیر واضح اور بے بنیاد ہے۔ پہلی وجہ تو ہے کہ خود عیسائیوں کے درمیان اس قدر اختلاف رائے اور متضاد روایتیں ہیں کہ کسی ایک نتیجہ پر حتمی اور یقینی طور پر پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسائی اسے ۲۵ دسمبر کو، مشرقی ارتھوڈوکس کلیسیا ٦ جنوری کو اور ارمینیہ کلیسیا ۱۹ جنوری کو مناتی ہے۔
کرسمس کے موقع پر ہونے والے جرائم و نقصانات:
کرسمس کا آغاز اس غرض سے ہوا تھا کہ لوگوں میں مذہبی رجحان پیدا کیا جائے یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابتدا میں یہ ایک ایسی بدعت تھی جس کی واحد فضول خرچی موم بتیاں تھیں، لیکن پھر کرسمس ٹری آیا، پھر موسیقی، پھر ڈانس اور آخر میں شراب بھی اس میں شامل ہو گئی۔ شراب کے داخل ہونے کی دیر تھی کہ یہ تہوار عیاشی کی شکل اختیار کر گیا۔
کرسمس اور اسلامی نقطۂ نظر:
امت مسلمہ کو اس رب ذوالجلال کے حمد و ثناء اور تعریف و توصیف میں ہمیشہ رطب اللسان ہونا چاہئے جس نے ایسا دین اور مذہب عطا فرمایا جو گردش زمانہ اور مرور ایام کے بعد بھی ہر طرح کی قطع و برید اور حذف و اضافے سے محفوظ و مامون اپنی اصل شکل و ہیئت میں آج بھی سامنے من و عن موجود ہے۔
غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں کے موقع پر ان کو مبارک باد دینے کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ چوں کہ یہ تہوار مشرکانہ اعتقادات پر مبنی ہوتے ہیں اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے شرک سے برأت اور بے تعلقی کا اظہار ضرروی ہے۔
کرسمس کی مبارک باد دینا گویا ان کے نقطۂ نظر کی تائید ہے؛ اس لیے کرسمس کی مبارکباد دینا جائز نہیں۔ اگر اس سے ان کی دین کی تعظیم مقصود ہو تو کفر کا اندیشہ ہے۔ اور اگر کرسمس کے موقع پر صراحتاً کوئی شرکیہ جملہ بول دے تو اس کے شرک ہونے میں تو کوئی شک نہیں ہوگا۔
نبی اکرم ﷺ نے یہود و نصاریٰ کی مشابہت سے منع فرمایا۔ ایسے تہوار پر مبارک باد دینا حرام ہے۔ خاص مذہبی تہوار پر کسی غیر مسلم کو کوئی تحفہ دینا جائز نہیں۔