لب پہ آتی ہے دعا پر تنازع
قومی خبریں

لب پہ آتی ہے دعا پڑھانے پر کارروائی، سوشل میڈیا پر شدید رد عمل

ملک بھر میں ان دنوں حالات دن بہ دن خراب ہوتے جارہے ہیں فرقہ پرست عناصر کی جانب سے مسلمانوں سے متعلق ہر چھوٹے سے چھوٹے معاملہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے یہاں تک بعض ایسی چیزیں جو خالص حب الوطنی پر مبنی ہے ان پر بھی نہ صرف اعتراضات کیے جارہے ہیں بلکہ مقدمات بھی درج کیے جارہے ہیں۔

متحدہ ہندوستان کے شاعر علامہ اقبالؒ نے 1902 میں ہندوستان کی شان میں ایک نظم ‘لب پہ آتی ہے دعا بن کر تمنا میری’ تحریر کی تھی اور اس نظم کے ایک ایک لفظ سے حب الوطنی کا جذبہ اجاگر ہوتا ہے اور اس کا ایک شعر ملک کی تعریف و توصیف بیان کرتا ہے۔ یہ نظم مسلم آبادی والے اسکولوں اور دیگر اسکولوں میں بھی ہر صبح اسمبلی میں پڑھائی جاتی ہے۔

ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے ضلع بریلی میں اس نظم کے پڑھائے جانے پر ایک سرکاری اسکول کی پرنسپل اور ایک استاد کے خلاف صبح مقدمہ درج کیا گیا اور اس الزام کے تحت پرنسپل کو معطل بھی کردیا گیا ہے۔ ایک شکشا متر وزیر الدین کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اسمبلی میں نظم پڑھتے ہوئے ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ’مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں یہ کیس درج کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ بھارت کی کئی ریاستوں میں ہندو عقیدے کی مقدس کتاب گیتا اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے اور مزید کئی ریاستیں اسے اپنے اسکولوں میں متعارف کروانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ سرکاری اسکول کی پرنسپل کو معطل کیے جانے اور دوسرے ایک استاد کے خلاف کی گئی کارروائی کے خلاف کئی قائدین، سماجی کارکنوں کے بیانات منظر عام پر آرہے ہیں۔ جنہوں نے اس پر اعتراض کیا ہے اور اسے زیادتی سے تعبیر کیا ہے۔ سینیئر صحافی راجدیپ سردیسائی نے لب پہ آتی ہے دعا تنازعے پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا کہ یہ مشہور دون پبلک اسکول میں، جہاں بھارت کے امیر ترین لوگوں کے بچے پڑھتے ہیں، بھی پڑھائی جاتی ہے۔ انھوں نے لکھا یہ کہاں آگئے ہم۔ افسوس ناک۔

دوسری جانب آلٹ نیوز کے فیکٹ چیکر محمد زبیر نے اسے زیادتی سے تعبیر کیا ہے۔ انہوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہوا ہے کہ یوپی کے بریلی میں ایک پرنسپل کو اسکول کے بچوں کی جانب سے علامہ اقبال کی لکھی دعا ‘لب پر آتی ہے دعا بن کے تمنا میری’ گانے کے بعد معطل کر دیا گیا ہے۔ جس بات پر اعتراض کیا گیا ہے وہ قابل اعتراض حصہ یہ ہے کہ: میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو۔ 120 سال قبل مشہور ومعروف شاعر ڈاکتر علامہ محمد اقبال نے اسے لکھا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ان کا لکھا ‘سارے جہاں سے اچھا’ آج بھی اسکولوں میں گایا جاتا ہے۔

ایک اور صارف نے یہ نشاندہی کی کہ اس کا استعمال ویلہم اسکول میں بھی ہوتا ہے۔ دون کی طرح ہی ویلہم میں بھی ملک کے اعلی طبقے کے بچے پڑھتے ہیں۔ انھوں نے لکھا کہ اسکول اسمبلی میں لب پہ آتی ہے پڑھایا جانا ایک عام سی بات ہے۔ یہ کیسی افسوسناک حالت ہے۔ یہ لوگ اتنے غیر محفوظ کیوں محسوس کرتے ہیں۔ یہ مایوس کن اقدامات ہیں۔

بھارت کے سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی کے سابق مشیر سدھیندر کلکرنی نے کہا کہ میں بی جے پی میں سمجھدار لوگوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ سمجھیں اور بولیں کہ یوپی میں اسکول کی پرنسپل کو معطل کرنا غلط، احمقانہ اور بھارت مخالف ہے۔

تین سال پہلے اکتوبر 2019 میں ضلع پیلی بھیت کے ایک سرکاری پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر کو بھی لب پہ آتی ہے پڑھانے کے باعث اسی تنظیم کے مقامی کارکنوں کی شکایت کے بعد معطل کر دیا گیا تھا۔ تنظیم کے کارکنوں نے الزام لگایا تھا کہ استاد نے طلبا کو ایک مذہبی دعا پڑھائی جو عام طور پر مدرسوں میں پڑھی جاتی ہے۔ ایک اور واقعہ میں اگست میں کانپور میں ایک اسکول کے منتظم کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا کیونکہ مبینہ طور پر اسکول میں صبح کی اسمبلی میں کلمہ طیبہ پڑھایا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے طلبا کو کلمہ پڑھنے کے لیے مجبور کیا تھا۔ حالانکہ انھوں نے دعویٰ کیا کہ صبح کی اسمبلی میں اسلام کے علاوہ ہندو، سکھ اور عیسائی عقیدے کی دعائیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔